کانگریس کیا اکیلے چلوکی پالیسی پر نظر ثانی کرے گی؟

عارف عزیز(بھوپال)

پانچ سال پہلے ۲۰۱۴ میں بھارتیہ جنتا پارٹی پارلیمانی الیکشن میں بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی تو اسے بی جے پی سے زیادہ مودی کی کامیابی مانا گیا تھا، پھر ڈیڑھ سال پہلے اترپردیش میں اسمبلی الیکشن ہوئے تو اس کو بھی وزیر اعظم مودی کی شخصیت اور موثر انتخابی مہم کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا بلکہ سیاسی مبصرین کا تجزیہ تھا کہ اترپردیش کے عوام نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسی وپروگرام کو پیش نظر رکھ کر ووٹ نہیں دیا بلکہ وزیر اعظم مودی کی چرب زبانی، ان کے ہوائی قلعے جودہ انتخابی مہم کے دوران دکھارہے اور ان کی صلاحیت جس کا مظاہرہ کرکے وہ ذہن کی فیکٹری میں اپنے خیالات یا پروڈکٹس کی تشہیر کرتے رہے اس کا نتیجہ تھا۔
اب پانچ اسمبلی الیکشن کے نتائج سامنے آئے ہیں تو یہ سوال فطری طور پر کیا جائے گا کہ اس ہار کا ٹھیکرا پارٹی کے سر پھوٹے گا یا وزیر اعظم اس کے لئے ذمہ دار ہونگے کیونکہ تقریباً ساڑھے چارسال کے عرصہ میں ان کا کیا ہوا ایک وعدہ بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا، اس کے بجائے جیسے جیسے ان کے اقتدار کی مدت پوری ہورہی ہے، ان کی پالیسی وپروگرام اور اس کو عملی جامہ پہنانے سے عوام کی پریشانیاں بڑھی ہیں اور ان میں حکومت کے تئیں پالیسی وپروگرام کو لیکر مایوسی میں اضافہ ہی ہوا ہے حالانکہ مذکورہ پانچوں ریاستوں میں سیکولر ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کیلئے اپوزیشن کی طرف سے کوئی موثر اقدام بھی نہیں ہوا بلکہ بکھری ہوئی اپوزیشن نے برسراقتدار حکومت کے متحدہ محاذ(این ڈی اے) کا مقابلہ کرکے یہ کامیابی حاصل کی ہے بظاہر اس کامیابی میں کانگریس کی پیش قدمی دیکھی جاسکتی ہے لیکن نتائج کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ اگر دو فیصد ووٹ مزید بی جے پی کے کھاتے ہیں چلے جاتے تو صورت حال اس کے برعکس ہوتی لہذا اس کامیابی پر کانگریس کا مغرور ہونا اور چھ ماں بعد ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں’’ اکیلے چلو‘‘ کی حکمت عملی پر چلتے رہنا تباہ کن ہوگا۔ اس کے بجائے کانگریس کی قیادت کیلئے بہتر یہ ہوگا کہ وہ کامیابی کے خمار میں مبتلا نہ ہو اور اپوزیشن کے اتحاد کیلئے جاری سرگرمیوں میں پوری سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ دلچسپی لے۔کیونکہ اسی طرح کانگریس کو سیاست میں سرگرم واپسی کا جو موقع ملا ہے اسے وہ نتیجہ خیز بناسکتی ہے۔
پچھلے کئی الیکشنوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ کانگریس نے وقت کی نبض کو نہ پہچان کر آسام، بہار، گجرات، کرناٹک جیسی ریاستوں کے الیکشن میں ’’اکیلے چلو‘‘ کی پالیسی پر چل کر خود اور اپوزیشن کو نقصان پہونچایا ہے اگر وہ مذکورہ ریاستوں کے اسمبلی الیکشنوں میں سیکولر جماعتوں کو ساتھ لیکر الیکشن لڑتی توان ریاستوں میں اس کی زیر قیادت مضبوط حکومتیں وجود میں آتیں اور این ڈی اے کو آمر مطلق بننے کا موقع نہیں ملتا، کرناٹک کے اسمبلی الیکشن کا تجربہ بھی یہ بتانے کے لئے کافی ہے اور تازہ الیکشن میں بھی راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی سے تال میل کرکے بی جے پی کا مقابلہ کرتی تو اس کی طاقت وحیثیت دونوں میں اضافہ ہوتا لہذا مستقبل میں کانگریس کے لئے یہی حکمت عملی کارگر ہوگی کہ وہ اپوزیشن اتحاد میں دلچسپی کا مظاہرہ کرے اور اکیلے چلو کی پالیسی کو خیرباد کہہ دے۔ اب کانگریس کیلئے بہتر حکمت عملی ہے۔

 

«
»

آخر کب تک کشمیر یونہی جلتا رہے گا؟

5ریاستوں کے اسمبلی نتائج، مودی سرکار کے لئے خطرے کی گھنٹی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے