ٹهوس حقائق ٹهوس نہيں

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ

آپ كى زمين وجائداد كا گر كوئى دوسرا شخص دعويدادار ہو تو آپ عدالت ميں ملكيت كے كاغذات پيش كرتے ہيں ، يه  دستاويزات حق ملكيت كا ثبوت سمجهى جاتى ہيں،  اور عام طور سے لوگ ان كاغذات پر اعتماد كرتے ہيں، اور ان كى موجودگى ميں انہيں اطمينان ہوتا ہے،  ليكن كيا يه كاغذات واقعى اس قدر قابل اعتماد ہيں؟ برما كے مسلمانوں كو جب بے گهر كيا گيا  اس وقت ان كے پاس ثبوت ملكيت كے ٹهوس حقائق موجود تهے، ليكن يه ٹهوس حقائق ٹهوس نه ثابت ہوئے، اسى طرح اسپين سے نكالے جانے والے مسلمانوں، جرمنى  سے در بدر  كئے جانے  يهوديوں، فلسطين كے نكبت زده مسلمانوں كے پاس وطنيت اور ملكيت كى شہادات موجود تهيں، تاہم يه حقائق وشہادات ان كے لئے كهوكهلے ثابت ہوئے۔

شہنشاہيت روم، مملكت فارس، خلافت بنى اميه وبنى عباس، حكومت آل عثمان،   سلطنت مغليه، برطانيه عظمى وغيره اس زمين كے ٹهوس حقائق تهے، ليكن پائيدار نه ره سكے، ايك وقت تها كه جب ان كے محلوں كى طرف كوئى ہاته بڑهتا  تو وه ہاته كاٹ ديا جاتا، جو پاؤں اٹهتا اسے توڑ ديا جاتا، جو نگاه غلط بيں ان پر ڈالى جاتى اسے عبرتناك سزا دى جاتى،  انجام كار يه سارے محل، سارے اثاثے، حكمرانى كے سارے مظاہر، اور سارى قيمتى چيزيں ان لوگوں كے قبضه ميں آگئيں جن كے پاس ثبوت ملكيت كى كوئى دستاويز نہيں تهى، بلكه وه ہر قسم كے دعوى  اور شہادت دعوى سے معرا تهے۔

سرزمين ہند ميں مدتوں سے لوگ مكمل وغير مكمل دستاويزات كى بنياد پر حق ملكيت ركهتے چلے آئے ہيں، بلكه بسا اوقات حق ملكيت كا احترام اس قدر ذہنوں ميں راسخ تها كه بغير كسى دستاويز كے وه امن وامان كى زندگى گزار رہے تهے، اب مخصوص قسم كے دستاويزات كى مانگ كى جا رہى ہے، ہندوستان كے عام باشندے ان كے تيار كرنے ميں دل وجان سے لگے ہيں، اور صديوں اور نسلوں سے يہاں آباد لوگ ايك نا معلوم اضطراب سے دو چار ہيں، ياس وقنوط كى ايك كيفيت ہے، اور عجز وبے بسى ہر ايك كے لب ولہجه سے ہويدا۔

يه كہنا مقصود  نہيں كه لوگ وه دستاويزات نه تيار كريں جن كا مطالبه كيا جا رہا ہے، يا وه كاغذات اكٹها نه كريں جو ان كے لئے كار آمد ہوسكتے ہوں، بلكه  انسانيت كا تقاضا ہے كه جو لوگ ان دستاويزات كے مفہوم سے واقف نہيں ہم انہيں واقف كرائيں، اور جنہيں ان كى تيارى يا ان كے اكٹها كرنے ميں كسى دشوارى كا سامنا ہے، ہم ان كى تيارى ميں  ان كى مدد كريں۔

يہاں مقصود اس سچائى كو ياد دلانا ہے كه جن حقائق كو ہم ٹهوس سمجهتے ہيں وه ٹهوس نہيں، بسا اوقات ان كى موجودگى  وغير موجودگى دونوں ميں فرق نہيں ہوتا، اس كائنات ميں نه مادى تخليقات ٹهوس ہيں، اور نه غير مادى معانى،  ٹهوس صرف حكم الہى ہے ، كتنے لوگ ہيں جن كے پاس رہنے كى كوئى جگه نہيں رب العالمين  انہيں محل عطا كرتا ہے، اور كتنے ايسے  ہيں جنہوں نے محلوں كى تعمير كى يا جو محلوں ميں پيدا ہوئے جب احكم الحاكمين كا فيصله ہوتا ہےان كو ان محلوں سے بے دخل كر ديا جاتا ہے۔

جن كے پاس عقل دانا و دل بينا ہے وه جانتے ہيں كه  اس كائنات  ميں صرف حكم الہى ٹهوس ہے، سارے اسباب ومسببات اس كى مخلوق ومملوك ہيں، اور ان كے درميان ربط بهى اسى كا تخليق كرده ہے، اور يه سارے اسباب، مسببات وروابط سب اس كے تابع فرمان ہيں، اسى نے دشت وبياباں بنايا، اور دشت وبيابياں ميں چمن اور گلزار بنائے، اسى سے ہے ہر ذى حيات كى بقا، نتيجۂ صنعت بارى ہے سارى دنيا، اس كائنات اور اس كے جمله مظاہر كو احسن الخالقين سے الگ كرديں تو نه ان كا كوئى وجود ہوگا، اور نه ان كے وجود كو كوئى بقا۔

سمجهدار  ہيں وه لوگ جو خدا پر ايمان ركهتے ہيں، اس پر بهروسه كرتے ہيں، اس كى بات مانتے ہيں ، اسے خوش كرنے كى فكر كرتے ہيں اور اس كى اطاعت ميں اس كے معين كرده اسباب كو اختيار كرتے  ہيں، كيونكه وه جانتے ہيں كه جب ان كا خدا ان  كے ساته ہو تو ہر حقيقت ٹهوس ہے، اور اگر خدا ساته نہيں تو ٹهوس حقائق سراب سے زياده وقعت نہيں ركهتے ،  خوشا نصيب ہيں جو  ہر لمحه اس كى ياد ميں محو ہيں، اور خلوت وجلوت ميں اسى كے دهيان ميں مست۔

محروم قسمت ہيں وه لوگ جو خالق  ومالك كى پرواه نہيں كرتے اور اسباب كو خالق وفاعل حقيقى سمجكر  ان  پر اعتماد كرتے ہيں، اس كائنات كى آيات بينات انہيں پكارتى ہيں، مگر عقليں ان كى مغلوب الهوى ہيں، اور دل ان كے آلائشوں سے پر ہيں، غفلت كے ان سرمستوں كو كوئى اٹها نہيں سكتا،  وه نفس باد سحر ہو، يا نالۂ پر درد بلبل ہو، نسيم صبح كے معطر جهونكے ہوں يا طائران خوش الحاں كے ترانے، كوئى انہيں جگا نہيں سكتا۔

آنكهيں اس لئے دى گئى تهيں تاكه اسے ديكها جائے جو ہر عياں سے زياده عياں ہے، عقليں اس لئے عطا كى گئے تهيں تاكه  اسے سمجها جائے جس كے دلائل وشواہد لا محدود ہيں، دل كا تحفه اس لئے ارزاں ہوا تها تاكه  اس كے سامنے جهكے جو دلوں كا تنہا مكين ہے، افسوس ان آنكهوں پر جو مخلوقات كو ديكهيں اور خالق كو نه ديكهيں، ان عقلوں پر جو خالق ومخلوق كے رشته پر غور كرنے سے قاصر ہيں، اور ان دلوں پر جو اسے نه پہچان سكيں جو رگ جاں سے زياده قريب ہے، شايد ان كو اس وقت ہوش آئے جب سامنے ہوگى وه ساعت جس سے كوئى چاره نہيں، مگر  اس وقت موقع ہاته سے نكل چكا ہوگا، حسرت ہے ان حسرت كرنے والوں اور كف افسوس ملنے والوں پر۔

«
»

رویش کمار کے ویڈیو، ناگپور کی ریلی اور گوتم گمبھیر کے ٹوئٹ کا سچ

قندیل اثاثہ ہے ، اثاثہ جو میں سمجھوں !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے