*26 جنوری یوم جمہوریہ تاریخِ ہند کا ایک یادگار دن*

تحریر: عاصم طاہر اعظمی

 

جمہوریت کا لفظ جمہور سے بنا ہے جو اکثر کا معنی دیتا ہے اور جمہوریت سے اکثریتی رائے مراد لی جاتی ہے جمہوری حکومت میں بھی کہیں نہ کہیں یہ معنی پنہاں ہیں یعنی اس کی تشکیل میں بھی اکثریتی رائے کا اعتبار کیا جاتا ہے،

جمہوریت کو انگریزی زبان میں Democracy کہا جاتا ہے جو یونانی زبان کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے جس کے معنی عوام اور طاقت کے ہیں اس لحاظ سے جمہوریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جس میں اقتدار عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور ان کے منشاء کے مطابق حکومت فرائض انجام دیتی ہے

ماہرین نے جمہوریت کی مختلف انداز میں تعریفیں کی ہیں چند مشہور تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں 

سیلے seeley نے جمہوریت کی تعریف کچھ یوں کی ہے:

''جمہوریت ایک ایسی طرز حکومت ہے جس میں ہر ایک شریک ہوتا ہے''

لارڈ برائسس کے خیال میں:

''جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں اختیارات ایک فرد واحد یا افراد کے ایک مخصوص طبقہ یا طبقات کی بجائے معاشرے کے تمام افراد کو بحیثیت مجموعی حاصل ہوتا ہے''

ابرہم لنکن نے جمہوریت کی تعریف یوں کی ہے:

''جمہوریت عوام کی حکومت عوام کے زریعے اور عوام کی خاطر''

واضح رہے کہ سب سے جامع تعریف ابرہم لنکن ہی مانی جاتی ہے، 

جمہوریت کا نظام لچکدار ہوتا ہے نا پسندیدہ عناصر کو انتخابات کے ذریعے مسترد کیا جاسکتا ہے افکار و خیالات کی مکمل آزادی کے باعث عوام اپنے جزبات کااظہارکرسکتے ہیں حکومت رائے عامہ کو نظرانداز نہیں کرتی اگرحکومت عوام کے مشوروں اور ان کی منشاء کو نظر انداز کردے تو آئندہ انتخاب میں عوام ایسی حکومت کو پر امن طور پر اپنے ووٹ کے ذریعے تبدیل کرسکتے ہیں اس طرح عوام کو حکومت تبدیل کرنے کیلئے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرنا پڑتااور ملک انقلابات سے محفوظ رہتا ہے

26 جنوری یوم جمہوریہ بھارت کی ایک قومی تعطیل کا دن ہے جسے ملک بھر میں بڑے ہی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے بھارت کی سرکاری تعطیلات تین ہے ایک یوم جمہوریہ دیگر دو تعطیلات یوم آزادی بھارت اور گاندھی جینتی ہے،

اگرچہ ہندوستان، 15 اگست 1947کو برطانوی تسلط سے آزاد ہو گیا تھا، لیکن 26 جنوری 1950 کو ہندوستانی تاریخ میں  اہمیت اس لیے حاصل ہے کہ اس دن ہندوستان کے آئین کا نفاذ کیا گیا اور ہندوستان ایک خود مختار ملک اور ایک مکمل طور پر رپبلکن یونٹ بن گیا، جس کاخواب ہمارے رہنمائوں نے دیکھا تھا، اپنے خون جگرسے گلستاں کی آبیاری کی تھی اور اپنے ملک کی خود مختاری کی حفاظت کے لیے جام شہادت بھی نوش کیاتھا چنانچہ آئینی نفاذ کے دن کے طور پر 26 جنوری کوبطور یاد گار منانے کے لیے طے کیا گیا یہ دن آزاد اور جمہوریۂ ہند کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتا ہے، لہٰذا اس دن ہمارا ملک ’’ایک جمہوریہ‘‘ ہونے کے ناطے اسے بطورتقریب مناتے ہیں،

 

ہم نے مانا کہ بہت عام ہے نفرت کا چلن

ہم نے مانا کہ ستم ساز ہے اندازِ چمن

ہم نے مانا کہ لہو رنگ ہے دامانِ وطن

ہم نے مانا کہ ہر اک سانس ہے اندوہ و محن

*پھر بھی امید کے کے گلشن کو سجانا ہوگا*

*جشنِ جمہور بہر طور منانا ہوگا*

 

               *شاعر بسمل اعظمی*

 

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز 1857ء سے ہوا، یہ ایک غلط مفروضہ ہے جو جان بوجھ کر عام کیا گیا، تاکہ 1857ء سے سو برس پہلے جس تحریک کا آغاز ہوا تھا جس کے نتیجے میں بنگال کے سراج الدولہ نے 1757ء میں حیدر علی نے 1767ء میں مجنوں شاہ نے 1776ء سے 1780ء تک اور ٹیپو سلطان 1791ء میں مولوی شریعت اللہ اپنے بیٹے کے ہمراہ 1812ء میں اور سید احمد شہید 1831ء میں انگریزوں کے خلاف جو باقاعدہ جنگیں لڑیں تھیں وہ سب تاریخ کے غبار میں دب جائیں، اور اہل وطن یہ نہ جان سکیں،

یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے جشن کے حوالہ سے مدارس کے خلاف ایک بے اصل بیان کے ذریعہ مسلسل ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جا تی رہی ہے حالانکہ تاریخ کا ادنی سے ادنی طالب علم بھی واقف ہے کہ جنگ آزادی میں مدارس کا کردار ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتاہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے آرایس ایس اور اس کی ہمنوا سیاسی پارٹی نے ان مدارس کے خلاف انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دے دیکر ایک سوالیہ نشان قائم کرنے کی کوشش کی ہے ان کا کہنا ہے کہ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر مدارس میں ترنگا نہیں لہرایا جاتا اور نہ ہی جشن منایا جا تا ہے جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ان مدارس میں ان دونوں دنوں میں چھٹی رہتی ہے اور بڑے ہی شان و شوکت سے جشن بھی منایا جاتا ہے، وطن عزیز کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار کسی سے مخفی نہیں ہے خاص طور پر علماء کرام کا، اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہم پر شک کرنا ہمیں مشکوک قرار دینا انتہائی شرمناک اور بے ہودہ حرکت ہے.

 

شروع کی جس نے آزادی کی لڑائی وہ مسلمان ہی تھا،

دیا ہند کو تاج محل جس نے وہ شخص مسلمان ہی تھا،

جہاں لہراتا ہے ترنگا آج بھی بڑی شان سے ، کیا تعمیر جس نے لال قلعہ وہ شخص مسلمان ہی تھا،

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں  ہمارا" لکھا جس نے ترانۂ ہند وہ اقبال مسلمان ہی تھا.

خدائے عظیم ہمارے اس ملک کو دشمنوں کے شرو فساد سے محفوظ رکھے ہمارے وطن عزیز کو امن و آشتی کا گہوارہ بنائے ،اور اسے مزید ترقیوں سے نواز تاکہ وہ ہر میدان میں بلند مقام پر فائز ہو، آمین ثم آمین

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:25؍جنوری2019(ادارہ فکروخبر)
 

«
»

سیاسی دنگل میں کیسے ہوگا مسلمانوں کا منگل؟

مولانا واضح رشید اعلیٰ اللہ مقامہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے