پانی کی ایک بوند پر لکھی ہوئی ہے سب

حفیظ نعمانی

پانی کا مسئلہ یوں تو پوری دنیا کا ہے لیکن آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہندوستان ہونے کی وجہ سے خصوصی توجہ کا محتاج ہے۔ اپریل سے شروع ہوکر مئی اور جون کے تقریباً پورے مہینہ میں جو مناظر مہاراشٹر، تمل ناڈو، کرناٹک، مدھیہ پردیش اور اُترپردیش کے بعض علاقوں میں رہنے والوں پر جو بیتی اور پورے ملک کے لئے جو پیشین گوئی ہوتی رہی اس نے ہر اس آدمی کو جو اس مسئلہ کی نزاکت کو سمجھنے کے قابل ہے ہلاکر رکھ دیا ہے۔
آج سے 80 سال پہلے ہم جب 9-8  برس کے تھے بریلی میں رہتے تھے وہیں کے رہنے والے ایک عالم دین مولانا مسیح الزماں تھے جو انتہائی دُبلے اور کمزور تھے اُن کے بارے میں گھر کے بڑے جب بات کرتے تھے تو بتاتے تھے کہ وہ بواسیر کے مریض ہیں اور پیدل چلنا ان کا علاج ہے۔ وہ جب والد صاحب سے ملنے آتے تھے تو اگر ہم سامنے آجاتے تھے تو فرمائش کرتے تھے کہ گھر کے اندر جس گھڑے کا پانی سب سے زیادہ ٹھنڈا ہو اس کا آدھا کٹورہ پانی لے آؤ۔ ہم جب والدہ (جن کو بواجی کہتے تھے) سے کہتے تھے کہ مولانا کے لئے نئے گھڑے سے آدھا کٹورہ پانی دے دیجئے تو وہ زمیندار کی اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے کہتی تھیں کہ مولانا کو کہنے دو تم بھرا کٹورہ لے جاؤ۔ ہم جب پورا کٹورہ لے کر جاتے تھے تو مولانا ڈیوڑھی میں آکر جہاں سے پورا پردہ تھا مگر آواز اندر جاسکتی تھی فرماتے تھے کہ میری بہن میری پیاس آدھے کٹورہ سے دور ہوجائے گی۔ زیادہ پانی پیٹ کا بوجھ بنتا ہے اس میں سے آدھا پی کر اگر آدھا کٹورہ پھینک دیا تو گناہ ہوگا اس لئے اس میں سے آدھا کٹورہ اسی گھڑے میں لوٹا دو۔ اور پھر وہ آدھا کٹورہ پانی پی کر اگر والد صاحب نہیں ہوتے تھے تو چلے جاتے تھے۔ موسم کوئی بھی ہو وہ اپنی تکلیف کی وجہ سے بہت تیز تیز چلتے تھے گرمی برسات میں ان کا کرتہ پسینہ میں تر رہتا تھا۔ اور یہ بات ہم نہیں جانتے تھے کہ ان کا کوئی گھر ہے کہ نہیں اور ہے تو اس میں کون کون ہے؟ وہ جب کبھی دوپہر کو تشریف لاتے تھے تو والد کے اصرار پر بہت تھوڑاسا کھانا کھاکر مسجد میں چلے جاتے تھے اور وہیں آرام کرتے تھے۔ اس زمانہ میں نہ بجلی تھی اور نہ پنکھا۔
مسجد میں جو کوئی تندرست نمازی آتا تھا اس سے فرمائش کرتے تھے کہ غسل خانہ میں گھڑا رکھا ہے اسے لاکر آدھا گھڑا پانی اندر رکھ دو میں ذرا پسینہ دھولوں جو حضرات مولانا کو نہیں جانتے تھے وہ کہتے تھے کہ مولانا آدھا کیا ہم کہئے تو دو گھڑے بھر کے رکھ دیں اور وہ ہینڈپمپ چلاتے جاتے تھے اور مولانا بس بس میرے بھائی کہتے جاتے تھے اور جب بھرا گھڑا وہ اٹھانے لگتے تھے تو مولانا گھڑا پکڑلیتے تھے اور کہتے تھے کہ جب میرے جسم کا سارا پسینہ آدھے گھڑے سے دُھل جاتا ہے تو میں پورے گھڑے کا حساب کیسے دوں گا؟ اور گھڑے کا آدھا پانی مٹی کے لوٹے میں بھر بھرکر ہینڈپمپ میں واپس ڈال دیتے تھے۔
اتنی کم عمر میں مولانا مسیح الزماں صاحب ایسے زمانہ میں جب سیلاب کی خبروں کا تو ذکر سنا جاتا تھا پینے کا پانی کا یہ تصور بھی نہیں تھا کہ وہ بھی کبھی عطر کی طرح ہوجائے گا اس زمانہ میں آدھا کٹورہ پینا اور دبلے پتلے ہونے کی وجہ سے آدھے گھڑے سے نہانے پر اصرار کرنا یہ اس بصیرت کی وجہ سے تھا جو اللہ والا ہونے کی وجہ سے ان کو حاصل تھی۔
مولانا مسیح الزماں صاحب حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حلقہ سے تعلق رکھتے تھے وہ اپنی اسی بیماری کی وجہ سے کہیں مدرسہ میں بیٹھ کر نہیں پڑھا سکتے تھے اور یہ ان کی عظمت کی بات تھی کہ جو اُن سے اس حال میں پڑھ سکے کہ وہ کتاب لئے ہوئے ساتھ ساتھ چلتا رہے اور سبق سناتا رہے وہی ان سے فیض اٹھا سکتا تھا۔ اور ہم نے یہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مولانا حبیب الرحمان جو برسوں ندوہ میں پڑھاتے رہے وہ ان سے اس طرح پڑھتے رہے اور انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔ ہم تو برسوں سے خانہ نشین ہیں ندوہ کے وہ استاذ جو 20  یا 25  سال سے پڑھا رہے ہیں وہ ضرور ان کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔
80  سال کے بعد ملک کے سب سے زیادہ بااختیار آدمی وزیراعظم مودی جی نے من کی بات میں پانی کے اس مسئلہ کو اُٹھایا ہے جس سے ایک مسلمان عالم 80  برس پہلے خبردار کرچکا تھا۔ اور یہ ان کا ہی اثر ہے کہ میں گلاس میں صرف اتنا پانی لیتا ہوں جتنا پینا ہوتا ہے اور میرے گھر کے تمام بچوں کو جو ساتھ کھانا کھاتے ہیں یہ معلوم ہے کہ میں کتنا پانی لیتا ہوں وہ بس اتنا ہی دیتے ہیں۔ نئے سماج میں پانی پھینکنا بھی فیشن ہے۔ اسلام میں جوٹھا کوئی چیز نہیں ہے ہندو سماج میں میرے پئے ہوئے گلاس میں آدھا گلاس پانی ڈال کر اسے پاک کیا جاتا ہے صرف فیشن ہے۔ وزیراعظم نے تہواروں کے موقع پر پانی کو موضوع بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ پوری قوم کو یہ سمجھنا چاہئے کہ نئے فیشن کے غسل خانوں اور پیخانوں میں گھڑے اور لوٹے کے مقابلہ میں چار گنا خرچ ہوتا ہے۔ ملک کے سائنس دانوں سے یہ درخواست کرنا چاہئے کہ زندگی کی ہر ضرورت میں خرچ ہونے والے پانی کم سے کم خرچ کرنے کیلئے کہاں کیا کیا جائے؟ اور وہ جو مشورہ دیں اس پر عمل کرنا چاہئے حکومت اور پارٹی کو نہ دیکھنا چاہئے۔ آج کے حالات کی ترجمانی اس شعر سے بہتر نہیں ہوسکتی   ؎
پانی کی ایک بوند پہ لکھی ہوئی ہے سب
ہے کتنی مختصر مری رودادِ تشنگی(یو این این)
Mobile No. 9984247500  
خخخ

«
»

رویش کا بلاگ: تالے میں بند کشمیر کی کوئی خبر نہیں،لیکن جشن میں ڈوبے باقی ہندوستان کو اس سے مطلب نہیں

تین طلاق بِل کی بار بار منظوری، بی جے پی حکومت کا سیاسی ہتھکنڈا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے