خبر ہونے تک….

لیکن آج کی اس ’صارفیت پسند‘ دنیا میں نہ کوئی کسی بات اور خبر کی تحقیق کرنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی وہ جن پر کسی بات کی تصدیق یا تردید کی یا کوئی بات کہنے یا خبر دینے کی ذمے داری عام لوگوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، وہ کسی طرح کی احتیاط برتنے کے لیے تیار ہیں۔ خبر یا بات سننے والا ’کواکان لے گیا‘ کے محاورے پر عمل کرکے کوے کے پیچھے دوڑتا اور خبر دینے والا ’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘ کے مصداق ’جھوٹ‘ کو ’سچ‘ ہی قرار دینے پر تلا رہتا ہے۔ 
’میڈیا تو اکثر ’جھوٹ‘ کو ’سچ‘ ہی بناکر پیش کرتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں تو یہ مرض ایک وبا کی طرح عام ہے۔ ٹی وی کاکوئی نیوز چینل کھول لیں یا جھوٹی خبروں کی بھر مار ہوتی ہے یا پھرکوئی نہ کوئی فلم اسٹار، اسپورٹس مین یا کسی اورمیدان کا ماہر کسی نہ کسی پروڈکٹ کی تعریف کرتا، بھلے ہی وہ خود وہ پروڈکٹ استعمال نہ کرتا ہو، اور عام لوگوں کو اس پروڈکٹ کے استعمال کی ترغیب دیتا نظرآجاتا ہے۔ ’میگی‘ معاملے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ جی ہاں! وہی ’میگی‘ جسے بس دو منٹ میں غذا کے طور پر تیار کیاجاسکتا ہے اور جو بچوں کا مرغوب کھانا سمجھا جاتا ہے۔ ’میگی‘ ایک بڑی ہی مشہور کمپنی نیسلے کا پروڈکٹ ہے۔ حال ہی کی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس کے اندر ایسے اجزاء اور عناصر ہیں جو انسانی جسم کے لیے بے حد مہلک ہیں۔ اس تحقیق کے بعد نیسلے کمپنی کے خلاف معاملہ درج کیاگیا ہے اور سپر اسٹار امیتابھ بچن سمیت کئی فلمی ستاروں پر جِن میں مادھوری دکشت اور پریتی زنٹا بھی شامل ہیں مقدمے درج کیے گئے ہیں۔ یہ وہ ستارے ہیں جو ’میگی‘ کی تصدیق کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے یہ تصدیق مفت نہیں کی، کروڑوں روپئے لیے ہیں، اسی لیے ان سے جو چاہا کمپنی نے ’میگی‘ کی تعریف میں کہلوایا اور یہ چونکہ روپئے کے لیے کام کررہے تھے اسی لیے شاید یہ ضرورت محسوس نہیں کی، یا اس ذمے داری کا احساس نہیں کیا کہ چھان پھٹک کر لیں کہ ’میگی‘ واقعی ایک صحت بخش غذا ہے یا صحت کے لیے نقصاندہ؟ 
یقیناًیہ نہ خود ’میگی‘ کھاتے ہوں گے نہ اپنے بچوں اور احباب کو کھلاتے ہوں گے۔ روپئے لے کر ’جھوٹ‘ بولنے کا نتیجہ ہے کہ آج اِن پرمقدمے قائم ہوگئے ہیں۔ 
یہ کیسی افسوس کی بات ہے کہ آج کی اس دنیا میں صرف روپئے کو اہمیت دی جارہی ہے، دولت کمانے کے لیے بڑے لوگ بغیر تحقیق کیے کسی بھی برانڈ یا پروڈکٹ کی تعریف کردیتے ہیں، کوئی نورتن تیل بیچ رہا ہے تو کوئی کسی چینل پر تعویز! نہ یہ خود نورتن تیل استعمال کرتے ہیں اور نہ خود تعویز پہنتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے ’جھوٹوں‘ کی ، جی ہاں یہ ’جھوٹے ہی ہیں ہم عام لوگ کیوں سُنتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ ہم نے ان ہی ’جھوٹوں‘ کو اپنا آئیڈیل بنارکھا ہے۔ ہم اچھے انسانوں، ولیوں، صوفیوں اور رشی مینوں کو آئیڈیل نہیں مانتے۔ سارا قصور تو ہمارا ہے کہ ہم خود آنکھ بند کرکے ’جھوٹوں‘ کی باتوں اورخبروں پر اعتبار کرکے اپنی اور پنے بچوں کی زندگیاں برباد کررہے ہیں۔ ’جھوٹوں‘ کو تو روپئے پیسے ملتے ہیں، ہمیں کیا ملتا ہے؟ کچھ نہیں بلکہ بیمار پڑنے پر پیسے جیب سے جاتے ہیں۔ 


گوشت پر پابندی درست، اس سے قومی یکجہتی کو فروغ ملے گا 

کسی کو پاکستان بھیجنا ہمارے اختیار میں نہیں ہے ، بی جے پی کے ایک سالہ دور میں کہیں فساد نہیں ہوا: شاہنواز حسین 

ممبئی،۰۳؍ مئی: (فاروق انصاری کے ذریعہ) گائے او ربیل کے ذبیحہ پر پابندی کا فیصلہ درست ہے اس سے ملک میں قومی یکجہتی کو فروغ ملے گا کیو ں کہ ملک کی سب سے بڑی اکثریت کے جذبات مجروح نہیں ہوں گے ۔ ان خیالات کا اظہار بی جے پی کے ترجمان شاہنواز حسین نے کیا۔ نریمان پوائنٹ میں واقع بی جے پی کے دفتر میں منعقدہ پرہجوم پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اگر کسی عمل سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو وہ کام ہرگز نہیں کرناچاہیے، جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی پارٹی کے ایک مرکزی وزیر گوشت کھانے والوں کو پاکستان چلے جانے کی رائے دے رہے ہیں اور دوسرا وزیر گوشت کھانے کی تلقین کرتا ہے آپ کی پارٹی کا کیا موقف ہے تو شاہنواز حسین نے کہاکہ کسی کو پاکستان بھیجنے کا اختیار نہیں ہے نہ پاکستان یہاں کے کسی فرد کو قبول کرے گا اور نہ ہم بھیج سکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری زبان ایک تہذیب ایک پھر کھانا پینا ایک جیسا کیوں نہیں؟ جبکہ کھان پان بھی ایک ہوناچاہیے۔ انہوں نے کہاکہ جو یہاں پیدا ہوا ہے وہ یہیں رہے گا ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پورے ملک میں بڑے کے گوشت پر پابندی لگائیں گے تو انہوں نے کہا کہ مسلم سماج کو اس کے لیے پہل کرنے کی ضرورت ہے جب انہیں بتایاگیا کہ گوشت پر پابندی سے بڑی تعداد میں مسلمان بے روزگار ہوگئے ہیں تو انہوں نے کیا یہ درست نہیں ہے منریگا کے معرفت ملک بھر میں لوگوں کو کام مل رہا ہے اور ان کی بے روزگاری ختم ہورہی ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ملک ترقی کی راہ پر ہے ہم ترقی کا نعرہ دے کر اس کے حصول کے لیے کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ میک ان انڈیا کا نعرہ اور اسکیل ڈیولپمنٹ کی اسکیم سے نوجوانوں کو بہت روزگار ملے گا۔ مودی جی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کا جو نعرہ دیا ہے وہ صرف نعرہ نہیں بلکہ دھرم ہے ہم اس کا پالن کریں گے۔ شاہنواز حسین نے مزید کہاکہ ہمیں فخر ہے کہ بی جے پی کے ایک سالہ دور اقتدار میں کہیں کوئی فساد نہیں ہوا۔ مسلم نوجوانوں کی بے جا گرفتاریاں نہیں ہوئیں، یہ سب کانگریس کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے پاس کوئی عنوان نہیں ہے راہل گاندھی دس سال میں پارلیمنٹ میں دس منٹ بھی نہیں بولے ہیں کانگریس اگر ہمیں سوٹ بوٹ والی سرکار کہہ کر مخاطب کرتی ہے تو ہم اسے برا نہیں مانتے مگر یہ حرکت اچھی نہیں ہے ہم نے کبھی بھی نہروجی کی شیروانی، راجیو گاندھی کی قلم پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اس لیے انہیں بھی خاموش رہناچاہیے۔ ذیشان خان کو ملازمت نہ دینا اور مصباح قادری کو یہ کہہ کر فلیٹ نہ دینا کہ وہ مسلمان ہیں اس پر پوچھے گئے سوال پر شاہنواز حسین نے کہا کہ اس کا سرکار سے کوئی تعلق نہیں یہ پرائیوٹ سوسائٹی کامعاملہ ہے پھر بھی پولس نے ایف آئی آر کیاہے کارروائی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہاکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے دھرم کی سیاست نہیں کی ہے وہ ہندوستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں نمبر ایک پر کھڑا کرناچاہتے ہیں۔ علاحدہ ودربھ کے معاملے میں نتن گڈکری کے بیان پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ یہ ان کی رائے ہے اس سے ہماری دوست پارٹیوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ بہار کے الیکشن کے تعلق سے انہوں نے کہاکہ نتیش اور لالو کے نظریات الگ الگ ہیں اس لیے انہیں کامیابی نہیں ملے گی، وہاں بھی بی جے پی کی ہی سرکار بنے گی۔ اس موقع پر بی جے پی ممبئی کے صدر ایڈوکیٹ اشیش شیلار، نائب صدر حیدر اعظم اور بی جے پی کی ترجمان شاہنہ این سی بھی موجود تھیں۔ 


مسلم نوجوانوں کو روزگار دلانے کے لیے ہمیں لائحہ عمل بنانا ہوگا 

ایسوسی ایشن آف مسلم پروفیشن کی میٹنگ میں تجاویز، تعصب پرستی کا مقابلہ حکمت عملی سے کرنے کی ضرورت 

ممبئی،۰۳؍ مئی: (فاروق انصاری کے ذریعہ) مسلمانوں کے ساتھ ہر شعبے میں تعصب کا معاملہ کوئی نئی بات نہیں ہے ذیشان خان کو مسلمان ہونے کے ناتے نوکری دینے سے انکار کرنا، مصباح قادری کو سوسائٹی میں فلیٹ دینے سے منع کرنا یہ تازہ مثالیں ہیں۔ اس قسم کے تعصب پرستانہ رویے کا مقابلہ حکمت عملی سے کرنے کی ضرورت ہے اس موضوع پر آج آگری پاڑہ میں و اقع آل انڈیا مسلم اوبی سی آرگنائزیشن کے دفتر میں ایسوسی ایشن آف مسلم پروفیشن نے ایک اہم مذاکرہ رکھا تھا جس میں یہ طے کیاگیا کہ سوشل میڈیا میں جو رائے دی جارہی ہے اسے روکا جائے اس سے غلط فہمی پھیلتی ہے، عامر ادریسی (صدر اے ایم پی) نے کہاکہ نوکری ڈاٹ کام کو ڈیڑھ کروڑ درخواستیں موصول ہوئیں اس میں سوالا کھ مسلمان تھے اب چھ کروڑ درخواستیں موصول ہوئی ہیں جس میں 90لاکھ مسلمان ہیں اس کا مطلب بیداری آئی ہے مگر اب مسلمانوں کے خلاف کھل کر تعصب بھی کیاجانے لگا ہے اس کا مقابلہ حکمت عملی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں اندرونی، بیرونی اور سرکاری سطح پر سدھارلانے کی ضرورت ہے۔ عامر ادریسی نے مزید کہاکہ ہم جس ماحول میں کام کررہے ہیں اس کا بھی لحاظ رکھناچاہیے مثلاً اگر کوئی آدھا گھنٹہ نماز کے لیے چلا گیا تو کسی پر احسان نہیں کیا اسے کمپنی میں آدھا گھنٹہ زائد کام کرناچاہیے۔ برادران وطن سے تال میل بڑھاناچاہیے، سرکار سے اپیل کرناچاہیے کہ وہ تعصب مخالف قانون بنائے او رکارپوریٹ سیکٹر کو ہدایت دے کہ وہ ذات پات کی بنیاد پر ملازمت نہ دے بلکہ ذہانت اور صلاحیت دیکھے۔ اسی طرح مساوی حقوق کمیشن بنایاجائے۔ سید نجیب الرحمان (جنرل سکریٹری اے ایم پی) نے کہاکہ اگر ہمارے پاس قابلیت ہے تو آگے بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ شاہ فیصل کی مثال ہمارے سامنے ہے جو یوپی ایس سی کے امتحان میں ٹاپ آیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ مسلمان خود کا نیٹ ورک بنائیں اے ایم پی کچھ کنسلٹنٹ کو لے کر کام کررہی ہے۔ اسماعیل بھائی (TISS)نے کہاکہ کسی بھی ایشو کو مذہبی نہ بتائیں اپنی اندرونی کمزوریوں کو دور کریں۔ سلیم الوارے نے کہاکہ اگر مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی مسلمان کو فلیٹ نہ ملے تو پھروہ کہاں جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ انٹاپ ہل میں ہی دوستی بلڈر کے 1140فلیٹ ہیں اس میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے کیا یہ ناانصافی نہیں ہے اس طرح کی ناانصافیوں کو دور کرنے کے لیے ہمیں حکمت عملی بنانا ضروری ہے۔ 


سعودی عرب کی مسجد میں بم دھماکے کی علمائے کرام اور سماجی کارکنان کی شدید الفاط میں مذمت 

ممبئی، ۰۳؍مئی: (اسٹاف رپورٹر) سعودی عرب کے مشرقی شہر دمام میں ایک مسجد کے باہر حملہ آور بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا ، یاد رہے حملہ آور زنانہ لبا س میں آیا تھا ۔اس خود کش بم حملے میں چار افراد جاں بحق ہوگئے ہیں ۔خود کش حملہ آور نے جامع مسجد العنود میں نماز جمعہ کے دوران نمازیوں کو حملے میں نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن اس کو ایک شخص نے پکڑ لیا ۔اس دوران اس نے بم دھماکا کردیا اس کے نتیجے میں مسجد سے باہر باہر کھڑی متعدد گاڑیاں تباہ ہوگئی ۔گذشتہ جمعہ کو نمازی کی ادائی کے دوران اسی انداز میں سعودی عرب کے مشرقی صوبے قطیف القدیح میں اہل تشیع کی ایک مسجد میں خود کش بم حملہ کیا گیا تھا ۔اس بم حملے میں ۱۲؍ افراد جاں بحق اور اس سے زیادہ ذخمی ہوگئے تھے ۔عراق اور شام میں بر سر پیکار سخت گیر جنگجو گروپ داعش سے وابستہ ایک سعودی گروپ نے اس خود کش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ اسی سلسلہ میں گزشتہ روز ممبئی کے علمائے کرام نے اس حملے کی پر زور مزمت کی اور حکومت سے حجاج کے حفاظتی کی یقین دہانی کرانے کی مانگ کی ۔تنظیم المکاتب کے روح روا مولانا صفی حیدر نے دمام مسجد میں ہوئے خود کش حملے کی مزمت کی اور کہا کہ مسجد اللہ کا گھر ہے اس کا احترام کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے لیکن اسی مسجد میں کسی ایک فرقہ کو نشانہ بنا کر حملہ کرنا بہت شرمناک بات ہیں۔اسی سلسلہ میں خوجہ مسجد کے پیش امام مولانا روح ظفر نے اس حملہ کی پر زور مزمت کی اور حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ ہندوستان سے حجاج کرام حج کے لیے روانہ ہوگئے لیکن ہم حکومت سے مانگ کرتے ہیں کہ ہندوستان سے جانے والے حجاج کرام کی حکومت کی جانب سے ہر مکن مدد اور حفاظتی انتظامت کی مانگ کی ۔مولانا یسد ذیشان حیدر زیدی نے کہا کہ مسجدوں پر حملہ کرنا کس حد تک ٹھیک ہے مسجد اللہ کا گھر ہے اس میں کسی مسلک کے نام پر بے حرمتی کرنا کس حد تک درست ہیں اس مولانا نے کہا کہ اس معاملہ میں ممبئی اور ملک کے تمام مسلمانوں کو اس حملہ کی مزمت اور احتجاج کرنا چاہیے اور اسی کے ساتھ تمام مسلمانوں کو ایک صف میں آجانا چاہیے اور مل کر دہشت گرد کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔الحاج جاوید شراف نے اس حملہ کی مزمت کرتے ہوئے کہا کہ میں اس معاملہ میں تمام مسلم ایم ایل اے اور ایم پی سے بات کرو نگا جاوید شروف نے حکومت سے مانگ کی حج کے لیے جانے والے ہندوستانی مسلمانوں کو حفاظت مہیا کی جائے مزید کہا کہ یہ مسلہ صرف شیعہ مسلک کو نشانہ بنانے کا نہیں ہیں بلکہ یہ پوری امت مسلمہ کو نشانہ بنایا جارہا ہیں اگر اس معاملہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو کل دہشت گردخانہ کعبہ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں ۔الحاج جاوید شراف نے مزید کہا کہ اس معامہ میں اپوزیشن لیڈر احمد پٹیل ،غلام نبی آزاد ،اور محسنہ کدوائی سے بات کرکے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کی بات کہی ہیں۔اور بہت جلد مسلم اگینسٹ ٹریررزم نامی تنظیم کی تشکیل دینگے جس میں تمام مسلک کو شامل کرکے دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرینگے۔

بہار کی سیاست میں لالو پرساد اوریش کمارکے ذریعہ مسلم رہنماؤں کو حاشیہ پر کھڑا کرنے کی کوشش : معظم علی لڈو 

جالے، دربھنگہ: ۰۳؍مئی: (رفیع ساگر) بہار کی سیاست میں مسلم رہنماؤں کے قد کو دفن کرنے کا کام خود کو اقلیت نواز اور سیکولرزم کا دم بھرنے والے لالو پرساد یادو اورنتیش کمار کررہے ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے اسمبلی انتخابات کے مدنظر ان دنوں بہار میں جاری توڑ جوڑ کی سیاست میں مسلم رہنماؤں کو حاشیہ پر لاکھڑا کیا جا رہا ہے دور دور تک مسلم قائد نظر نہیں آرہے ہیں۔دہلی گانگریس کے سینئر لیڈر معظم علی لڈو نے بہار کے اپنے ایک ہفتہ کے دورہ کے دوران جالے میں اخباری نمائندوں سے ایک خاص ملاقات میں مذکورہ باتیں کہیں ۔انہوں نے کہا کہ آل انڈیا کانگریس کے جنرل سکریٹری بہار، بنگال،آسام ،جھاڑکھنڈاور اڑیسہ کے انچارج واحد مسلم لیڈر ڈاکٹر شکیل احمد کے بغیر بہار میں فرقہ پرستوں کو روکنا ناممکن ہے ۔مسٹر معظم علی نے زور دیکر کہا کہ لا لو۔ نتیش فرقہ پرستی کا خوف دکھا کر مفاد پرستی کی سیاست کر رہے ہیں۔جس کی واضح مثال یہ رہی کہ ایک سال میں پروین امان اللہ ،صابر علی،شاہد علی خاں،جیسے مسلم رہنماؤں کو پارٹی قیادت نے صرف ووٹ بنک کے طور پر استعمال کیا جس کے سبب انہیں چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔انہوں نے مزید کہا کہ بہار کی سیاست کو یوپی سے کنٹرول کر نے کی چالاکی کی جا رہی ہے ۔شرد یادو یوپی سے آکر بہار کی پوری سیاست کو یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے ہاتھ سوپنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے آر جے ڈی سپریموں لالو پرساد یادو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی نیت بھی بہار کے مسلمانوں کے حق میں صاف ستھری نہیں ہے۔کیونکہ شہاب الدین اوراشرف علی فاطمی،کی سیاست کو دفن کرنے کا کام انہوں نے ہی کیا ہے۔لے دے کر آرجے ڈی میں عبد الباری صدیقی جن کو ایک سالوں سے پارٹی کے حاشیہ پر ڈال دیا گیا۔مسٹر لڈو نے کہا کہ لالواور نتیش مسلم قائدوں کو نظر انداز کرکے اور مسلم ووٹروں کو بی جے پی اور آر ایس کا خوف دیکر سیکولزم کا ڈھونگ رچ کر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس بار یہاں کے مسلم ووٹر بہکاوے میں آنے والے نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے حقوق کے لئے خود اہم فیصلہ لیں گے ۔اس موقعہ پر حاجی مجیب الرحمن جالے،سعادت حسن منٹو،محمد کمال الدین،معین اختر نمرولی،انوار احمد ملپٹی،محبوب عالم گاڑھا ،پرویز ہارون نورچک موجود تھے۔

«
»

پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ کی خدمت میں

کیا ارسطو کا فلسفہ اسلام کے خلاف ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے