امام الائمہ سراج الامہ سیدنانعمان بن ثابت ؒ:حیات وخدمات

 

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

امام اعظم ابو حنیفہؒ کا شمار اسلامی تاریخ کی ان عظیم المرتبت، فقیدالمثال اور مایۂ ناز شخصیتوں میں ہوتا ہے؛ جن کا اسم گرامی اُفق عالم پرتا قیامت آفتاب و ماہتاب کی طرح جگمگاتااور روشنی بکھیرتا رہے گا۔ آپ تاریخ اسلام کے وہ جلیل القدر فرزند ہیں جن کے متعلق خاص طورپر حضور اکرم ﷺ نےعلم وفضل کی پیشین گوئی فرمائی ہے،آپ دبستان حدیث کے وہ گلِ سرسبد ہیں ؛جس کی دل آویز خوشبو سے مشامِ ایمان ویقین معطرہیں،آپ فقہ وفتاوی کے وہ بحرناپیداکنار ہیں؛جس کی گہرائی وگیرائی پر خود فقہائے کرام حیران وششدر ہیں۔

پھرآپؒ ان نیک بخت اور خوش قسمت افراد میں سےہیں؛جنہوں نے مشکوۃ نبوت سے بہ راہ راست فیض پانے والےاصحاب رسولﷺ سے ملاقات کی اورتابعیت کا شرف حاصل کیا،یہ ایک ایسا امتیازہے جو تاریخی اور دینی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہےنیز یہ بھی حقیقت ہے کہ ائمہ اربعہؒ میں امام اعظمؒ کے علاوہ کسی امام کویہ مقام حاصل نہ ہوسکا ۔ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء

مختصر سوانحی خاکہ:

آپ کا نام نامی: نعمان والد کا نام: ثابت کنیت: ابو حنیفہ اور لقب: امام اعظم ہے۔مؤ رخ ابن خلکان نے امام اعظم کا شجرہ ٔ نسب اس طرح نقل کیا ہے ابو حنیفہ نعمان بن مرزبان ،آپ حریت الاصل تھے اور فارسی النسل بھی ،آپ کی سن پیدائش بالاختلاف   ۷۱  ؁ ھ یا  ۸۰   ؁ھ نقل کی گئی ہے اگر چہ محققین نے  ۸۰  ؁ھ پر اتفاق کرلیا ہے ۔خطیب بغدادی بحوالہ امام ابو یوسف نقل کرتے ہیں کہ امام صاحب متوسط قد تھے نہ لمبے تھے نہ پست قد تھے، بڑے حسین اور نہایت خوبصورت تھے ،خوش طبع ،خوش مزاج اور ملنسار تھے عمدہ کپڑے زیب تن فرماتے تھے ۔

امام صاحب ؒکے زمانے میں حصول ِ علم کی راہیں پانچ طرح کی تھیں  (1)حفظ وقراء ت کی محفلیں (2)ادبی فنون کے مدرسے (3)علوم عقلیہ کے حلقے (4)مذاکرۂ احادیث کی جماعتیں(5)استنباط مسائل کے مراکز…چنانچہ اولاً آٹھ سال کی عمر میں قراء ت عاصم کے مطابق قرآن مجید کو حفظ کیا حتی کہ عاصمؒ خود فرمایا کرتے تھے :بچپن میں وہ ہم سے تحصیل علم کرتے تھے کبر سنی میں ہم ان سے رجوع کرتے ہیں ۔ثانیاً آپ نے نحو،ادب اور شعر وشاعری وغیرہ پر وقت صرف فرمایا اور چودہ سال کی عمر تک اس میں بھی خوب مہارت ِ تامہ حاصل کرلی یہی وجہ ہے ابو سعید سیرافی  ؒ،ابو علی قاریؒ اورابن جنی  ؒ جیسے ماہرین عربیت نے باب الایمان میں امام صاحب کے الفاظ کی شرح فرمائی اور لغت ِ عرب پر آپ کی وسعتِ نظر وافر اطلاع پر گہرے تعجب کا اظہار کیا ۔ثالثاً ۱۴سال کی عمر سے ۱۸ سال کی عمر تک علم کلام میں اتنی دستر س اور کامل عبور حاصل کرلیا کہ آپ مناظر اسلام اور متکلم کے نام سے مشہور ہوگئے تاریخ کی کتابوں میں تشار الأصابع الیہ کے الفاظ ملتے ہیں کہ اس فن میں ہر شخص کی زبان پر آ پ ہی کا نام تھا اور آپ نے خود اس فن میں الفقہ الاکبر ،الرسالہ ،الفقہ الابسط،کتاب العالم والمتعلم اور ابو صیہ جیسی بے نظیر اور شاندار کتابیں تصنیف فرمائی۔رابعاً تیئیس سال سے لے کر چالیس سال تک کے اس لمبے عرصہ میں آپ نے مذاکرۂ حدیث کے حلقوں میں شرکت کی تھی کہ سر زمین کوفہ میں کوئی ایسا محدث نہیں تھا جس کے آگے آپ نے زانوئے تلمذتہ نہ کیا ہو ۔خامساً آپ فقہ وفتاویٰ اور استنباط واستخراج مسائل کے لیے امام حماد ؒکے دامن سے وابستہ ہوئے اور تادم اخیر اسی زرین خدمت میں مصروف ومشغول رہے گویا کہ آپ نے اپنی جانب سے اس فن کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔فجزاہ اللّٰہ خیراً کثیراً عنی وعن جمیع الأمۃ

    ۱۵۰  ؁ھ میں علم وعرفان اور فقہ وحدیث کایہ نیر تاباں ہمیشہ کےلیے روپوش ہوگیا۔

ممکن نہیں کہ تم سے زمانہ ہوبے نیاز

تم ہو جہاں میں گوہر نایاب کی طرح

امام صاحبؒ کی تابعیت:

  امام صاحب ؒکےرؤیتاً یا روایتاً تابعی ہونے میں علمائے امت کے درمیان باہم اختلاف ہے،اتنی بات طے ہےکہ جمہور مورخین کے مطابق آخری صحابی ؓ کی وفات کے وقت آپؒ کی عمر تیس سال تھی جبکہ علامہ عینیؒ اور علامہ محمد زاہد الکوثریؒ کی تحقیق کے مطابق اس وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی اور اگر حافظ سمعانیؒ، حافظ ابن حبانؒ اور حافظ محمد بن ابراہیم الوزیرؒ کی پیش فرمودہ تاریخ ولادت ۶۱ھ پر اعتماد کیاجائے تو آپؒ کی عمر اس وقت انچاس سال تھی ؛اس لئے یقین کے ساتھ  کہاجاسکتا ہے کہ آپؒ کو اپنی عمر کی کم ازکم تیس یا زیادہ سے زیادہ انچاس بہاروں میں ضرور بالضرورکئی صحابہؓ کی زیارت اور ان سے روایت کا شرف حاصل ہوا ہوگا۔

پھر حضرات محققین فرماتے ہیں کہ امام صاحبؒ نہ صرف صحابۂ کرام کی زیارت سے مشرف ہوئے؛بلکہ  سماعت وروایت کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوئے اور دوسرے بعض حضرات زیارت کا تو اثبات کرتے ہیں؛ مگر نقل وسمع کا انکار کرتے ہیں ۔بہر دوقول اصح مذہب کے مطابق رؤیت ہی تابعیت کے لیے کافی ہے لقاء شرط نہیں ہے جیسا کہ خود آپ علیہ السلام کا قول اس جانب مشیر ہے:خوش خبری ہے ان لوگوں کےلیے جنہوں نے میرے دیکھنےوالوں کودیکھا۔

علامہ جلال الدین سیوطیؒ لکھتے ہیں :’’امام ابومعشر عبد الکریم بن عبدالصمد طبری شافعیؒ نے اس موضوع پر ایک کتاب تحریر کی ہے؛ جس میں انہوں نے ذکر کیا ہےکہ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں :’’میں نے سات اصحاب رسول اﷲﷺ سےملاقات کی ہے‘‘اور وہ سات یہ ہیں 🙁1)حضرت انسؓ(2)حضرت عبد اﷲ بن جزء الزبیدیؓ (3)حضرت جابر بن عبداﷲؓ (4) حضرت معقل بن یسارؓ(5)حضرت واثلہ ابن اسقعؓ (6)حضرت عائشہ بنت عجردؓ (7) حضرت عبد اﷲبن انیسؓ۔(تبییض الصحیفہ/24)

بعض لوگوں نے حضرت انسؓ کے سواباقی دوسرے صحابہ کرامؓ سے آپؒ کی ملاقات کا انکار کیا ہے؛لیکن حضرت مولانا محمد عاشق الٰہی ؒ نے تبییض الصحیفہ پر جو تعلیق فرمائی ہے، اس میں حضرت عائشہ بنت عجردؓ ‘حضرت عبداﷲبن الحارث بن جزءؓ اور حضرت عبداﷲ بن جزء بن عمارؓ سے امام ابوحنیفہؒ کا سماع باحوالہ ثابت کیا ہے چنانچہ مولانا موصوفؒ لکھتے ہیں :میں کہتا ہوں : ’’ امام ابوحنیفہؒ کا سماع حضرت عائشہ بنت عجردؓ سے ثابت ہے جیسا کہ علامہ ابن اثیرؒ نے اسد الغابہ میں اور حافظ ذہبیؒ نے تجرید اسما ء الصحابہؓ میں ذکرفرمایا ہے ۔ ‘‘(حاشیہ تبییض الصحیفہ)

تدوین فقہ کا عظیم کارنامہ:

عہد صحابہ و تابعین میں اسلام کی جڑیں پھیل گئیں، قیصر و کسری جیسی سوپر پاور طاقتیں اسلام کی زیر نگیں ہوئیں چنانچہ یورپ میں اندلس تک ،افریقہ میں مصر اور شمال افریقہ تک ،ایشاء میں ترکستان اور سندھ تک اسلام کی طنابیں پھیل گئیں تو اسلام کو نئے تمدن،جدید تہذیب اور مختلف معاشرتوں سے سابقہ پڑا اور چونکہ اسلام ایک ہمہ گیروسیع اور دائمی نظام حیات ہے اسلئے ایک ایسے نظام زندگی کو مرتب کر نے کی ضرورت تھی جو تمام جزئیات کو محیط ہو اسکے ساتھ ساتھ دوسری صدی کے شروع میں اہل حدیث اور اہل رائے کے درمیان سخت نزاع بھی پیدا ہو گیا پھر کثرت احادیث کی و جہ سے احادیث کی نو عیت میں بھی شدید اختلاف ہوا ، قیاس و استحسان کے ذریعہ استخراج مسائل اور استنباط احکام میں بھی تنازع بڑھ گیا غرضیکہ دوسری صدی ہجری کا رُبع اول مختلف قسم کے اختلافات و تنازعات کی نذر ہو گیا علاوہ ازیں عام مسلمان ، قاضیوں کے مختلف متضاد اور مخالف شرع فیصلوں کی وجہ سے سخت پریشان تھے ،عدالتوں میں بدنظمی چھائی ہوئی تھی ، بسااوقات لوگوں کی جان و مال کے تحفظ و عصمت کے خلاف بھی فیصلہ دیدیا جاتا جس کا اصل محرک اور بنیادی وجہ عدم تدوین فقہ تھی اسی ضرورت کے شدید احساس نے امام صاحب کو تدوین فقہ پر مجبور کیا۔امام اعظمؒ کی طبیعت ابتداء ہی سے مجتہد انہ اور غیر معمولی طور پر متفقہانہ واقع ہوئی تھی پھر علم کلام کے مکالموں اور مناظروں نے اس کو خوب خوب جلا بخشا ،تجارت کی وسعت نے بھی معاملات کو نہایت قریب سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا مزید برآں روز افزوں اطراف و اکناف بلاد کے سینکڑوں فتاوی نے بھی تجربات و مشاہدات میں خوب اضافہ کر دیا چنانچہ  ۱۳۲؁ھ میں بنوامیہ کے چنگل سے آزاد ہوتے ہی آپ نے پوری توجہ تدوین فقہ کی طرف مبذول کردی اور کسی بھی جامع فن کی تدوین کے لیے ایسے مقام و مکان کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر قسم کے مسائل اور وسائل کا جامع ہو چنانچہ کوفہ اس مقصد کے پیش نظر تدوین فقہ کا مرکز ہو نے کی عمدہ صلاحیت رکھتا تھا، مختلف عربی و عجمی تہذیبیں وہاں پر جمع تھیں ، قسم قسم کے مسائل وہاں پر موجود تھے اہل علم کا بھی کافی مجمع وہاں آباد تھا اسلئے امام اعظم نے اپنی فقہ کی تدوین کے لیے کو فہ جیسے علم دوست اور علماء پر ور شہر کا انتخاب کیا، پھر جس اعلی پیمانے اور مضبوط و مستحکم طریقہ پر آپ فقہ کی تدوین کر نا چاہتے تھے وہ ایک و سیع اور پر خطر کام تھا اسلئے اتنے بڑے کام کو صرف اپنی ہی ذاتی رائے اور انفرادی طرزعمل پر منحصر کر نا مناسب نہ سمجھا اور اپنے ہزار ہا شاگردوںمیں سے چند نامور اشخاص کا انتخاب کیا جن کو خاص خاص علوم و فنون میں نہایت درک بلکہ امامت کا درجہ حاصل تھا اور چالیس افراد پر مشتمل ایک شوری تجویز کی جو ہر مسئلہ پر سیر حاصل بحث کر نے کے بعد کوئی حتمی اور قطعی حکم نافذ کرتی اور مسئلہ کو محفوظ کر لیتی ،چنانچہ مناقب مو فق میں علامہ مکی فرماتے ہیں ’’فوضع ابوحنیفۃ مذھبہ شوری بینہم لم یستبد فیہ بنفسہ دونہم‘‘(ج:2

«
»

نکاح میں دیری کی تباہ کاریاں!!!

عام انتخابات: مسلمان جائیں تو جائیں کہاں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے