ایودھیا کا جن ایک بار پھر بوتل سے باہر آ گیا ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے لال کرشن اڈوانی، کلیان سنگھ، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل سمیت 20 افراد کو نوٹس جاری کیا ہو لیکن یہ معاملہ صرف عدالت کے فریم تک سمٹا ہوا رہے گا، اس کے امکانات دور دور تک نہیں ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ اس ایشو کو ایک بار پھر تازہ کیا جائے گا اور اتر پردیش میں مندر مسجد معاملے پر ہتھیاروں کو دھار دیا جائے گا۔ساتھ ہی سیاسی بساط پر نئے مہرے بچھانے کی بھی کوشش ہوگی۔ اس کی جھلک کورٹ کی طرف سے نوٹس جاری ہونے کی خبروں کے ساتھ ہی نظر آنے لگی ہے۔یوپی کے وزیر برائے شہری ترقیات وپارلیمانی امور اعظم خان نے گھما پھرا کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ سی بی آئی کی طرف سے اس معاملے کو کھلوانے اور پھر سے ان لوگوں کے خلاف تفتیش کرنے کے مطالبہ کے پیچھے بہت بڑی سازش ہے۔انہوں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سی بی آئی کہیں کچھ گڑبڑ کر سکتی ہے۔ اعظم کے بیان اور سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرنے والے حاجی محبوب کے دلائل کو دیکھیں تو سیاست کی بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔بابری مسجد کے انہدام کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ سے پانچ ماہ پہلے بری کئے گئے لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی سمیت 20 رہنماؤں کو سپریم کورٹ نے نوٹس جاری کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے فیض آباد کے رہائشی حاجی محبوب احمد کی طرف سے دائر کی گئی خصوصی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا ہے۔ سی بی آئی سمیت تمام فریقوں کو جواب دینے کے لئے چار ہفتے کی مہلت دی گئی ہے۔بابری مسجد کے انہدام سے متعلق 22 سال پرانے کیس میں الہ آباد ہائی کورٹ کے پانچ سال پرانے اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے، جس میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے سینئر رہنماؤں کو بابری مسجد توڑنے کی سازش میں شامل ہونے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے کے ملزمان میں لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کے علاوہ کلیان سنگھ، اوما بھارتی، سادھوی رتھمبرا، ونے کٹیار اور اشوک سنگھل شامل ہیں۔
حاجی محبوب کی درخواست
درخواست کنندہ حاجی محبوب نے اپنی عرضی میں یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہونے کے پیش نظر اس کیس میں سی بی آئی کی غیر جانبداری متاثر ہوسکتی ہے۔ عرضی گزار حاجی محبوب احمد بابری مسجد۔رام جنم بھوم تنازعہ کیس سے گزشتہ 45 سال سے منسلک ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ،اہم بات یہ ہے کہ جن پر مجرمانہ مقدمہ چلا ہے، وہ کابینہ منسٹر (اوما بھارتی) ہیں اور جس لیڈر کے خلاف گڑبڑیوں کو درست کرنے کے لئے صحیح کارروائی نہیں کرنے کا الزام ہے، وہ (راج ناتھ سنگھ ) مرکزی کابینہ میں کافی اونچے عہدے پر ہیں۔ایک اور ملزم (کلیان سنگھ) گورنر بن چکے ہیں۔یاد رہے کہ الہ آباد کورٹ نے بابری مسجد گرانے کے معاملے میں 21 ملزمان کو سازش کے الزام سے آزاد کر دیا تھا، جن میں سے بال ٹھاکرے کی موت ہو چکی ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ 20 مئی 2012 کو آیا تھا، لیکن سی بی آئی نے 8 ماہ بعد اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ قانوناً اپیل تین ماہ کے اندر داخل ہونی چاہیے۔ اب تک ملزم سی بی آئی کی اپیل میں تاخیر کی دہائی دے کر اپیل خارج کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ سی بی آئی نے سپریم کورٹ سے کہا کہ وہ اس معاملے میں بہت احتیاط کے ساتھ قدم بڑھانا چاہتی تھی، اسی وجہ سے تاخیر ہوئی۔ سی بی آئی نے پہلے کہا تھاکہ تاخیر اس لئے ہوئی کیونکہ جتنے بھی فریق معاملے سے جڑے تھے، وہ احتیاط سے کام لے رہے تھے۔ اس معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ہم کوئی چوک نہیں چاہتے تھے، اس لئے بہت احتیاط کے ساتھ کام کیا گیا۔
رام مندر کی تعمیر کا بھروسہ
اس دوران رام جنم بھوم ٹرسٹ کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس نے اجودھیا میں ایک پروگرام کے دوران رام بھکتوں کے سامنے کہا کہ رام جنم بھومی میں براجمان رام للا کے خیموں میں رہنے کی مدت اب ختم ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔ داس نے امید ظاہر کی کہ وزیر اعظم مودی کی کوششوں سے جلد ہی ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ دن دور نہیں جب ملک و بیرون ملک سے ہر سال رام نومی کے موقع پر ایودھیا آنے والے لاکھوں عقیدت مند رام جنم بھومی میں رام للا کی پیدائش کا جشن منائیں گے۔
۲۰۱۶ء میں رام مندر بنے گا؟
کیا مرکز کی بی جے پی سرکار اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا کام کرائے گی؟ اس سوال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ حال ہی میں بنگلور میں بی جے پی رہنماؤں کے اجتماع کے درمیان پارٹی کے اہم لیڈر اوم ماتھر نے کہا کہ ایودھیا میں رام مندر بننا طے ہے اور یہ وقت آنے پر بن جائے گا۔ انہوں نے اس الزام کو مسترد کر دیا کہ بی جے پی نے کئی اور اہم مسائل کو چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے اندر وقت کے لحاظ سے بدلاؤ آیا ہے۔ جہاں ایک طرف بی جے پی کی طرف سے کہا جارہاہے کہ وقت آنے پر یہ کام ہوجائے گا وہیں دوسری طرف وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے بین الاقوامی ورکنگ صدر ڈاکٹر پروین توگڑیا نے کہا کہ ایودھیا میں رام جنم بھومی پر مندر بن کر رہے گا۔اس نے اس کے لئے چھوت چھات سے آزاد بھارت کا عزم بھی دہرایا۔حالانکہ کب تک رام مندر بن جائے گا اس سلسلے میں دونوں میں سے کسی نے کچھ نہیں کہا مگر اس پروگرام سے پردہ اٹھانے کا کام سبرامنیم سوامی نے کیا۔ میرٹھ میں بی جے پی
لیڈر سبرامنیم سوامی نے کہا کہ 2016 میں ایودھیا میں رام مندر بنائے جانے کا آغاز ہو جائے گا۔ ساتھ ہی سوامی نے ہندوؤں کو مسلمانوں کا پرکھا بتاتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی مساجد کو توڑنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔غور طلب ہے کہ گزشتہ دنوں مساجد کو ڈھانے کے بیان پر فضیحت جھیل رہے بی جے پی رہنما نے کہا کہ میڈیا نے ان کے بیان کو توڑ مروڑکر پیش کیا ہے۔سوامی نے کہا کہ جب رام مندر کا کیس سپریم کورٹ میں گیا تو حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک ایفیڈیوٹ دی،جس میں کہا گیا تھا کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ پہلے یہاں ایک مندر تھا اور اس کو توڑ کر مسجد بنی تو حکومت ہند اس زمین کو ہندووں کے سپرد کر دے گی۔ اور اب الہ آباد ہائی کورٹ میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہاں پہلے ایک مندر تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسجد کے لیے ہم سریو ندی کے پاس جگہ دے سکتے ہیں۔ سوامی کاکہنا تھا کہ 2016 میں رام مندر کی تعمیر کا کام ہم کسی بھی طرح سے شروع کرا دیں گے۔
پتھر تراشنے کا کام تیز
جہاں ایک طرف بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے لیڈران کی طرف سے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے بلندوبانگ دعوے کئے جارہے ہیں وہیں بابری مسجد کے مقام پر مندرکی تعمیر کے لئے وشو ہندو پریشد کی قیادت میں پتھر تراشنے کا کام تیز کرنے کی تیاری ہے۔ پچھلے دنوں وشو ہندو پریشد کے بین الاقوامی سرپرست اشوک سنگھل نے رام گھاٹ واقع را م جنم بھومی ٹرسٹ ورکشاپ کا جائزہ لیا اور ورکشاپ کے انچارج انو بھائی سومپرا سے مذاکرات کر، انہیں ضروری ہدایات دیں۔ ستمبر 1990 سے ہی یہ ٹرسٹ، ورکشاپ میں مجوزہ نقشہ کے مطابق مندر کے لئے پتھر تراشنے کا کام کر رہا ہے جو فی الحال آخری دور میں ہے۔ 125 فٹ اونچے، 265 فٹ طویل اور 140 فٹ چوڑے مندر میں لگنے والے تمام 212 کالم کو یقینی سائز دیا جا چکا ہے۔پہلی منزل میں 106 اور دوسرے فلور میں اتنے ہی کالم لگنے ہیں۔ نچلے فلو رکے ستون کی اونچائی جہاں 16 فٹ چھ انچ ہے، وہیں دوسرے فلور کی 14 فٹ چھ انچ ہے۔اس پروگرام کے مطابق پتھروں کی تراش کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ ورکشاپ کے انچارج کی مانیں تو قریب 25۔30 فیصد پتھر تراشنے کا کام ہی باقی رہ گیا ہے۔
کبھی انصاف ملے گا؟
مسجد،مندر تنازعہ کے سبب جہاں بی جے پی کو فروغ پانے کا موقع ملا وہیں نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی اس پر خوب سیاست کی ہے۔ جن لوگوں نے مسجد کو توڑنے کا کام کیا انھیں آج تک سزا نہیں مل پائی اور اس کی امید بھی نہیں ہے کہ انھیں کبھی سزا مل پائے گی۔ بھارت میں انصاف کا خون کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آج سپریم کورٹ کی جانب سے حاجی محبوب کی عرضی پر جو حکم جاری ہوا ہے، وہ بھی شاید قانونی اڑچنوں میں ہی کہیں پھنسا رہ جائے گا۔ اس معاملے میں سیاست کرنے والے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور عیش کررہے ہیں۔ انھیں قانون کا کوئی خوف نہیں ہے۔ مسلمان خالی ہاتھ تھے اور خالی ہاتھ رہیں گے۔ظاہر ہے کہ آج مرکز میں بی جے پی کی سرکار ہے اور انکوائری کرنے والی سی بی آئی اس کے ماتحت ہے مگر جب مرکز میں کانگریس یا دوسری پارٹیوں کی سرکاریں رہیں تب بھی اس سلسلے میں انصاف کہاں ہوا؟ اس کے لئے صرف بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہوگا بلکہ خود کانگریس بھی ذمہ دار ہے اور ملائم سنگھ جیسے لیڈران بھی قصور وار ہیں جو مندر،مسجد کی سیاست کے سبب ہی سامنے آئے ہیں اور خفیہ طور سے بابری مسجد کے دشمنوں سے ملی بھگت رکھتے ہیں۔
جواب دیں