مسلمان لڑکیوں کی غیر مسلم لڑکوں سے شادی سے متعلق مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی مسلمانوں سے چند اہم گزارشات

 

  انوارالحق قاسمی 

میڈیا پر اور اردواخبارات میں کثرت سے یہ افسوس ناک خبر پڑھنے کو مل رہی ہے کہ اب کثیر تعداد میں مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کرکے اپنی  دنیا و آخرت تباہ وبرباد  کر رہی ہیں۔

       آج کل جو لڑکیاں مرتد ہوکر غیر مسلم لڑکوں سے شادی کررہی ہیں، اس میں سراسر ان کے  والدین کا قصور ہے ،کہ وہ اپنی لڑکیوں کودینی تعلیم کے بجائے عصری تعلیم دلاتےہیں  اور عصری تعلیم کے جتنے بھی ادارے ہیں، سبھوں میں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے،جس کی بنا بآسانی مسلمان لڑکیاں  غیر مسلم لڑکوں سے  رابطہ کرلےتی ہیں ،اور پھر  مرتد ہو کر انہیں سےشادی کر لےتی ہیں ۔

   اسی طرح فیس بک اور واٹس ایپ کے ذریعہ بھی بہت سی مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے رابطہ کر کے شادی کر لے رہی ہیں،اور والدین ہیں کہ اپنی لڑکیوں پر گہری نظر نہیں رکھتے ہیں کہ میری لڑکیاں فیس بک اور واٹس ایپ کا غلط استعمال تو نہیں کررہی ہیں ۔

   ان ہی وجوہات کی بنا اس طرح کے واقعات  آئے روز کثرت سے پیش آرہے ہیں ۔

   ضرورت ہے کہ والدین اپنی لڑکیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر گہری نظر رکھیں اور انہیں سوشل میڈیا سے دور رکھیں!

     اسی پس منظر میں کل بروز بدھ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی -دامت برکاتہم العالیہ-نے مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی غیر مسلموں کے ساتھ شادی کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا :کہ اسلام نے نکاح کے معاملہ میں اس بات کو ضروری قرار دیاہے کہ ایک مسلمان لڑکی کا نکاح مسلمان لڑکےہی سے ہوسکتاہے،اسی طرح مسلمان لڑکابھی کسی مشرک لڑکی سے نکاح نہیں کرسکتا،اگر ظاہری طور پر اس نے نکاح کی رسم انجام دے بھی لی تو شرعا اس کا اعتبار نہیں ہوگا؛لیکن افسوس کہ تعلیمی اداروں اور ملازمت کے مواقع میں مردوں اور عورتوں کے اختلاط نیز دینی تعلیم سے ناوا قفیت اور ماں باپ کی طرف سے تربیت کے فقدان  کی باعث ادھرکثرت سے بین مذہبی شادی کے واقعات پیش آرہےہیں،کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ مسلمان لڑکیاں غیر مسلموں کے ساتھ چلی گئیں ،اور بعد میں بڑی تکلیف سے گزریں ،یہاں تک کہ ان کو اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا،اس پس منظر میں گزارش کی جاتی ہے کہ:

1-علما کرام عوامی جلسوں میں کثرت سے اس موضوع پر خطاب کریں اور لوگوں کو اس کے دنیوی واخروی نقصانات سے آگاہ کریں ۔

2-خواتین کے زیادہ سے زیادہ اجتماعات رکھےجائیں،اور ان میں دوسرے اصلاحی موضوعات کے ساتھ ساتھ اس پہلو پر خصوصیت سے گفتگو کی جائے۔

3-ائمہ مساجد جمعہ کے خطبات اور قرآن و حدیث کے دروس میں اس موضوع پر گفتگو کریں،اور لوگوں کو بتائیں کہ انہیں کس طرح  اپنی لڑکیوں کی تربیت کرنی چاہیے کہ ایسے واقعات پیش نہیں آئیں؟

4-والدین اپنے بچوں کی دینی تعلیم کا انتظام کریں،لڑکوں اور لڑکیوں کے موبائل وغیرہ پرگہری نظر رکھیں ،جہاں تک ہوسکے لڑکیوں کو گرلس اسکول میں پڑھانے کی کوشش کریں،اس بات کا اہتمام کریں کہ اسکول  کے سوا ان کے اوقات گھر سے باہر نہ گزریں ،اور ان کو سمجھائیں کہ ایک مسلمان کے لیے مسلمان ہی زندگی کا ساتھی ہوسکتاہے۔

5-عام طور پر جو لڑکے یا لڑکیاں رجسٹری آفس میں نکاح کرتے ہیں،ان کے ناموں کی فہرست پہلے سے جاری کردی جاتی ہے،دینی تنظیمیں،جماعتیں،مدارس کے اساتذہ وذمہ داران اور آبادی کی معتبر اور اہم شخصیتیں ان کے گھروں کو پہنچ کر انہیں سمجھائیں اور بتائیں کہ اس نام نہاد نکاح کی صورت میں ان کی پوری زندگی حرام میں گزرے گی،اور تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وقتی جذبہ کے تحت کی جانے والی یہ شادی دنیا میں بھی ناکام ہی رہے گی۔

6-لڑکوں اور خصوصا لڑکیوں کے سرپرستان اس بات کی فکر کریں کہ شادی میں تاخیر نہ ہو،بروقت شادی ہوجائے ؛کیوں کہ شادی میں تاخیر بھی ایسے واقعات کا ایک بڑاسبب ہے۔

7-سادگی کے ساتھ نکاح کی تقریبات انجام دیں،اس میں برکت بھی ہے،نسل کی حفاظت بھی ہے،اور اپنی قیمتی دولت کو برباد ہونے سے بچانا بھی ہے۔

«
»

جناب عبداللہ صاحب کی کچھ یادیں

مساجد کے ذمہ داران ملی مسائل کے بھی ذمہ دار ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے