دوہزار بائیس

میرے نزدیک ان روایتوں کے مابین تطبیق یہ ہے کہ اسلامی بیداری کا آغاز 2012میں ہوچکا ہے اور اس کی نشانی غزہ کا ثبات ہے یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ 2022تک زبردست معرکہ ہوگا۔۔۔‘‘ (آزادی سے فرار، محمد احمد الراشد، شعور حق نئی دہلی 2014ء ص ص 15-14) 
شیخ یاسین شہید نے اپنی شہادت (مارچ2004)سے برسوں پہلے کہا تھا کہ ’’اکیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں (ابتدائی 25برسوں کے اندر) صہیونی ریاست کی تجہیزوتکفین ہوجائے گی‘‘ اور سی آئی اے کی جون 2010میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق (جو انٹرنیٹ پر موجود ہے) ’’2020کے بعد دنیا میں اسرائیل نام کی کوئی ریاست باقی نہیں رہے گی‘‘! اسرائیلی پارلیامنٹ کے ایک سابق اسپیکر ابراہام بورگ نے اپنی کتاب ہٹلر کے خلاف کامیابی (2010)میں لکھا کہ ’’صہیونی خواب کا خاتمہ ہمارے دروازوں کی دہلیز سے آن لگا ہے، اب یہ خدشہ حقیقت میں ڈھل رہا ہے کہ ہماری نسل آخری صہیونی نسل ہوگی۔۔۔ اسرائیل کے موجودہ حالات جرمنی میں ہٹلر کی آمد کے وقت کے حالات کے مماثل ہوچکے ہیں۔ استعمار اور فتنہ وفساد کا اتحاد (اسرائیلی) ریاست پر مسلط ہے‘‘۔ 29جون 2010کو عبرانی اخبار ’’ید یعوت احرونوت‘‘ نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ ’’ہم جنگ کے عروج پر ہیں اور ہم یہ جنگ ہار رہے ہیں‘‘۔ 
کوئی کہہ سکتا ہے کہ ابراہام بورگ اور یدیعوت احرونوت کی باتیں چار سال پرانی ہیں اور غلط ثابت ہوچکی ہیں، لیکن ذرا اس پر تو غور کیجیے کہ اسرائیل کو 2009میں لبنان پر مسلط کردہ صہیونی جنگ میں حزب اللہ نے خاک چٹائی اور 2012ء میں حماس نے غزہ پر مسلط کی ہوئی جنگ میں اسرائیل کو پسپا ہوکر اپنی شکست قبول کرنے پر مجبور کردیا اور آج2014ء میں 6جولائی سے جاری 30روزہ جنگ میں 2ہزار سے زائد شہادتوں اور دیگر نقصانات کے باوجود پلہ کس کا بھاری ہے؟ سترہ لاکھ اہل غزہ اور حماس کے حوصلے اب بھی بلند ہیں اور 16جولائی 2014کو صدرا سرائیل شمعون پریز فلسطینیوں کی زبردست مزاحمت کے مقابلے میں لاچار ہونے کی بات قبول کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’’جنگ سے امن حاصل نہیں ہوگا‘‘ اور صہیونی حکومت کے نائب وزیر دفاع ڈینی دنون نے 15جولائی 2014ء کو اپنے ایک خطاب میں تسلیم کیا کہ اس جنگ میں ان کو شکست ہوئی ہے اور وزیر اعظم نیتن یاہو کو استعفیٰ دے دینا چاہیے ۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں نیتن یاہو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی کوششیں جاری ہیں، 19جولائی 2014کو دی گارجین لندن میں آرک بشپ ڈسمنڈ ٹوٹو، مائرڈ میگوائر، بوٹس ریلی اور نوعم چومسکی وغیرہ صہیونی اورنصرانی اسکالروں ، ہیومن رائٹس کارکنوں اور موسیقاروں کا ایک مشترکہ بیان پوری دنیا بالخصوص مغربی دنیا کے نام شائع ہوا جس میں اسرائیل کی فوجی امداد پر فوری روک لگانے کا مطالبہ کیاگیاتھا، بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اسرائیل کے ساتھ فوجی تجارت کے فوری خاتمے اور مشترکہ فوجی ریسرچ تعلقات پر مکمل پابندی کی ضرورت ہے کیو ں کہ اسرائیل اسی کی وجہ سے شیر ہوکر بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑارہا ہے اور فلسطینی سرزمین پر غاصبانہ قبضے اور فلسطینیوں کے حقوق سے انکار کو مستحکم تر کرتا جارہا ہے، لہذا اقوام متحدہ اور پوری دنیا کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کے خلاف فوری طور پر اسی طرح معاشی اور فوجی پابندیاں نافذ کریں جو انہوں نے نسل پرستی کے خاتمے کے لیے جنوبی افریقہ کے خلاف کی تھیں‘‘۔ اسی روز (19جولائی 2014ء کو)یہودی صحافی ہیرسین سمفیر نے اسرائیلی یہودی مورخ اور دانشور پروفیسر ایلان پاپے سے ایک تفصیلی انٹرویو لیا جو انٹرنیٹ پر موجود ہے، ایلان پاپے نے جو اس وقت انگلینڈ کی ایک یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں، ایک سوال کے جواب میں کہاکہ غزہ کی بے نظیر مزاحمت اسرائیل کے لیے غیر متوقع ہے حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے کہ وہ غزہ کے ساتھ کیا کرے‘! 
Israel does not know precisely what to do with gaza
انہوں نے کہاکہ اسرائیل نے غزہ کو سات سال سے ایک بڑی جیل (A Mega Prison)میں تبدیل کررکھا ہے لیکن پھر بھی وہ حماس کے توڑنے اور اہل غزہ کو جھکانے میں ناکام رہا ہے‘‘۔ 

۔۔۔تاکہ سندرہے! 

شحیم خان (روزنامہ اردوٹائمز) 

ریاست کی بی جے پی سرکار کے مطابق مدھیہ پردیش کے دینی مدارس میں بھگوت گیتا کی تعلیم کو جلد ہی لازمی بنایا جانے والا ہے ۔ تعلیم کے ’بھگواکرن‘ کی ایسی متعدد کوششوں کے لئے نہ صرف مسلمانوں اور ان کی تنظیموں کی طرف سے بلکہ دیگر انصاف پسندوں کی جانب سے بھی ،بی جے پی پر سخت نکتہ چینی کی جارہی ہے ۔ ہر طرف سے تنقید و مذمت کا نشانہ بننے کے بعد مدھیہ پردیش سرکار نے اس خبر کو بالکل بے بنیاد اور گمراہ کن بتاتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ اس نے صرف نصاب میں دیگر مذاہب کی تعلیم کو بھی شامل کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔ بی جے پی نے بھاری اکثریت سے کامیابی کے فورا بعد یکساں سول کوڈ لانے کی باتیں شروع کردی تھیں ساتھ ہی شرعی معاملات میں مداخلت کا موقع ملک کی عدالتیں بھی اکثر اپنے ہاتھوں سے نہیں جانے دیتیں ۔ سوا کروڑہندوستانیوں کے لئے آخری اور سیکولر سہارا سمجھی جانے والی عدالتوں میں بھی ایسے لوگ آنے لگے ہیں جو اپنے مفادات کے لئے ایسے ایسے بیانات جاری کردیتے ہیں جس سے تعلیم کے بھگوا کرن کی کوششوں کو تقویت ملتی ہے مثال کے طور پر ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ کے جسٹس دوے نے کہہ دیا کہ ’’بھگوت گیتا ‘‘ کی تعلیم کو اسکولوں میں لازمی کردیا جانا چا ہئے ۔ اتنا ہی نہیں ، آگے بڑھ کر انہوں نے یہ بھی فرمادیا کہ’’ اگرمیں ڈکٹیٹر ہوتا تو ملک بھر میں بھگوت گیتا کی تعلیم کو لازمی قرار دے دیتا ۔ ‘‘
پریس کاونسل آف انڈیا کے چیئر مین مارکنڈے کٹجو نے سپریم کورٹ کے جج کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے بالکل ٹھیک ہی کہا ہے کہ یہ ہندوستان کے سیکولر کردار اور آئین کے منافی ہے ۔ نیز یہ کہ اگر ایسا ہوا تو مستقبل میں ملک کو اس سے بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس اے آر دوے نے دو روز قبل کہا تھا کہ ہندوستانیوں کو اپنی قدیم روایات اور کتابوں جیسے مہابھارت اور بھگوت گیتا کی طرف واپسی کرنی چاہئے اور بہت چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو اس سے متعارف کرانا چاہئے۔اگر میں آمر حکمراں ہوتا تو پہلی جماعت سے ہی ان دونوں کتابوں کی پڑھائی کو لازمی کردیتا ۔ اسی طرح آپ زندگی جینا سیکھتے ہیں ۔ اگر اس معاملے میں کوئی مجھے سیکولر یا پھر غیر سیکولر کہتا ہے تو کہتا رہے، میں یہ کہتا ہوں کہ اچھی چیز جہاں سے بھی ملے اسے لے لینا چاہئے ۔ اس کے جواب میں سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کٹجو نے برملا کہا ہے کہ ’’ میں جسٹس دوے کے بیان سے کلی طور پر اتفاق نہیں کرتا کہ گیتا اور مہابھار ت کو اسکولوں میں لازمی کردیا جانا چاہئے ۔ دنیا بھر میں کثرت میں وحدت کاشاندار نمونہ اور گوناگوں تہذیبوں کا سنگم ہندوستان ، اس پر کوئی چیز جبرا تھوپے جانے کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ہمارے ملک کے آئین اور سیکولر کردار کے خلاف ہے ۔ جسٹس ریٹائرڈ کٹجو نے یہ بھی کہہ دیا کہ مسلمان اور عیسائی نہیں چاہیں گے کہ ان کے بچوں کو جبرا مہابھارت اور گیتا کے پاٹھ پڑھائے جائیں ۔ ’’بعض لوگ کہیں گے کہ گیتا صرف اخلاقیات سکھاتی ہے ، اس کے جواب میں مسلمان بھی کہہ سکتے ہیں کہ’ قرآن‘اخلاقیات کا بہترین معلم ہے ، اسی طرح عیسائی کہیں گے بائبل ، سکھ کہیں گے ’گرو گرنتھ صاحب ‘اور پارسی کہیں گے ’زِند اویستا ‘ اخلاقیات سکھاتی ہے ۔
ہمارے نزدیک گوا کے عیسائی وزیر کا یہ بیان کہ ’’ہندوستان ،ہندوراشٹر‘‘بن چکا ہے اور اسی طرح کے دیگر بیانات نیز سپریم کورٹ کے جسٹس دوے کا بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ، اور مودی سرکار کی توجہ حاصل کرنے کی کوششیں ہیں۔یہ بیانات اس لئے دئے گئے ہیں کہ’ تاکہ سندرہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ ‘ ہندتواوادی ارباب اقتدار انہیں یاد رکھیں اور موقع آنے پر اہم عہدوں سے نوازیں ۔

«
»

عراق جنگ کا ایندھن بھارت کے مسلم نوجوان

یہ کن کی لاشیں تڑپ رہی ہیں،یہ کن کا تازہ لہورواں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے