نریندر مودی اور عمران خان کا مقابلہ ’انڈیا ٹوڈے‘ کا ہندستانی رہنماؤں کو مشورہ

عبدالعزیز

     ہندستان میں جن لوگوں نے جنگ آزادی میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں حصہ لیا تھا اور کانگریس پارٹی میں شامل تھے ان کے طرزِ زندگی میں گاندھی جی کی زندگی کے کچھ نہ کچھ اثرات پائے جاتے تھے۔ خاص طور پر لباس اور رہن سہن میں سادگی جھلکتی تھی۔ بات چیت میں بھی صفائی اور ستھرائی  تھی۔ بعض لوگ جو گاندھیائیٹ ہوگئے تھے ان کے طرزِ رہائش میں اور بھی سادگی نظر آتی تھی۔ آزادیِ ہند کے بعد بھی جواہر لعل نہرو، لال بہادر شاستری، چودھری چرن سنگھ اور مرارجی ڈیسائی وزیر اعظم ہوئے۔ کچھ دنوں کیلئے گلزاری لال نندہ بھی وزیر اعظم ہوئے تھے۔ بہت دنوں تک وہ وزیر داخلہ تھے۔ گلزاری لال نندہ کا تو یہ حال تھا کہ وزارت سے سبکدوشی کے بعد ان کے پاس ٹھکانے کا گھر بھی نہیں تھا۔ انھوں نے زندگی بھی کسمپرسی کے عالم میں گزاری۔ دیگر وزرائے اعظم کے اندر بھی لباس، رہن سہن، گفتگو اور بات چیت میں سادگی پائی جاتی تھی۔ 
    مجھے یاد ہے کہ پاکستانی صحافی جب ہندستان آیا کرتے تھے تو ہندستانی رہنماؤں سے بہت متاثر ہوتے تھے۔ پاکستان کے کچھ صحافی شاستری اور چرن سنگھ کے زمانے میں ہندستان آئے تھے۔ ان رہنماؤں سے ان کی رہائش گاہوں پر ملاقاتیں کی تھیں اور دیگر رہنماؤں سے بھی ان کی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ان لوگوں کی سادگی سے یہ لوگ بیحد متاثر ہوئے تھے۔ پاکستان جاکر اپنے کالموں میں لکھا تھا کہ ہندستان کے سیاسی رہنما جس قدر سادگی سے رہتے ہیں پاکستان میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں جو سیاسی رہنما حکمراں ہوئے ان پر مغربیت کی چھاپ بہت زیادہ پائی جاتی تھی۔ عمران خان سے پہلے سب کے اندر مغرب پرستی کی جھلک نظر آتی تھی۔ آج بھی ہندستان کی پارلیمنٹ اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے رواں اجلاس کو دیکھا جائے تو ہندستان کی پارلیمنٹ میں سوٹ بوٹ اور ٹائی کے ساتھ گنے چنے لوگ نظر آتے ہیں اور پاکستان کی پارلیمنٹ میں 60 سے 70 فیصد افراد سوٹ بوٹ اور ٹائی میں نظر آتے ہیں۔ کم و بیش یہی فرق ہندستان و پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر بھی نظر آتا ہے۔ لیکن جب سے شری نریندر مودی وزیر اعظم آئے ہندستان کے لیڈروں میں بھی رہن سہن اور گفتگو اور بات چیت میں سادگی باقی نہیں رہی۔ نریندر مودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دن میں چار پانچ بار لباس بدلتے ہیں۔ باہر ملکوں میں جب جاتے ہیں تو ان کا سوٹ پانچ سے دس لاکھ کا ہوتا ہے اور خرچ 20، 25لاکھ سے کم نہیں ہوتا ہے۔ ابھی جو ڈرامہ یا تماشہ دو قیادتوں کا امریکہ کے ہوسٹن میں ہوا اس میں لاکھوں روپئے خرچ کئے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دورے میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ تک مودی سرکار نے مودی کے سفر، جلسہ اور دیگر کاموں پر صرف کیا۔ اس کے برعکس عمران خان کے حالیہ دورہئ امریکہ پر ڈیڑھ لاکھ روپئے خرچ ہوئے۔ 
    انگریزی روزنامہ ’انڈیا ٹوڈے‘ نے ہندستانی رہنماؤں کو وزیر اعظم عمران خان کے دورہئ امریکہ سے کچھ سیکھنے کا مشورہ دیا ہے۔ اور وزیر اعظم پاکستان کی کفایت شعاری کی تعریف کی ہے۔ عمران خان کا تعلق ایک بہت ہی امیر فیملی سے ہے۔ لندن میں ان کی تعلیم ہوئی ہے۔ زندگی کا اچھا خاصا حصہ یورپ میں گزارا ہے۔ ان کی فیملی کا طورطریقہ اور رہائش اور لباس فرنگیوں سے بہت ملتا جلتا تھا۔ کرکٹ کی دنیا میں بھی ہندستان و پاکستان میں شاید ہی کوئی عمران خان کے جوڑ کا بہ حیثیت کیپٹن ہوا ہو۔ سیاست میں آنے سے پہلے ہی پوری دنیا میں ان کی مقبولیت تھی۔ ان کی انگریزی بھی انگریزوں سے بہت حد تک ملتی جلتی ہے۔ بہت اچھی انگریزی بول لیتے ہیں۔ اردو زبان بھی خراب نہیں ہے۔ ان سب کے باوجود سیاست میں آنے کے بعد عمران خان بہت بدل گئے۔ معمولی لباس میں نظر آنے لگے۔ گفتگو بھی عام انسانوں کی طرح ہوگئی۔ رہائش میں بھی سادگی آگئی اور جب وزیر اعظم ہوئے تو وزیر اعظم

کے مکان کو بھی بدل دیا۔ صدر کی رہائش بھی بدل گئی۔ دوسرے وزراء کو بھی مشورہ دیا کہ وہ سادگی اور کفایت شعاری کی زندگی گزاریں۔ نریندر مودی کی تعلیم کا حال کچھ عجیب سا ہے۔ وہ کتنا پڑھے ہیں کسی کو ٹھیک سے معلوم نہیں ہے۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ وہ چائے بیچتے تھے اور کبھی کہتے ہیں کہ 35سال تک بھیک مانگتے تھے۔ اپنے آپ کو پسماندہ طبقہ کا فرد بتاتے ہیں۔ حالانکہ بہت سے لوگوں نے نشاندہی کی ہے کہ ان کا پسماندہ طبقے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ انھوں نے سیاست میں آنے کے بعد کسی خاص غرض اور مقصد سے یہ کیا ہے۔ نریندر مودی کی سرکار کو راہل گاندھی’سوٹ بوٹ کی سرکار‘ کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ امیرانہ ٹھاٹ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ ہندستان کے کئی وزیر اعظموں نے جو بیرونی سفر پر خرچ کیا ہوگا نریندر مودی نے پانچ چھ سال میں اکیلے ہی ان سے کئی گنا زیادہ خرچ کیا ہے اور خرچ کر رہے ہیں۔ 
    مشہور امریکی بزنس میگزین ’فوربس‘ (Forbes) نے ہندستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو مشورہ دیا ہے کہ اپنے ملک میں وہ زیادہ وقت لگائیں تاکہ ملک کی بگڑی ہوئی صورت حال سنبھل جائے۔ ہندستان کی جو معاشی صورت حال ہے وہ بہت بگڑ چکی ہے۔ اورلوگوں میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ نفرت و کدورت ایک دوسرے کے اندر پیدا ہوگئی ہے۔ ملک کو بہتر بنانے کے بجائے اس کی بگڑی ہوئی صورت کو نظر انداز کرکے غیر ملکوں میں جاکے بتانا کہ ’ہندستان میں سب خیریت سے ہے‘صحیح نہیں ہے۔ دنیا بھر میں سیر کرنا، روس اور امریکہ کے سربراہوں سے بار بار ملاقات کرنا مودی کی شخصیت کو اونچائی دینے کے بجائے گراوٹ کی طرف لے جاتی ہے۔ ہندستانی معیشت کی گراوٹ ایک سال پہلے سے ہی 8% سے 5% تک پہنچ گئی ہے۔ بے روزگاری 45سال کے سب سے زیادہ ہوگئی ہے۔ 40، 50 لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ بہت سے کل کارخانے بھی بند ہوگئے ہیں۔ مسلم اقلیت اور دلتوں پر جو ظالمانہ رویہ حکمراں جماعت کے لوگوں کی طرف سے ہے وہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ کشمیر میں 51، 52دنوں سے لوگ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بند گھروں میں رہ رہے ہیں۔ حراست یا جیل میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں کو ملک کی مختلف جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ فوجی جب چاہتے ہیں، جس کے گھر میں چاہتے ہیں داخل ہوجاتے ہیں اور نوجوانوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔ ان کے سرپرستوں کو بھی نہیں بتاتے کہ اسے کہاں لے جارہے ہیں اور کیوں لے جارہے ہیں۔ دفاتر بند ہیں، اسکول و کالجز بند ہیں، یونیورسٹی بند ہے، بازار بند ہے، دکانیں اور کاروباری ادارے بند ہیں۔ سڑکیں سنسان اور ویران ہیں۔ ہر دس آدمی پر ایک فوجی تعینات ہے۔ ایک کروڑ چند لاکھ لوگوں کیلئے 9 لاکھ فوجیوں کا پہرہ ہے۔ 
    ہندستان کی پانچ اہم تعلیم یافتہ خواتین کی ایک ٹیم نے کشمیر دورے کے بعد کہا ہے کہ 13 ہزار بچے لاپتہ ہیں۔ قائد وفد سعیدہ حمید نے پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ گویا ایک ایسی حالت ہے جس کو لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے ہوسٹن کے ’ہاؤڈی موڈی‘ کے جشن میں نریندر مودی کی تقریر سنی ہوگی وہ حیرت میں پڑگئے ہوں گے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندستان میں ایک ارب تیس کروڑ لوگ بہت ہی پرامن زندگی گزار رہے ہیں۔ سب کے حقوق برابر ہیں۔ کسی پر کچھ ظلم نہیں کیا جارہا ہے۔ مختلف مذاہب اور زبانوں کے لوگ ہندستان میں بستے ہیں، سب کے ساتھ انصاف کیا جارہا ہے۔ نریندر مودی کچھ اس طرح اپنی نادانی یا کم عقلی میں بول رہے تھے جیسے دنیا کو نہ ہندستان کی حالت معلوم ہے اور نہ کشمیر کی حالت سے واقفیت ہے۔ رسالہ ’فوربس‘ نے مودی کو جو مشورہ دیا ہے اس سے ان کی آنکھ کھل جانی چاہئے۔ میری معلومات کی حد تک بیرونی ممالک کی میڈیا ہندستان اور کشمیر کی صورت حال کو ہوبہو پیش کر رہی ہے۔ لیکن حکمراں طبقہ جان بوجھ کر ہندستانی مارکیٹ کے پیش نظر اور عالمی منظر اور پس منظر کی وجہ سے خاموش ہے۔ صرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جن کے قول و فعل کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے نریندر مودی کو اپنا انتخابی ایجنٹ بنائے ہوئے ہیں اور اس کے بدلے میں ان کو ’فادر آف انڈیا‘ (بھارت کا باپ)کہہ رہے ہیں۔ اس پر سنگھ پریوار والے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ لیکن ان کو معلوم نہیں ہے کہ عیسائیوں میں ’فادر‘ کہنے کی جو روش ہے وہ ایک مذہبی روش ہے۔ وہ ہر پادری کو جن کی نہ شادی ہوئی اور نہ اولاد ہے ان کو فادر کہتے ہیں۔ نریندر مودی بھی لاولد ہیں۔ شادی تو ہوئی ہے مگر اس کے ساتھ دو تین ہی سال رہ کر اسے گھر سے باہر کردیا۔ آج ان کی بیوی انتظار میں ہے کہ ان کے پتی ان کو اپنے محل میں بلائیں گے۔ مگر غیر طلاق شدہ بیوی کی آرزو پوری نہیں ہورہی ہے  ؎

 ’ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن- خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک‘
    ہندستان و پاکستان میں روزِ اول سے کشمکش برپا ہے۔ گاندھی جی اور مولانا آزاد کی خواہش تھی کہ دونوں ممالک سکھ شانتی سے رہیں۔ پاکستان کی مضبوطی اور استحکام کیلئے بھی دونوں رہنما خواہش مند تھے۔ جواہر لعل نہرو کا بھی رویہ اچھا تھا۔ پاکستان میں محمد علی جناح اور لیاقت علی خاں کا بھی انداز خراب نہیں تھا۔ لیاقت خاں کو تو قادیانیوں کی سازش سے قتل کر دیا گیا۔ اور وہ زیادہ دنوں تک حکومت نہیں کرسکے۔ محمد علی جناح بھی زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہ سکے۔ ان دونوں شخصیتوں کی زندگی کے بعد پاکستان پر پاکستانی فوج کا قبضہ رہا۔ فوجی حکومت کی وجہ سے جمہوریت پاکستان میں پنپ نہیں سکی۔ ایک دوبار کے علاوہ کبھی صحیح انتخاب بھی نہیں ہوا۔ غلط پالیسی، غلط رویہ، فرقہ واریت اور تعصب کی وجہ سے ملک دو حصوں میں بٹ بھی گیا۔ لوٹ کھسوٹ کی حکومت قائم رہی۔ چند سالوں سے وہاں کے سپریم کورٹ کی نگرانی میں جو احتساب کمیٹی سیاسی لیڈروں کی جانچ پڑتال کر رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کے سب جیل میں جانے کے لائق ہیں۔ اس لئے بھی ہندستان و پاکستان میں اچھے تعلقات قائم نہیں ہوسکے۔ یہاں کے حکمرانوں میں کچھ لوگ یقینا چاہتے تھے کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے۔ اٹل بہاری واجپئی بھی خواہشمند تھے۔ شروع میں تو ایسا لگ رہا تھا کہ نریندر مودی تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ میاں نواز شریف کو اپنی تقریب حلف وفاداری میں بلانا، اچانک ناشتے پر کابل سے ان کے گھر پہنچ جانا کچھ ایسی چیزیں تھیں جس سے بڑی امید جاگ اٹھی کہ دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر ہوجائیں گے۔ لیکن نریندر مودی نے پورا الیکشن شروع سے لے کر آج تک پاکستان، مسلمان، کشمیر کے نام پر لڑا۔ اب تو کشمیر ایسی جگہ پہنچ چکا ہے جہاں سے واپسی نظر نہیں آتی۔ 
    پاکستان پہلے ہندستان سے گفتگو کا ہر وقت خواہاں رہا کرتا تھا لیکن جب سے کشمیر کے خصوصی درجے کو ہٹا دیا گیا اور اس کو دو ٹکڑے میں بانٹ دیا گیا اور کشمیریوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا پاکستان ہندستان سے گفتگو کرنے کا خواہشمند نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کشمیر کی وجہ سے دو نیوکلیائی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہوگئی ہیں۔ یہ سنگھ پریوار اور خاص طور سے آر ایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق ہے۔ روس اور امریکہ یا چین کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان دونوں ممالک میں خوشگوار تعلقات ہوں۔ کیونکہ خوشگوار تعلقات سے بڑی طاقتوں کی مارکیٹ خراب ہوجائے گی۔ دیگر ممالک میں کوئی دم نہیں ہے۔ دو چار ملکوں کو چھوڑ کر اس وقت سب کے سب امریکہ کے غلام ہیں۔ ٹرمپ ایک غیر سنجیدہ، غیر اہم شخصیت کا نام ہے۔ وہ خاص طور پر مودی کے ساتھ ڈرامہ کرتے رہتے ہیں۔ عمران خان کو بھی تسلی دیتے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اس وقت خوش قسمتی ہے کہ اس کو عمران خان جیسے سنجیدہ لیڈر میسر ہے۔ نریندر مودی میں نہ سنجیدگی ہے، نہ حکمت ہے اور نہ دوراندیشی ہے۔ ان کو صرف آر ایس ایس کے ایجنڈے کو کسی طرح لاگو کرنے کی فکر ہے تاکہ وہ اور امیت شاہ زندگی بھر شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ اپنے اپنے عہدوں پر فائز رہیں۔ اب جو امید ہے ہندستان کے اس طبقہ سے ہے جو فرقہ پرست نہیں ہیں اور انسانوں کا بھلا چاہتا ہے۔ جنگ و جدل کو ناپسند کرتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے بھی اس طبقے سے ہے جس کے اندر سنجیدگی اور متانت پائی جاتی ہے۔ جو لڑائی جھگڑے کو دونوں ملکوں کیلئے نقصان دہ سمجھتا ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو گولی کے بجائے بولی سے حل کرنے کے خواہاں ہے۔ ابھی تو کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ سرحدوں پر تناؤ ہے۔ دونوں ملکوں میں تناؤ ہے۔ بس دونوں ملکوں کے اچھے لوگوں کو سامنے آنے کی ضرورت ہے تاکہ جنگ و جدل نہ ہو۔ امن و شانتی کے دونوں ممالک کے لوگ رہ سکیں۔ کشمیریوں کو بھی ان کا حق مل جائے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

28ستمبر2019(فکروخبر)

«
»

تری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت

بیماری آزمائش ہےاور تندرستی ہزار نعمت!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے