وزارت خارجہ نے حالیہ سمجھوتہ کی تفصیل بتاتے ہوئے اس عہدسازمعاہدہ کودونوں ممالک کیلئے تاریخی قدم قراردیاہے۔جن کشیدہ حالات میں اس پیچیدہ مسئلے کو حلکیاگیاہے وہ آزادی کے بعدسے ہی زیر التواء تھااورموقع بموقع اس معاملے پردونوں ممالک کے درمیان تلخیاں بھی پیداہواکرتی تھیں۔ اس موقع پر کسی سرکاری پروگرام کا انعقاد نہیں کیا گیا، لیکن’ہندبنگلہ دیش‘انکلیو ایکسچینج کوآرڈی نیشن کمیٹی نے کوچ بہار کے ماسل دانگاگاؤں میں آج رات ایک تقریب کا رنگارنگ انعقادکیاہے۔ رات کو 12.01 بجتے ہی انکلیومیںآبادلوگوں نے جشن منایااور ہندوستان کا قومی پرچم لہرانا شروع کر دیا۔اس تاریخ سازسمجھوتہ کوجشن میں شریک لوگ اپنے لئے نئی زندگی کے آغازسے تعبیرکرتے ہوئے خوشی کااظہارکررہے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ اس متنازعہ مسئلہ کوحل کرنے میں سب سے زیادہ دلچسپی وزیراعظم نریندرمودی نے دکھائی تھی اورسابقہ موسم گرماکے اجلاس کے دوران حکومت ہندنے متفقہ طورپراس تنازعہ کوانجام تک پہنچانے والی تجویزکومنظوری دی تھی۔مختصر یہ کہ8مئی 2015کوہی ہماری پارلیمنٹ نے معاہدہ کابل منظورکرکے یہ اشارہ کردیاتھاکہ ہندوستان تنازع کوسنجیدگی سے لے رہاہے۔جسے گزشتہ یکم اگست 2015کوحتمی شکل دیدی گئی۔اسی کے ساتھ بنگلہ دیش کے ساتھ 41 سال پرانے سرحدی تنازع کونمٹاتے ہوئے پارلیمنٹ نے 8مئی2015 کو متفقہ طور پر ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کچھ بستیوں اور زمینی علاقوں کے تبادلے کومنظوری دینے والے تاریخی ترمیمی بل کو منظوری دے دی تھی۔قابل مسرت امریہ ہے اس بل کی منظوری میں حزب اختلاف نے بھی کوئی اختلاف نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ بل کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں سونیا گاندھی کے پاس جا کر ان کا شکریہ ادا کیاتھا۔
بل کی منظوری کے بعدوزیراعظم نے کہا تھاکہ ہندوستان اپنے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ رعب جمانے والے’’بڑے بھائی‘‘ جیسا نہیں بلکہشفقت ومحبت کااظہارکرنے والے’’بزرگ بھائی ‘‘جیسا سلوک کرتا ہے۔ لوک سبھا نے کانگریس اور ترنمول سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت سے آئین میں(119 ویں ترمیم) بل کو منظور کرکے یہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ تنازع میں نہیں بلکہ باہمی تعلقات اورپرامن رشتہ میںیقین رکھتاہے۔
اس کے ذریعے 1974 میں ہوئے ہندوستان بنگلہ دیش سرحد معاہدے کونافذ کرنے کی راہ ہموار ہوگئی۔ 5مئی 2015کوبل منظور ہونے کے دوران ایوان میں وزیر اعظم نریندر مودی، بی جے پی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی، کانگریس صدر سونیا گاندھی، راہل گاندھی وغیرہ سبھی اہم لیڈران موجود تھے۔ بل منظور ہونے کے بعد مودی نے اپوزیشن بیچوں کی طرف جاکر سونیا گاندھی، ملیکارجن کھڑگے سمیت اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کا شکریہ ادا کیاتھا۔ بل منظور ہونے سے پہلے وزیر خارجہ سشما سوراج نے اس معاملہ کوخاتون آہن سابق وزیراعظم آنجہانی اندراگاندھی اوربنگلہ دیش کے سربراہ شیخ مجیب کے معاہدے سے منموہن سنگھ۔شیخ حسینہ پروٹوکول تک کوایک قرض بتایاتھا،جسے کل اداکردیاگیا۔ اس سلسلے میں سشمانے ایوان زیریں میں تمام ارکان سے متفقہ طور پر اس بل کو منظور کرانے کی اپیل کی تھی جسے ایک دن قبل ہی ایوان بالا نے منظوری دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ممالک کیلئے منافع بخش ہے اور اس سے علاقہ میں لاکھوں کی تعدادمیںآباد ہندواور مسلمانوں کو را ست فائدہ حاصل ہوگا۔ذہن نشین رہے کہ اس کنکلیومیں مسلمانوں کی تعدادلگ بھگ 4لاکھ سے زیادہ ہے۔اسی زمانے میں دہلی میں وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہاتھاکہ31جولائی ہندو ستا ن اور بنگلہ دیش دونوں کے لئے تاریخی دن ہوگا۔اسی دن اس پیچیدہ مسئلے کو حل کیاجائے گاجو آزادی کے بعد سے زیر التواۂے۔اسی موقع پربنگلہ دیش اور ہندوستان 1974 کے LBA قرار کو نافذکریں گے اور ستمبر، 2011 کے پروٹوکول کو اگلے 11 ماہ میں مرحلہ وار طریقے سے عمل میں لائیں گے۔یاد رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے 6۔7 جون 2015 کے ڈھاکہ دورے کے وقت زمین کی حدبندی کے معاہدے اور پروٹوکول کو حتمی شکل دی گئی تھی۔
یکم اگست کوبھارت بنگلہ دیش کی سرحدوں کے نزدیک واقع 162 نام نہاد بھارت بنگلہ دیش انکلیو کے ہزاروں باشندوں کی زندگی کا سب سے تاریخی دن ہے کیونکہ آج کے دن انہیں آزادی ملی ہے۔
جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب بارہ بجتے ہی دونوں ملکوں کے یہ انکلیو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیے گئے اور جو انکلیو بھارت میں تھے وہ بھارت کی ملکیت میں آگئے اور جو بنگلہ دیش میں تھے ان پر اب بنگلہ دیش کا اقتدار اعلیٰ قائم ہوگیا ہے۔ ان سابقہ انکلیو کے باشندوں کو اسی کے ساتھ شہریت اور قومیت بھی مل گئی ہے۔
بھارت کو جب آزادی ملی اس وقت سے انکلیو کے یہ باشندے قومیت سے محروم ہو گئے اور کل رات تک وہ دنیا کے غالباً واحد ایسے باشندے تھے جو زمین کے مالک ہوتے ہوئے بھی کسی ملک کے شہری نہیں تھے۔
ان کے پاس نہ کو ئی شناختی کارڈ تھا، اور نہ ہی پاسپورٹ۔ انکلیو کے ہزاروں باشندے پچھلے 68 برس سے اپنے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں محصور تھے۔ انھیں اسکول اسپتال، بجلی پانی اور تمام جدید سہولیت سے محروم رکھا گیاتھا۔ سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ اپنے انکلیو سے باہر نہیں نکل سکتے تھے کیونکہ ایسا کرنا قانون کی سنگین خلاف ورزی میں شمار ہوتا تھا۔ ہزاروں لوگ دوا لینے، مزدوری کرنے یا اپنا اناج فروخت کرنے کے لیے انکلیو سے باہر آنے کے جرم میں جیل کی سزا کاٹ چکے ہیں۔
حالیہ معاہدہ پربی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ بھارت، مشرقی پاکستان اور بعد میں بنگلہ دیش کی حکومت نے ان باشندوں کو 68 برس سے انتہائی غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبورکر رکھا تھا۔ یہ کوئی بہت پیچیدہ مسئلہ نہیں تھا۔اس پر معاہدہ 1974 میں ہو چکا تھا لیکن اس کی منظوری اور نفاذ میں 42 برس لگ گئے۔ پچھلے 68 برس سے یہاں کے باشندوں کی تین نسلیں زمین پر اپنے وجود کی شناخت اور انسانوں کی طرح جینے کے حق کے لیے جدو جہد کرتی رہیں۔
کل رات یہ انکلیو عشروں کے ظلم و جبر سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو گئے۔ بنگلہ دیش کے انکلیو کے باشندوں کو بنگلہ دیش کی اور بھارت میں واقع انکلیو کے باشندوں کو بھارت کی شہریت دے دی گئی اور یہ انکلیو اپنے اپنے ملکوں میں ضم کر دیے۔ ہر طرف جشن کا سماں تھا۔ اب یہ شہری پوری طرح آزاد ہیں۔ ہر شخص کی زبان پر آزادی اور تشکر کے نعرے تھے۔
اس موضوع پروائس آف امریکہ لکھتاہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے سرحد پر واقع 162 دیہات کے کنٹرول کا تبادلہ کر کے دیرینہ تنازع ختم کردیاہے۔ رات 12 بجتے ہی ان علاقوں کے رہائشیوں نے بھرپور جشن منایا۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور خوب ہلہ گلہ کیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم 68 سال سے اندھیرے میں تھے، بالآخر ہمیں روشنی مل گئی۔ اس وقت علاقے میں بارش جاری تھی مگر لوگوں نے اس کی کوئی پروا نہیں کی۔ بعض لوگوں نے 68 سالہ پرانا تنازع حل ہونے پر 68 موم بتیاں روشن کیں۔ مقررہ وقت پر ان بستیوں میں بنگلہ دیش اور بھارت کے قومی پرچم لہرا کر ان کی متعلقہ ملک میں شمولیت کا اعلان کیا گیا۔ یہ بستیاں 18ویں صدی میں قائم ہوئی تھیں اور برصغیر کی تقسیم اور پھر بنگلہ دیش کے قیام کے باوجود ان کے باسیوں کی شہریت کا مسئلہ حل طلب رہا تھا۔
بہرحال یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جس کے بعدامیدکی جاتی ہے اسی طرح ہمارے وزیراعظم اورمرکزی کابینہ اپنے دیگرپڑوسیوں کے ساتھ بھی برسوں سے جاری خوں ریزتنازع کوحل کرنے میں’’برادر بزرگوار‘‘کاکرداراداکریں گی۔
جواب دیں