کاتب وحی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ

فضائل ومناقب ،حیات و خدمات،دفع شبہات

مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانیؔ 

مملکتِ بنوامیہ کے روشن دماغ سیاست داں ، ملتِ اسلامیہ کے مردم شناس حکمراں ، لشکرِ اسلام کے محافظ ونگہباں ، امامِ تدبیروسیاست ، سالارِ قیادت وسیادت، صاحبِ فہم وفراست ، علم وفضل، دین ودانش ، جودوسخا، مہرووفااور صدق وصفا کے حسین امتزاج ، جلال وجمال ، حکمت ودانائی، امانت وصداقت اور فصاحت وبلاغت کے پیکرِ جمیل یعنی کاتبِ وحی ، ہم زلفِ نبی ، فاتحِ عرب وعجم سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو انتالیس سال آٹھ ماہ کے طویل عرصہ تک مسندِ اقتدار پر جلوہ گر رہے جس میں۲۰؍سال سرزمینِ شام میں گورنری کے فرائض انجام دئیے اور انیس سال آٹھ ماہ ملت اسلامیہ کی پاسبانی میں گزاردیئے ۔
سوانحی نقوش :
سیدنا امیرمعاویہؓ بعثتِ نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے ، آپ کے والد ابوسفیان صخر بن حرب، قریش کے سردار ورئیس اور بڑے ہی دولت مند وذی اثر شخص تھے آپ کی والدہ ہند بنت عتبہ بھی قریش کی معروف دانشور خاتون تھی ، آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں سرکار دوعالم ﷺسے جاکر ملتا ہے ، آپ کے والدین ، فتحِ مکہ کے تاریخی موقع پر حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے ؛جبکہ آپ بعض روایات کے مطابق ۷ ھ میں عمرۃ القضاء کے موقع پر ہی اس سعادت سے مشرف ہوچکے تھے ؛ مگر سال بھر مصلحتاً خاموشی اختیار فرمائی اور پھر والدین کے ہمراہ قبولِ اسلام کا برملا اعلان فرمایا جس پرآپ علیہ السلام نے اُن کو مبارکباددی اور اس اعلانِ حق پر مرحبا ، خوش آمدید کہا ۔(البدایۃ والنھایۃ)چونکہ حضور ﷺ، حضرت معاویہ کی سابقہ زندگی، آپ کی صلاحیت وقابلیت اور قوت وصلابت سے واقف تھے اس لئے آپ کو قربِ خاص سے نوازا اور آپ نے بھی ہر ہر محاذ پرآپ علیہ السلام کی بھر پور معاونت فرمائی اور آپ سے اکتسابِ فیض میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ؛یہی وجہ ہے کہ آپ کے آئینہ اخلاق میں احسان واخلاص، علم وفضل ، فقہ واجتہاد ،تقریر وخطابت، خدمتِ خلق ، غرباء پروری، مہمان نوازی ،سخاوت وفیاضی اور تقویٰ وخوفِ الٰہی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے ۔
محدثین لکھتے ہیں کہ احادیث نبویہ کا کافی ذخیرہ بھی آپ کے سینہ میں محفوظ تھا؛چنانچہ حدیث کی کتابوں میں ان کی ۳۶۱؍ روایتیں ملتی ہیں، جن میں سے ۴؍ متفق علیہ ہیں،یعنی بخاری اور مسلم دونوں میں موجود ہیں، ان کے علاوہ ۴؍ میں بخاری اور ۵؍ میں امام مسلم منفرد ہیں،صحابہ میں ان سے حضرت ابن عباسؓ، ابودرداءؓ ،جریربن عبداللہؓ، نعمان بن بشیرؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن زبیرؓ، ابو سعید خدریؓ، سائب بن یزیدؓ، ابو امامہ سہل اور تابعین میں ابن مسیب اورحمید بن عبدالرحمن وغیرہ نے روایتیں کی ہیں۔(تہذیب الاسماء نووی)
فضائل و مناقب :
یوں تو کتب حدیث میں حضرات محدثین نے مستقل ابواب کے تحت آپ کے فضائل ومناقب کا تذکر ہ کیاہے ،اختصارکے پیش نظرہم یہاں صرف چندمستند روایتوں کے نقل پر اکتفاء کرتے ہیں؛ جس سے اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجائے گا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں کوئی ایک بھی مستند روایت موجود نہیں ۔
۱:حضرت عبد الرحمٰن بن ابی عمیرۃ المزنی سے روایت ہے ، اور وہ نبی ﷺ کے صحابہ میں سے ہیں ، وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک انہوں نے دعافرمائی حضرت معاویہؓ کے لئے : اے اللہ ! اس کو ہادی بنا اور مہدی (ہدایت یافتہ) بنا اور اس سے (دوسروں کو) ہدایت دے ۔(رواہ الترمذی،وقال حدیث حسن غریب)
۲:حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺکو یہ کہتے ہوئے سنا: اے اللہ! علم سکھا معاویہؓ کو کتاب کا اور حساب کا اور اس کو عذاب سے بچا۔(رواہ احمد فی مسندہ وقال الالبانی اسنادہ حسن)
۳:ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ بیمار ہوگئے تو ان کے پیچھے حضرت معاویہؓ نے (ان کی خدمت سنبھالی اور) برتن لیا اور نبی ﷺ کے پیچھے چلے گئے ، ابھی وہ نبی ﷺ کو وضو کرا رہے تھے کہ نبی ﷺ نے ایک دو مرتبہ ان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا:اے معاویہ ! اگر تمہیں (مومنین) کے کسی کام یا کسی جگہ کا متولی وحاکم بنایا جائے تو امور حکومت کی انجام دہی میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور عدل وانصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا ۔ حضرت معاویہؓ کہتے ہیں کہ میں برابر خیال کرتا رہا کہ آنحضرت ﷺکے فرمانے کے بموجب میں کسی کام ( امارت وسرداری)میں مبتلا کیا جاؤں گا ۔ یہاں تک کہ میں مبتلا کیا گیا ۔ (یعنی دورفاروقی میں آنحضرت ﷺ کا فرمان ثابت ہوا اور امارت وسرداری نصیب ہوئی)(رواہ احمد فی مسندہ: وقال الہیثمی رجالہ رجال الصحیح)
۴:سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا میں بچوں کے ساتھ کھیل رہاتھا کہ اتنے میں رسول اللہﷺتشریف لائے میں یہ سمجھا کہ آپ میرے لئے تشریف لائے لہذا میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا تو آپ نے میری کمر پر تھپکی دے کر فرمایا۔۔۔جاؤ اور معاویہ کو بُلا لاؤ! وہ (معاویہ رضی اللہ عنہ)وحی لکھتے تھے ۔۔۔ الخ(دلائل النبوۃ للبہیقی و سندہ حسن)۔
۵:جلیل القدر تابعی حضرت عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ المکی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد ایک رکعت وتر پڑھی پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ! انہوں نے صحیح کیا ہے وہ فقیہ ہیں ۔(صحیح بخاری )
۶:سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں نے معاوویہ رضی اللہ عنہ یہ سے زیادہ حکومت کے لئے مناسب (خلفائے راشدین کے بعد)کوئی نہیں دیکھا۔ ( مصنف عبدالرزاق وسندہ صحیح)
۷:ابراہیم بن میسر الطائفی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے کسی انسان کو نہیں مارا سوائے ایک انسان کے ، جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی تھیں انہوں نے اسے کئی کوڑے مارے ۔(تاریخ دمشق وسندہ صحیح)
آپ پر الزامات کی حقیقت :
حضرت امیر معاویہؓ پرمسرفانہ طرزحکمرانی،اہل بیت کے ساتھ ناروا سلوک ،ایجاد بدعات وخرافات وغیرہ پر مشتمل جوغلط الزمات لگائے گئے اور بے بنیاد اعتراضات کیے گئے وہ نہ صرف حقائق سے چشم پوشی ہے ؛بل کہ سراسر کذب بیانی اور افتراء پردازی ہے جوشان صحابیت سے بعیدتر اور عقل و نقل کے بالکل خلاف ہے ۔
ہر اعتراض کے تفصیلی جوا ب کا یہ موقع نہیں البتہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ قارئین کی خدمت میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ کا رقم کردہ ایک بنیادی اور اصولی جواب پیش کیاجائے ؛جس کے بعد اعتراض کی گنجائش ہی باقی نہ رہے گی۔
ہمارے پاس علم تاریخ پر کتابوں کا جو ذخیرہ موجود ہے اس میں ایک ہی واقعہ سے متعلق کئی کئی روایتیں ملتی ہیں اور تاریخ میں روایت کی چھان پھٹک اور جرح و تنقید کا وہ طریقہ اختیار نہیں کیا گیا جو حدیث میں حضرات محدثین نے اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کتب تاریخ میں ہر طرح کی روایتیں درج ہوگئی ہیں صحیح بھی اور غلط بھی، کسی معاملے کی حقیقت پسندانہ تحقیق کرنی ہو تو یہ ضروری ہے کہ رطب و یابس کے اس مجموعہ میں سے صرف ان روایات پر اعتماد کیا جائے جو روایت اور درایت کے اصولوں پر پوری اترتی ہوں اگر کوئی ایسا عالم جسے جرح و تعدیل کے اصولوں سے واقفیت ہو ان روایتوں کو ان ہی اصولوں کے مطابق چھانٹتا ہے تو شکوک و شبہات کا ایک بہت بڑا حصہ وہیں ختم ہوجاتا ہے وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کے آخری زمانے میں عبد اللہ بن سبا کی سازش نے جو تحریک شروع کی تھی اس کے دو بڑے مقاصد تھے ایک صحابہؓ کی عظمت کو مجروح کرنا اور دوسرے جھوٹی روایتیں پھیلانا چنانچہ انہوں نے بے شمار غلط سلط حکایتیں معاشرے میں پھیلانے کی کوشش کی۔ حضرات محدثین نے پوری تندہی اور جانفشانی کے بعد احادیث رسول اللہ ﷺ کو تو اس سبائی تحریک کے اثرات سے جد و جہد کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیا لیکن علم تاریخ میں اہتمام نہ ہوسکا اور وہ روایتیں کتابوں میں درج ہوتی رہیں جو خالص سبائی پروپیگنڈے کی پیداوار تھیں۔
ہاں محتاط مؤرخین نے اتنا ضرور کیا ہے کہ ہر روایت کی سند لکھ دی اور اب تحقیق حق کرنے والوں کے لئے یہ راستہ کھلا ہوا ہے کہ علم اسماء الرجال کی مدد سے وہ روایتوں کی تحقیق کریں اور جن روایتوں کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ وہ کسی سبائی تحریک کے فرد کی بیان کی ہوئی ہے ان پر صحابہ کرامؓ کے بارے میں اعتماد نہ کریں کیونکہ صحابہؓ کے فضائل و مناقب اور ان کا اللہ کے نزدیک انبیاء کے بعد محبوب ترین امت ہونا قرآن کریم اور سنت رسول اللہ ﷺ کے ناقابل انکار دلائل سے ثابت ہے ۔ (فتاوی عثمانی

«
»

جنگ احد کے بعدمسلمان تلواروں کے سایہ میں۔

آج نہیں تو کل سچائی سامنے آئے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے