محمد سمعان خلیفہ ندوی ( استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل)
آج ناشتے سے فارغ ہوکر ترکش پارک پہنچے، جہاں رنگ برنگے پھولوں اور پودوں، زیتون کے درختوں نیز مختلف پرندوں کو دیکھ کر جمالِ فطرت سے محظوظ ہوئے اور وہاں سے ایک سرخ رنگ کی عالی شان مسجد کا رخ کیا، مسجد ابھی تعمیر کے مراحل میں ہے، ہوا دار ہے، ایک وسیع ہال میں نماز ہوتی ہے اور یہیں ایک خانقاہ آباد ہے، معلوم ہوا کہ اس کے بانی مولانا نسیم میٹھا ہیں، جنھوں نے ہندستان ہی سے تعلیم حاصل کی، سن چوراسی کے بعد سے پھر ہندستان آنا نہیں ہوا ہے، ہم نے مولانا سے ملاقات کی اور ہندستان آنے کی دعوت بھی دی، مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوا، وہ ڈاکٹر صاحب کی خدمات سے متاثر ہوئے، ندوہ اور ابنائے ندوہ کے حوالے سے خوش گوار گفتگو ہوئی، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمۃ کی کتابوں کا ذکر خیر ہوا، قصص النبیین پر ڈاکٹر صاحب کے کام کا تذکرہ ہوا تو بہت خوش ہوئے اور بتایا کہ قصص النبیین ان کے یہاں نصاب میں داخل ہے اور اب ارادہ ظاہر کیا کہ ڈاکٹر صاحب والا نسخہ پڑھایا جائے گا۔ مگر القراءۃ الراشدۃ کے بجائے مصر کی القراءۃ الرشیدۃان کے یہاں نصاب میں شامل ہے۔ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمہ اللہ کی جنوبی افریقہ آمد کا بھی تذکرہ کیا۔
یہ مدرسہ انھوں نے بیس سال قبل قائم کیا اور دل چسپ بات یہ ہے کہ یہاں بیس ممالک کے صرف بیس طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ اس کی وجہ ہم کو سمجھ میں نہیں آئی، ممکن ہے ان کا کوئی مخصوص پروگرام ہو۔ ہمیں یہ بات وہاں سے نکلنے کے بعد معلوم ہوئی، ورنہ اس کی وجہ معلوم کرنے کی بھی جستجو ہوتی۔ مدرسہ کئی ایکڑ زمین پر واقع ہے۔ بارہ سال سے مولانا صحیح بخاری پڑھا رہے ہیں۔ انھوں نے بخاری شریف پر کچھ کام کیا ہے، جس میں روات کے ناموں کے ساتھ ان کا سن وفات درج ہے جس سے ناموں کے تکرار کی صورت میں روات کی تعیین اور لقا کے ثبوت میں سہولت ہوگی۔
یہاں سے فارغ ہوکر ہم مسجد بلال پہنچے اور نماز سے فارغ ہوئے، یہیں مفتی بلال بھانا ندوی سے ملاقات ہوئی، متواضع اور منکسر المزاج ہیں۔ علمی وتحقیقی ذوق رکھتے ہیں، فقہ میں تخصص کا ادارہ قائم کیا ہے، سب سے دل چسپ بات مولانا خلیل صاحب نے ان کے حوالے سے یہ بتائی کہ مفتی صاحب اور ان کے اساتذہ ہر ماہ ملنے والی تنخواہ سے ضروریات زندگی کی تکمیل کرکے بقیہ رقم بچاکر واپس کرتے ہیں۔ یہ بات بڑی قابل قدر نظر آئی اور اس بات کا احساس ہوا کہ آج کے دور میں بھی اسلاف کی ایسی یادیں زندہ ہیں۔
یہیں مولانا ابراہیم کانچی خلیفہ مولانا ابراہیم میاں اور مولانا سعید اکھلوایا ندوی سے بھی سرسری ملاقات ہوئی، مولانا سعید سن انہتر میں ندوے سے فارغ ہوئے، ہمارے سابق مہتمم جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا قاضی فاروق ندوی مد ظلہ العالی کے ساتھی ہیں۔ ندوے کی کچھ یادیں انھوں نے بیان کیں اور اپنے اساتذہ اور محسنین کا تذکرہ کیا۔
وہاں سے فارغ ہوکر ہم لوگ بینونی (Binoni) میں واقع مولانا موسی اکوڈی کی قیام گاہ پہنچے، مولانا نے پرتکلف عشائیے کا انتظام کیا تھا، مختلف قسم کے برائی (Braai) سے دسترخوان سجا ہوا تھا۔ حسب توفیق خوشہ چینی کرکے مولانا ہی کے دولت کدے پر فروکش ہوئے، کیوں کہ ہمیں کل صبح ڈربن کے لیے روانہ ہونا ہے۔
(سفرنامہ جنوبی افریقہ ۷):-
(سخنؔ حجازی۔ بینونی۔ جنوبی افریقہ۔ نو اکتوبر 2024)