الیکٹرانک میڈیا سمیت پرنٹ میڈیا کے اردو اور انگلش اخبارات میں مودی حکومت کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے ہیں تو وہیں کچھ لوگ مودی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی سے انتہائی مایوس ہیں ۔ غیر ملکی میڈیا نے بھی مودی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کو مایوس کن قرارد یا ہے ۔ ہندوستان کے سیکولر طبقہ کا یہ ماننا ہے مودی کا یہ ایک سال فلاپ شو ثابت ہوا ۔ عوام سے کئے گئے ایک بھی وعد ے پورے نہیں کئے گئے ۔ جن توقعات کو لے کر عوام نے انہیں اقتدار سونپا تھا ان کی امید پوری نہیں کی گئی ۔ اردو اخبارات اس سلسلے میں سب سے آگے ہیں ۔ وہ ہفتوں سے مودی حکومت کی خامیوں کی تلاش میں مصروف ہیں ۔ اردو اخبارات والے مسلسل یہی لکھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نرنیدر مودی اب تک کے سب سے ناکام وزیر اعظم ثابت ہوئے ہیں ۔ ان کے آنے سے ملک کا صرف نقصان ہوا ہے ذرہ برابر بھی کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ اگر ہوا تو مجرموں کا ہوا ۔ جیل کی سلاخوں میں بند دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث اسیمانند ، کرنل پروہت جیسے لوگوں کوہوا ۔ کارپوریٹ گھرانوں کا ہوا ۔ بی جے پی کارکنان کا ہوا ۔ شد ت پسندہندؤوں کا ہوا ۔ آر ایس ایس۔ اس وابستہ تنظیمیں اور اس کے اراکین کا ہوا ۔
لیکن میرا خیال ہے کہ نریندر مودی اتنے بھی ناکام وزیر اعظم ثابت نہیں ہوئے ہیں ۔ اردو اخبارات والے ان کے ساتھ ناانصافی کرہے رہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ انہوں انتخابات کے وقت جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کیا ہے لیکن اس سے ہٹ کرانہوں کمچھ ایسی چیزیں بھی دی ہیں جس کی مثال گذشتہ وزراء اعظم کی تاریخ میں نایاب ہے ۔ جی ہاں ! نریندر مودی نے اس ایک سال میں کچھ ایسی چیزیں دی ہیں جو اب تک کسی اور وزیر اعظم نے نہیں دی ہے ۔ اس لئے حقیقت بیانی کا تقاضایہ ہے کہ حق کو حق لکھا جائے مودی جی نے جو چیزیں دی ہیں ان کا اعتراف کیا جائے ۔ ممکن ہے میری ان سطروں سے آپ کے ذہن میں یہ اشکال ہورہا ہوگا کہ جب ماہرین اقتصادیات ،سنئیر سیاست داں ، تجربہ کار صحافی، ملک دانشوران حضرات یہ کہ رہے ہیں کہ مودی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی مایوس کن رہی ہے تو پھر آپ اپنی کمر عمری میں یہ دعوی کیسے کررہے ہیں کہ مودی جی نے کچھ دیا ہے ان کی مذمت اتنی نہیں ہونی چاہئے جتنی کی جارہی ہے ۔ ہمارے بعض دوستوں کے ذہن میں یہ بات بھی گردش کررہی ہوگی کہ یہ مضمو ن پیسہ دے کر لکھوایا گیا ہے ۔ کیوں کہ مودی کے گن گانے کی وجہ بلاسبب ناممکن ہے ۔ ان دنوں مودی حکومت کا گن وہی لوگ گارہے ہیں جن کا تعلق آرآرایس ایس اور بی جے پی سے ہے پھر جن کے ساتھ لین دین کا کچھ معاملہ ہے ۔ بلا وجہ کوئی صحافی ان کی شان میں قصیدے لکھتا پھرے یہ مشکل ہے ۔ بہرحال معاملہ جو کچھ بھی ہو اور آپ جو سمجھیں ۔ آپ کی مرضی ۔آئیے ہم آتے ہیں اصل موضوع پر اور جانتے ہیں کہ مودی صاحب کے کارناموں کو ۔ ان کے دئے گئے تحفوں کو ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے اس ایک سال میں سب سے زیادہ احسان میڈیا برادری پر اور خاص کراردو والوں پر کیا ہے ۔ اردو میں ضرب الامثال اور کہاوتوں کی تخلیق کا سلسلہ کافی دنوں سے بند پڑا تھا ۔مودی جی نے آتے ہے اردو کہاتوں کی تخلیق شروع کردی ۔ کئی خوبصورت جملے انہوں بنائے ۔ اچھے دن ،برے دن ، نصیب والا ۔ گھر واپسی ، لو جہاد ، سب کا ساتھ سب کا وکاس ۔ پردھان سنتری ، سوچھ ابھیان بھارت یہ اور اس طرح کے کئی جملے ہیں جو اب اردو میں متواتر استعمال ہورہے ہیں ۔ اس سے متعلق مضامین میں اب ہر جگہ یہی جملے استعمال کئے جاتے ہیں ۔کسی کی خوشیوں کو بتلانے کے لئے’’ اچھے دن‘‘ کا استعمال ہوتا ہے ۔ کسی کی مصیبت پر ’’برے دن آگئے‘‘ کے جملے کہے جاتے ہیں ۔ پہلی جگہ کوئی لوٹ کر آٹا ہے تو اس کے لئے ’’گھر واپسی‘‘ کی اصطلاح تسلسل کے ساتھ بولی جاتی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ
مودی جی نے اپنے دور اقتدار میں سب سے زیادہ سیلفی پر توجہ مرکوز کی ہے ۔سیلفی کے کلچر کو پورے ہندوستان میں انہوں نے عام کیا ہے بلکہ ہندوستان سے باہر جہاں جہاں ان کا دورہ ہوا ہے وہاں وہاں انہوں نے سیلفی کے کلچر کو فروغ دیا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یوگا کی طرح سیلفی بھی ہندوستان کا قدیم کلچر ہے ۔ جلدہی ہمارے وزیر اعظم یوگا کی طرح سیفلی کے لئے بھی اقوام متحدہ سے ایک دن کی تخصیص کرنے کا مطالبہ کریں گے اور وہ دنیا کو سیلفی ڈے کا تحفہ دے کر جائیں گے ۔ سیلفی کیا چیز ہوتی ہے اس سے ہندوستان کی اکثریت آج بھی ناواقف ہے تاہم مودی جی نے روز اول سے ہندوستانی عوام کو اپنے عمل سے اسے اپنانے پر زور دیا ہے ۔ مجھے بھی سیلفی کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہ ہے کیا ؟۔ چناں چہ ایک مرتبہ جب وزیر اعظم صاحب کی سیلفی کے دوران لے گئی تصویر اخبارات میں چھپی تو مجھے تجسس ہواکہ مودی جی سامنے ہاتھ میں موبائل پکڑ کے کیا کررہے ہیں ۔ ذہن میں ایک خیال آیا کہ ممکن ہے انہیں کوئی چیز پسند آگئی ہو وہ اور اس کی تصویر لے رہے ہوں لیکن پھر میں نے سوچا کہ وہ وزیر اعظم ہوکر یہ سب کیوں کریں گے اور اگر ایسی کوئی بات ہوگی تو ان کے ساتھ فوٹوگرافر موجود ہی ہوگا ۔ دوسرے یہ کہ موبائل پکڑنے کا انداز بھی کچھ جدا ہے۔ تحقیق کرنے کے بعد پتہ چلاکہ اس عمل کانام سیلفی ہے ۔ ہمارے وزیر اعظم اس فیشن کے سب سے زیادہ دلداہ ہیں ۔ انہیں سیلفی سے بے حد پیار ہے ۔ ان کی خواہش ہیکہ ہندوستان کا ہر باشندہ سیلفی کو اپنائے ۔یہ الگ بات ہے کہ سیلفی کا یہ کلچر جان لیوا اور مہلک بھی ثابت ہورہا ہے ۔ سیلفی بنانے کے شو ق میں دس سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ بہر حال سیلفی کا کلچروزیر اعظم صاحب نے فروغ دیا اور اس سلسلے میں میں ذاتی طور پر ان کا مشکور ہوں کہ ان کی وجہ سے مجھے اس کا علم ہوا ۔
وزیر اعظم صاحب نے اس ایک سال میں حکومت کرنے کا طریقہ بھی سکھلایا ہے ۔ ہندوستان میں کیسی سیاست پسندیدہ ہے عملی طور پر انہوں نے سب کے سامنے پیش کردیا ہے ۔ اگر عوام کو قابو میں رکھنا ہے تو لمبے چوڑے وعدے کرو ، خوبصورت جملے بولو، میٹھی میٹھی باتیں کرلو ۔ ان کا دل جیتنے کی کوشش کرو ۔ مودی صاحب نے اپنے طرز عمل سے یہ بتادیا ہے کہ ہندوستانی سیاست میں آج وہی کامیاب ہے جو خواب دکھلانے میں ماہر ہے ۔ عوام کو بہلانے کا جن کے پاس ہنر ہے جس میں مودی جی مہارت تامہ رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مودی جی نے اپنے انتخابی ایجنڈا پر عمل نہیں کیا۔ عوام کو اچھے دن نصیب نہیں ہوسکے ۔ ان کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ روپے کا آنا ایک ادھورا خواب بن کر رہ گیا۔ مہنگائی آسمان پر پہچ گئی۔ گذشتہ حکومت کے زمانے میں جن چیزوں کی قیمت پچاس روپے تھی اس کی قیمت آج سو روپے ہوچکی ہے ۔ اس کے باوجود یہی تاثر ہے کہ مودی جی اچھے وزیر اعظم ہیں ۔ہندوستانیوں کے اچھے دن آچکے ہیں برے دن جاچکے ہیں ۔
نریندر مودی کے ایک سال اور مسلمان
حقیقت خرافات میں کھوگئی۔۔۔ یہ اُمّت روایات میں کھوگئی ۔۔۔!
فاروق انصاری
نریندر مودی کی سربراہی میں مرکز کی بی جے پی سرکار نے ایک سال مکمل کرلیے ہیں اس ایک سال میں کیا ترقی ہوئی۔۔۔ کتنے وعدے پورے ہوگئے۔۔۔ملک کی قومی یکجہتی فرقہ وارانہ ہم آہنگی۔۔۔ بھائی چارہ اور سیکولرازم کی ایسی تیسی کیوں ہوئی۔۔۔؟ اس پر بحث نہ کرتے ہوئے ہم مودی سرکار کے ایک سال اور ملک کے 20کروڑ مسلمانوں کا تجزیہ کرناچاہتے ہیں کیو ں کہ گجرات کے بدترین مسلم کش فسادات کے بعد ملک کے 20کروڑ مسلمان اور 80کروڑ سیکولر ہندوؤں کی زبردست مخالفت کے باوجود نریندر مودی ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ سے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔۔۔ اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔۔۔ اس لیے کہ مخالفت بے اثر رہی۔۔۔ مسلمان صرف چیختا اور چلاتا رہا۔۔۔ مگر جب مخالفت کا اصل موقع آیا تو خواب غفلت میں پڑ ارہا۔۔۔ اس لیے مٹھی بھر ایسے مسلمان جو مودی کے حامی تھے وہ 20کروڑ مسلمانوں پر حاوی ہوگئے اور مسلم ووٹوں کی ایسی تیسی کرکے مودی کو وزیر اعظم بنادیا اور ملک کے 20کروڑ مسلمان اپنی بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوگئے۔۔۔ اس پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ
حقیقت خرافات میں کھوگئی * یہ امت روایات میں کھوگئی
سچ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی شعور کو زنگ لگ چکا ہے مسلم قیادت تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہے جو اِکّا دُکّا علاقائی مسلم لیڈر ہیں انہیں اپنی روٹیوں پر دال کھینچنے سے فرصت نہیں ہے ۔۔۔ وہ ملت کے درد کو سمجھتے ہیں اس درد کا تذکرہ بھی خوب کرتے ہیں مگر اس کا علاج نہیں کرتے۔۔۔ مگر بہ حیثیت مجموعی مسلمانوں کے درد کو سمجھ کر صحیح معنوں میں اس کا علاج کرنے کی فکر کسی نے نہیں کی۔۔۔ الیکشن آتا ہے تو مسلم ووٹوں کے خریدار نکل پڑتے ہیں ان میں کرتا پاجامہ اور ٹوپی والے بھی ہوتے ہیں۔۔۔ دانشور بھی ہوتے ہیں اور کچھ ایسے غیر سیاسی مسلمان بھی ہوتے ہیں جو الیکشن کے زمانے میں پکے سیاسی اور سیاست کے بازار کے تاجر بن جاتے ہیں۔۔۔ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے پوری قوم کو ذلت ورسوائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اس میں ان کا قصور نہیں قصور عام مسلمانوں کا ہے کہ وہ ایسے نام نہاد لوگوں کے جال میں پھنستے کیوں ہیں؟ آخر اس ملک کے مسلمان حقیقت کو حقیقت کے آئینے سے کب دیکھیں گے۔۔۔ کب وہ خرافات کے دلدل سے باہر نکلیں گے ۔۔۔ اور کب اپنے سیاسی شعور کا استعمال کریں گے۔۔۔؟ وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ایک سالہ عہد کو شاندار کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے خود کا سینہ ٹھونک رہے ہیں اور اپنی ہی پیٹھ خود تھپتھپا رہے ہیں۔۔۔ جبکہ سچائی ملک کے سامنے ہے کہ انہوں نے ملک کے لیے کیا کیا ہے۔۔۔؟ اقلیتوں کے تعلق سے تو سب جانتے ہیں کہ جس قدر ممکن ہوسکا اتنا دبایاگیا۔۔۔ حقوق سے محروم کیاگیا۔۔۔ وزارت اقلیتی بہبود کے ذریعہ سنہرے خواب دکھائے گئے ۔۔۔ مگر ایک فیصد بھی کام نہیں کیاگیا۔۔۔ اس کے باوجود مسلمان حالات سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔۔۔ قطار لگائے جی حضوری میں مصروف ہیں ۔۔۔ اگر یہ حالت اور رویہ ہے تو یقینی طور پر ملک کے مسلمانوں سے ووٹ دینے کا اختیار بھی چھین لیاجائے گا اور کچھ مسلمان اس کی بھی ستائش کرتے رہ جائیں گے۔
آج اگر نریندر مودی سینہ تان کر چل رہے ہیں تو وہ مسلمانوں کی دَین ہے۔۔۔ مسلمان زبانی طور سے مخالفت تو کرتا رہا مگر وہ کام نہ کرسکا جس سے انہیں اقتدار تک جانے سے روکا جاسکے۔۔۔ کسی بھی جمہوری نظام میں ووٹ سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے مگر اس ملک کا مسلمان اپنی اس طاقت کو فراموش کربیٹھا ہے۔۔۔ وہ ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکلتا ہی نہیں۔۔۔ اور جب ووٹ نہیں دے گا تو اس کا ردِّ عمل کیا ہوگا۔۔۔؟ یہ آزادی کے بعد سے آج تک ہر الیکشن میں دیکھا اور محسوس کیاجارہا ہے۔۔۔ اگر نریندر مودی نے اپنے اقتدار کے ایک سال مکمل کیے تو مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔۔۔ اور اس کے بعد اپنا سیاسی لائحہ عمل بناناچاہیے ۔۔۔ اگر اب بھی مسلمان ہوش کے ناخن نہ لیے اور اپنے آپ کو متحد نہ کیا تو پھر ان کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا اور نہ ہی کوئی زخموں کی مرہم کاری کرے گا بلکہ سب زخموں پر نمک پاشی کرکے تڑپاتے ہی رہیں گے۔
جواب دیں