اس عرصہ میں تمام تر دعوؤں کے باوجود نہ تو تعلیم کو کوئی واضح سمت مل سکی، نہ دوسرے اہم میدانوں میں قابلِ اطمینان کام انجام پاسکے، اس کے بجائے بدعنوانی کا بول بالا ہوا ہے۔
جمہوریت کے اس تحفظ میں سب سے اہم کردار مہاتماگاندھی کے بتائے ہوئے اس طریقے نے ادا کیا جس کے تحت عوامی احتجاج کے پرامن طریقہ سے ملک نے آزادی ھاصل کی، اس طرح جمہوریت کو جس اہم بنیاد کی ضرورت تھی وہ اسے اول مرحلہ میں ہی فراہم ہوگئی، اس کے برخلاف ہندوستان نے تشدد کی راہ سے آزادی حاصل کی ہوتی تو یہاں جمہوریت کسی بھی وقت آمریت میں تبدیل ہوسکتی تھی۔
ٍ دوسری وجہ یہ ہے کہ مہاتماگاندھی کی قیادت میں انڈین نیشنل کانگریس نے ایک ایسی تنظیم کی حیثیت حاصل کرلی جس کے شہروں سے لیکر دیہی علاقوں تک لاکھوں کارکن سرگرم عمل تھے، اس طرح جس وقت آزادی ملی، اس وقت کانگریس وہ جماعت بن گئی جو ملک کو جمہوریت کی راہ پر گامزن رکھنے کی صلاحیت رکھتی تھی، اس کے علاوہ اپنی تنظیمی ساخت کے لحاظ سے نیچے سے اوپر کی طرف جاتی تھی اور سیاسی کارکنوں کی تربیت کا بہت بڑا وسیلہ تھی، پرانی نسل کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ایسے متعدد مباحثے یا د ہوں گے جن میں کانگریس کے نوجوان اور پرجوش ارکان نے نہ صرف جواہر لال نہرو، سردار پٹیل بلکہ مہاتماگاندھی کے خیالات وپروگرام کو ہدف تنقید بنانے کی جرأت کی خود گاندھی جی نے اس پر جس برداشت کا مظاہرہ کیا، وہی جمہوریت کا سب سے بڑا سبق تھا، جس میں اختلافِ رائے کی مکمل آزادی اور اس کے احترام کا جذبہ بھی شامل ہوتا تھا۔
اس سلسلہ کی تیسری بات جدوجہد آزاد کے آغاز سے لیکر آزادی کے حصول تک عوامی زندگی میں جمہوری اور اخلاقی قدروں کا باقی رہنا ہے، جس میں اصولوں کو اپنی مطلب براری کے لئے نہیں بلکہ اس کی اصل روح کے ساتھ اپنایاگیا تھا، مذکورہ تینوں سمتوں کے لحاظ سے آزادی کی چھ دہائیوں کے دوران جو پستی آئی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور اس گراوٹ نے ملک میں جمہوریت کے مستقبل پر سوالیہ نشان قائم کردیاہے۔
ملک کے وزیراعظم خواہ کتنی ہی طاقت سے یہ نعرہ لگائیں کہ ہندوستان کی جمہوریت کوکوئی خطرہ نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوری اداروں کا جس طرح زوال ہورہا ہے، ان کی کارکردگی کا معیار گررہا ہے ، عوامی مفاد بالخصوص کمزوروں اور اقلیتوں کو جارح ہندو فرقہ پرستی جس طرح نشانہ بنارہی ہے اس کے پیش نظر صورت حال قطعی اطمینان بخش نظر نہیں آتی۔
اس عرصہ میں ملک نے مختلف میدانوں میں جو ترقی کی ہے اس کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا خاص طور پر صنعتی ترقی کا اپنوں کو ہی نہیں پرایوں کو بھی اعتراف ہے، کل کارخانوں کا پھیلاؤ، سبز انقلاب اور ضرورت کی دیگر اشیاء کی دستیابی کے باوجود بھکمری بھی بڑھ رہی ہے،غریبی اور بیکاری برقرار ہے، نئی اقتصادی پالیسی نے رہی سہی کسر پوری کردی، گذشتہ ۲۰۔۲۲برس میں بیرونی سرمایہ کاری کے بجائے ملک کی دولت باہر جانا شروع ہوگئی ہے، آج زراعت ہی بنیادی طور پر ہندوستانی اقتصادیات کا سہارا بن گئی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست سے لیکر اقتصادیات تک ملک کا حال دن بدن خراب ہوتا جارہا ہے۔
یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ اس پر توجہ دے کر اصلاحِ حال کی فکر کرے، خصوصیت سے ملک میں جمہوریت اور اخلاقی قدروں کی آبیاری پر توجہ دے، تاکہ آج تک جو نقصان ہوا اس کا مداوا ہوسکے یہ کام صرف سیاست دانوں کا نہیں بلکہ ان سب کا ہے جو جمہوریت اور اس کے عوامل پر یقین رکھتے ہیں اور ملک میں اس کی بقاء کو ناگزیر تصور کرتے ہیں۔
جواب دیں