2019میں دلت کرینگے، ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ

سیاسی پارٹیوں کے’’ دلت پریم ‘‘کے پیچھے کا اصل کھیل کیا ہے؟

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

دلتوں کی سچی ہمدرد،بی جے پی ہے یا کانگریس؟کس کی سرکار میں دلتوں کو عزت کے ساتھ جینے کا حق ملا؟دونوں پارٹیوں میں ان دنوں، دلتوں کی ہمدردی کا مقابلہ چل رہا ہے، آخر کیوں؟ دلت پریم کے پیچھے کا اصل کھیل کیا ہے؟ 
2019کے عام انتخابات جیسے جیسے، قریب آرہے ہیں، ویسے ویسے سیاسی پارٹیاں، دلت ہمدردی کا ناٹک بھی تیز کر رہی ہیں۔ ایک طرف کانگریس کی کوشش ہے کہ دلتوں کے ووٹ پر دعویٰ رکھنے والی، بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ، اتحاد کرلے تو دوسری طرف بھارتیہ جنتاپارٹی ڈاکٹربھیم راؤ امبیڈکر کو اپنا ’’آئیکان‘‘ بنانے میں مصروف ہے تاکہ دلتوں کو اپنے پالے میں کیا جاسکے۔اب سوال یہ ہے کہ دو ایسی سیاسی پارٹیاں جن کے ڈی این اے میں ہی ’برہمنواد‘ہے، آزادی کے تقریباً 70سال بعد اچانک کیوں خود کو دلتوں کا مسیحا بناکر پیش کرنے میں مصروف ہیں؟ان پارٹیوں نے اب تک دلتوں کے حق میں کونسے بڑے فیصلے کئے ہیں؟ کیا ایک دلت کو ملک کا صدر بنادینے سے ملک کے کروڑوں دلتوں کو عزت ووقار کے ساتھ جینے کا حق مل جاتا ہے ؟ آخر کیا سبب ہے کہ عین الیکشن سے قبل، ان پارٹیوں کے بیچ ’’دلت دلت‘‘کا کھیل شروع ہوگیا ہے؟
جب دلتوں کو غصہ آیا
2اپریل2018 کی تاریخ ہندوستان کے اتہاس میں یاد رکھی جائیگی۔ یہ وہ دن تھا جب دلتوں نے پانچ ہزار سال کی غلامی کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔ ان کے غصے کا طوفان پھوٹ پڑا اور پورے ہندوستان میں آگ سی لگ گئی۔ اس صورت حال کے لئے نہ تو حکومت تیار تھی اور نہ ہی دوسری سیاسی پارٹیوں کو اس کا اندازہ تھا، حالانکہ ایک مدت سے بغاوت کی چنگاری دھیرے دھیرے اندر سلگ رہی تھی۔ مودی سرکار کے لوگوں نے دلتوں کے پُرتشدد ہنگامے کے لئے، کانگریس اور بی ایس پی کو ذمہ دار ٹھہرایا مگر اصل بات یہ ہے کہ خود کانگریس کو بھی، نہیں معلوم تھا کہ دلت ایسا کچھ کرنے والے ہیں۔ ظاہر ہے یہ مایاوتی کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی تھی جو دلتوں کے ووٹ سے اقتدار میں آئیں مگر ان کے لئے خاطرخواہ کچھ نہیں کیا۔ اترپردیش میں چندرشیکھر راون اور گجرات میں جگنیش میوانی جو نیتا کی حیثیت سے ابھرے ہیں، اس کے پیچھے بھی یہی دلت غصے کا طوفان کارفرما تھا مگر اب یہ لاوہ پھٹنے والا ہے اور آنے والے ایام میں اس سے بھی بڑا کچھ ہنگامہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ماضی میں دلتوں کو مسلمانوں پر حملے کے لئے اکسایا جاتا رہا ہے مگر اب دلت بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کے اندر بھی بیداری آرہی ہے اور وہ اپنے نفع ونقصان کو سمجھنے لگے ہیں۔2 اپریل کو دلتوں کی طرف سے جو ’’بھارت بند‘‘ کا اعلان کیا گیاتھا اس میں زبردست تشدد دیکھا گیا۔ایس سی ایس ٹی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد مختلف دلت تنظیموں نے اس’’ بھارت بند‘‘ کااعلان کیا تھا۔تقریبا پورے ملک میں دکان اور کاروبار بند رہے اور تشدد کے سبب بہت سے لوگوں کی موتیں ہوئیں اور سرکاری وغیر سرکاری املاک کا بھی بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ یہ ’’بھارت بند‘‘ کسی معروف تنظیم کی طرف سے نہیں بلایا گیا تھا مگر پھر بھی اس میں بڑی تعداد میں دلت شریک ہوئے۔ یہ پورا معاملہ گویا ایک انتباہ تھا،ان سیاسی پارٹیوں کے لئے جو دلتوں کے ووٹ پر راج کرتی رہی ہیں، ملک کے سسٹم کے لئے جس نے کبھی بھی دلتوں کو ان کا جائز مقام نہیں دیا اور ملک کے عام لوگوں کی تنگ ذہنیت کے لئے جس نے دلتوں کو کبھی انسان نہیں سمجھا۔
سیاسی ’’دلت پریم‘‘
اس وقت ملک پر بھارتیہ جنتاپارٹی کا راج ہے، جو ایک رجعت پسند ہندتووادی جماعت ہے۔ وہ ان قدیم شاستروں میں یقین رکھتی ہے، جن میں دلتوں پر مظالم کا درس دیا گیا ہے۔ ایسے میں بڑا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بی جے پی دلتوں کی ہمدرد ہے؟ اگر واقعی ایسا ہے تو اس کے دورحکومت میں دلتوں پر مظالم میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟ دلتوں کو بات بات پر ستایا کیوں جارہا ہے؟ دلت دولہے کو گھوڑے پرچڑھنے تک کی اجازت کیوں نہیں ہے؟جوتا پہننے کے سبب دلتوں کی پٹائی کیوں ہورہی ہے؟بابا صاحب کی مورتیاں کیوں توڑی جارہی ہیں؟ حالانکہ دوسری طرف بھگوا پریوار کے لوگ ڈاکٹر امبیڈکر کی جینتی منارہے ہیں، جیوتی باپھولے کی تصویروں پر پھول چڑھا رہے ہیں ، ’’دلت بھوج ‘‘میں مصروف ہیں اوریہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان سے بڑھ کر دلتوں کا ہمدرد کوئی نہیں۔ کیا یہ ان کا دوہرا چہرہ نہیں ہے کہ ایک طرف تو دلتوں کو مار رہے ہیں اور دوسری طرف، انھیں پچکارنے میں بھی لگے ہیں۔خود بی جے پی صدر امت شاہ اور وزیراعظم نریندر مودی ’’دلت پٹاؤ‘‘ کی سیاست میں مصروف ہیں ،جب کہ حالیہ رپورٹس بتا رہی ہیں کہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد دلتوں پر مظالم بڑھے ہیں۔ بی جے پی کے راج میں دلتوں پر ہی زندگی تنگ نہیں ہوئی ہے، بلکہ ہندوستانی آئین کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر کی مورتیاں توڑ کر اس سلسلے میں نفرت انگیز پیغام دینے کی کوشش بھی ہوئی۔ یوپی کے الہ آباد، سہارن پور، آگرہ، اعظم گڑھ، فیروزآباد، بدایوں اور بلیا وغیرہ میں امبیڈکر کی مورتیاں توڑی گئیں۔ حالانکہ اس سے بڑا ستم حکومت نے کیا کہ امبیڈکر کی مورتی کو بھی بھگوا رنگ دے دیا۔ بی جے پی کے ’دلت پریم‘‘کے بارے میں جو باتیں کہی جاسکتی ہیں ،ٹھیک وہی باتیں، کانگریس کے ’’دلت پریم‘‘ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہیں۔ کانگریس کے تقریباساٹھ سال کے دور اقتدار میں بھی دلتوں کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ اگر آزادی کے بعد ،انھیں برابری کا حق دلانے کی کانگریس حکومتیں کوشش کرتیں تو آج ان کے حالات مختلف ہوتے۔
دلتوں کے ساتھ ہمدردی یا اقتدار کا کھیل؟
پورے ملک میں دلتوں کو لے کر تمام سیاسی پارٹیاں ،ہمدردی ظاہر کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخریہ سب ہوکیوں رہا ہے؟دراصل 2019 کے لوک سبھا انتخابات سر پر ہیں اور کوئی بھی جماعت، دلت ووٹ بینک کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔پورے ملک میں دلت ووٹ 17فیصد کے آس پاس ہے اوراگر اس میں شیڈول ٹرائب کا ووٹ جوڑ لیا جائے تو25فیصد ہوجاتا ہے۔ پنجاب میں دلت ووٹ 32فیصد ہے تو اترپردیش،راجستھان، مغربی بنگال،اڈیشا اور جنوبی ہند کی ریاستوں میں یہ ووٹ 20فیصد کے اوپر ہے۔ ایسے میں کسی بھی پارٹی کو اقتدار میں لانے اور محروم کرنے میں اس ووٹ بینک کا بڑا رول ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد سے دلت ووٹ کانگریس کے ساتھ رہا مگر گزشتہ کچھ برسوں میں دلت ووٹ بی جے پی کی طرف گیا ہے، جس سے بی جے پی کو براہ راست فائدہ ملا ہے۔گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں، بی جے پی نے اتر پردیش میں شیڈول کاسٹ کے لئے محفوظ تمام 17 نشستیں جیت لی تھیں۔ اس وقت، بی جے پی پورے ملک میں تنہا ایسی پارٹی ہے، جس کے پاس سب سے زیادہ دلت ممبران پارلیمنٹ اور اسمبلی ہیں۔ یہی وہی جماعت ہے جس پر بہوجن سماج پارٹی ، ’’منووادی‘‘ ہونے کاالزام لگاتی ہے،لیکن اب حالات یہ ہیں کہ بی جے پی، اتر پردیش میں بی ایس پی کے ووٹ بینک کا ایک حصہ ہتھیانے کے بعد اسے مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔اسی طرح ہریانہ میں بھی دلت ووٹ، بی جے پی کے ساتھ آگیا تھا۔بی جے پی ایک طرف خود کو ہندووادی قرار دیتی ہے تو دوسری طرف وہ اس امبیڈکر کو بھی اپنانے میں لگی ہے جو آرایس ایس اور ہند ومہا سبھا کے نظریے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ بی جے پی گوکشی کے خلاف ہے تو امبیڈکر کا ماننا تھا کہ ویدک دور میں بھی گوکشی ہوتی تھی۔ بھاجپا ،تبدیلی مذہب کے خلاف ہے، وہیں دوسری طرف امبیڈکرنے ہندو دھرم کو چھوڑ ،بدھ ازم کو اپنا لیا تھا کیونکہ ان کی نظر میں ہندو دھرم میں چھوت چھات اور اونچ نیچ کی باتیں ہیں اور ہندو اسے چھوڑنے کو تیار نہیں۔ظاہر ہے کہ بی جے پی کی امبیڈکربھکتی اورسنگھ کے دلت پریم کے پیچھے کا اصل کھیل ان کے ووٹ کی اہمیت ہے۔ ڈاکٹرامبیڈکر، جیوتی باپھولے اور دوسرے ’دلت آئیکان ‘کا سہارا لے کر بی جے پی دلتوں کے لئے، ایک فطری سیاسی متبادل بننا چاہتی ہے۔اسی کے ساتھ آر ایس ایس کی کوشش، وسیع ہندوسماج کا اتحاد بھی ہے۔اسی لئے کبھی تبدیلی مذہب کے خلاف تحریک چلائی جاتی ہے تو کبھی ’’گھرواپسی ‘‘کی بات کی جاتی ہے۔سنگھ کی طرف سے’’ دلت بھوج‘‘ کا پروگرام بھی اسی مقصد سے چلایا جاتا ہے اور تنظیم کے لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ دلتوں کے گھروں میں جائیں اور ان کے ساتھ کھانا کھائیں۔ ناگپور میں اپنے ایک حالیہ اجلاس میں، سنگھ نے نعرہ دیا ہے ’’ ایک گاؤں میں ایک کنواں،ایک مندر اور ایک شمسان‘‘یعنی پوجا، کھانا پینا اور انتم سنسکارمیں کوئی بھید بھاؤ نہیں ہونا چاہئے۔ دلتوں کے ووٹ کو بی جے پی کے ساتھ لانے کے لئے ہی رام ولاس پاسوان، جیتن رام مانجھی اور رام داس اٹھاولے جیسے نیتاؤں کو بی جے پی کے قریب لایا گیا مگر اس کے باوجود حالیہ واقعات نے دلت ووٹ کو بی جے پی سے قریب کرنے کے بجائے دور کردیا اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑے گا۔ اس صورت حال سے پارٹی فکرمندہے اور دلتوں کو خوش کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے۔ دوسری طرف کانگریس کی کوشش ہے کہ 2018میں ہونے والے اسمبلی انتخابات اور 2019کے عام انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی سے انتخابی سمجھوتہ کرلے۔ پس پردہ اس کے لئے کوششیں بھی جاری ہیں مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ دلتوں کے اندر سیاسی شعور بیدار ہورہا ہے اور وہ اپنے ووٹ کی اہمیت کو پہچاننے کے ساتھ ساتھ، اپنا نفع ونقصان بھی سمجھنے لگے ہیں، ایسے میں انھیں بھیڑ بکری سمجھنے کی غلطی ، سیاسی پارٹیوں کو بھاری پڑسکتی ہے۔ مستقبل میں ملک کا اقتدار اسی پارٹی کو ملے گا جس کے ساتھ دلت جائیں گے مگردلت بھی چاہتے ہیں کہ اس کے بدلے میں انھیں عزت کی زندگی ملے اور پانچ ہزار سال کے غلامی سے نجات ملے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضر وری نہیں۔
30؍ جون 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

«
»

کون اور کیوں اکسا رہا ہے بھیڑ کو؟

موجودہ اُردو ادب کے اہم ستون ظہورالاسلام جاویدسے خصوصی گفتگو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے