کیا کشمیر میں صحافت ’جرم‘ کا درجہ اختیار کر چکی ہے؟

افتخار گیلانی

 

پچھلے ہفتے جب نوجوان کشمیری صحافی آصف سلطان کی پابجولاں تصویریں سوشل میڈیا پر گشت کر رہی تھیں، تو امید بندھی تھی کہ اظہار رائے کی آزادی کے علمبردار اس کا نوٹس لیکر کشمیر کی صحافتی برادری کے ساتھ بطور ہمدردی ہی اظہار یکجہتی کریں گے۔ پولیس کی معیت میں ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنے آصف سلطان سوال کر رہا تھا کہ کیا صحافت ایک جرم ہے؟1990سے لیکر اب تک کشمیر میں 19صحافی اپنی جان  کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ اس کی حال کی کڑی میں جون میں رائزنگ کشمیر گروپ کے چیف ایڈیٹر اور مقتدر صحافی شجاعت بخاری کو موت کی نیند سلایا گیا۔

اس کے ایک ماہ بعد ہی جولائی میں کشمیر آبزور سے وابستہ عاقب جاوید کو دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی کا انٹرویو لینے کی پاداش میں حراست میں لیکر کئی روز تک انٹروگیشن کیا گیا۔ پچھلے سال ستمبر میں فوٹو جرنلسٹ کامران یوسف کو بد نام زمانہ Unlawful Activities Prevention Act

«
»

کس منھ سے اپنے آپ کو کہتے ہو عشق باز

بچوں کی جنسی تربیت :وقت کی اہم ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے