ذرا یاد اُنہیں بھی کرلو…

شیخ فاطمہ بشیر

 

بھارتی تحریکِ آزادی دنیا کی تاریخ میں سب سے طویل آزادی کی جدوجہدوں میں سے ایک ہے۔ تقریباً 90 سال ہمارے رہنماؤں نے برطانوی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کوششیں کیں۔ دلیری و جاں فشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے انگریز افواج کے چھکے چھڑا دیئے۔ اور بالآخر اپنی انتھک کوششوں اور جان توڑ محنتوں سے اُنہیں یہ دیش چھوڑکر بھاگنے پر مجبور کردیا۔ انگریزوں کے خلاف پہلی بغاوت 1857 کی جنگِ آزادی تھی جو بہادرشاہ ظفر دوم کی سربراہی میں ہوئی۔ آزادی کی تمام جنگوں میں مدارس کے طلباء و علماء، ہندو مذہب کے پنڈت، آریہ سماج کے لیڈر، سکھ گرو، دانشوران، وکلاء، صحافی، ڈاکٹر چاہے عورت ہو یا مرد، غرض سماج کے ہر طبقے اور فرد کی یکساں حصّے داری رہی۔ پھر آزادی کے بعد حکومتِ ہند نے بھی اُن افراد کو عزت کی نگاہ سے دیکھا اور اُن کی قربانیوں اور کوششوں کو سراہا۔ لیکن افسوس کہ آج کئی ہموطنوں کا یقین ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی میں کوئی حصّہ نہیں لیا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ جنگِ آزادی کے مسلمان جنگجوؤں کو تاریخ کی کتابوں سے بھی حذف کردیا گیا۔ اسکے علاوہ اُن کے مطابق مسلمان رہنما اپنا ایک الگ ملک چاہتے تھے جبکہ یہ بات بھی سراسر بےبنیاد اور اُن رہنماؤں پر غلط الزام ہے۔ حقیقتاً انہوں نے تقسیمِ ہند اور دو قومی نظریے کی پُرزور مخالفت کی تھی۔ اسی عقیدے کی تردید کے لیے چند مسلم بہادر شخصیتوں پر سرسری نگاہ دوڑائے جنھوں نے آزادی کی خاطر عمر قید، پھانسی اور کالے پانی کی سزا کاٹنا گوارا کرلیا، لیکن انگریزوں سے دیش بچانے کی کوشش کرتے رہے۔

1) ٹیپو سلطان (20 نومبر 1750 – 4 مئی 1799):

     آزادی کے ایسے متوالے جنھوں نے شہید ہونا پسند کیا لیکن انگریزوں سے معاہدہ کرنا قبول نہ کیا۔ جان قربان کردی لیکن مرتے دم تک بھارت میں انگریزوں کے قدم مکمل طور پر جمنے نہ دیے۔ برطانیہ کو یہ کہہ کر للکارا کہ ہندوستان ہندوستانیوں کا ہے اور اس نعرہ کو عملی جامہ پہنانے میں پوری زندگی وقف کردی۔ لیکن فوج کے سرداروں نے غداری کرکے اپنا ایمان انگریزوں کے ہاتھوں بیچ دیا اور ٹیپو سلطان کو 4 مئی 1799 سرنگاپٹنم میں جنگ لڑتے ہوئے شہید کردیا گیا۔ اُن کا مشہور قول ہے، "شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔”

2) مولوی احمد اللہ شاہ فیض آبادی (1787 – 5 جون 1858):

     بیگم حضرت محل (اودھ کے نواب واجد علی شاہ کی اہلیہ) کے ساتھ ملکر اُنھوں نے 1857 کی بغاوت میں اہم کردار ادا کیا۔ عظیم صلاحیتوں کے مالک تھے اور برطانیہ بھی اُن کی قابلیت و بہادری کا قائل تھا۔ برطانوی مورخ جے بی میلسن اُنہیں پہلی جنگِ آزادی کے ایک عظیم ہیرو کے طور پر بیان کرتا ہے۔ وہ ایک عظیم مصنف تھے جنھوں نے کئی انقلابی مقالے چھپواکر تقسیم کروائے۔ برطانوی افسر تھامس سیٹن (Thomas Seaton) اُن کے بارے میں یوں کہتا ہے، "وہ عظیم صلاحیتوں، خوبیوں اور بہادری کا مالک انسان اور اب تک کی باغی افواج کا بہترین سپاہی تھا۔” برطانیہ کبھی اُنہیں زندہ گرفتار نہ کرسکا جس کے باعث لارڈ کیننگ (Lord Canning) نے اُن کے سر کے بدلے 50

«
»

قربانی کا مقصد، جسے مسلمانوں نے فراموش کردیا

دھرم رکشک سرکار کے دُلارے کانوڑیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے