اس دور میں انسانوں کو جادوگر کہہ کر زندہ جلایا جاتا تھا،سائنس ، ریاضی اور فلسفہ پڑھنا حرام سمجھا جاتا تھا۔فرانس اور برطانیہ کی سڑکوں ،گلی کوچوں کا یہ حال تھاکہ ان پر چلنا قدرے محال تھا یا یوں سمجھئے کہ کسی عذاب سے گزرنے کے مصداق تھا،سڑکوں پرکیچڑاورکوڑا کرکٹ کے انبار لگے تھے، طاؤن اور ہیضہ جیسے مہلک امراض پھن اُٹھائے لوگوں کو ڈسنے لگے تھے،بڑی تعداد میں لوگ لقمۂ اجل ہونے لگے تھے ،اس وقت پوری دنیا کے لوگ اعلیٰ تعلیم کے لئے ان ہی مسلم یونیورسٹیوں میں جایا کرتے تھے ۔سائنس ،ریاضی اور فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم ان ہی مراکز سے دی جاتی تھی۔یوروپین ممالک یہاں تعلیم حاصل کرنا باعث فخر سمجھتے تھے۔آج اُسی تعلیم کوہم یوروپین ممالک میں جاکر حاصل کرنا اپنا معیار سمجھنے لگے ہیں،یہی وجہ ہے کہ لندن ، جرمنی اورامریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے خود کو دوسروں سے افضل و برتر سمجھنے لگتے ہیں۔جس تعلیم کو ہم یوروپین ممالک کی میراث سمجھنے لگے ہیں،در اصل وہ تعلیم یوروپین ممالک کی میراث نہیں ہے ہسپانیہ اور غرناطہ کی مرہون منّت ہے۔ ہے۔ایک مرتبہ کسی یوروپین مورخ سے پوچھا گیا کہ اگر ہسپانیہ اور غرناطہ کو تباہ و برباد نہ کیا جاتا تو دنیا کی کیا کیفیت ہوتی ، دنیا کس مرحلہ پر ہوتی، اس مورخ نے برجستہ جواب دیا کہ دنیا ۲۰۰سال قبل ہی چاند پر پہنچنے میں کامیاب ہوتی۔
ہم یونیورسیٹیوں کی سائنس،ریاضی اور فلسفہ کی تعلیم میں یہ بھول گئے کہ طارق بن زیادہ بربر نے اپنی کشتی جلاکر جبل الطارق Gibralterپر اللہ کی وحدانیت کاجواعلان کیا تھاتو اس کے پس پشت کونسی طاقت کار فرما تھی ۔اس جیالے مرد مومن نے سائنس ،ریاضی اور فلسفہ کی تعلیم نہیں حاصل کی تھی، وہ اللہ کا دین لے کرآئے تھے۔فزکس ،کیمسٹری یا بائیولوجی کی تعلیم ان کے پاس نہیں تھی۔کیا کوئی سائنس یا جدید تعلیم یافتہ لوگ اس بات سے متفق ہوں گے کہ ایک لاکھ کی فوج کے مد مقابل ۱۲ ہزارفوج پر مشتمل وہ بربرکا لشکر ، جس نے اپنی کشتی جلائی تھی،کیا ان کایہ فیصلہ درست تھا؟مگر آج جدید تعلیم کے رہنما سمجھے جانے والے سرسید احمد خاں نے جس علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی وہاں سے فارغ زیادہ تر علیگ حضرات اسے خودکشی کا نام دینے سے نہیں چوکیں گے،کیوں کہ علیگڑھ کی تعلیم فوج کے اعدادوشمار تو بتا سکتی ہے مگر افسوس کہ ان کی تعلیم ۱۲ہزارفوجیوں پر اللہ کی جو نصرت سایہ فگن ہے وہ بتانے سے اور سمجھنے سے قاصر ہے۔اسی ۱۲ہزارکے لشکر کایہ کارنامہ تھا کہ مسلمانوں نے ۸۰۰سال تک اسپین پر حکومت کی جسے پوری دنیانے تسلیم کیا۔
مگر جب یہی قوم سائنس،ریاضی اور فلسفہ کی تعلیم میں الجھی تو بہت جلد دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ ۸۰۰سالہ بنی امیّہ کے دور اقتدار کا اس طرح ذلت آمیز خاتمہ ہواکہ وہاں ۴۰۰ سال تک اذان پر پابندی عائدرہی اور سارے مسلمانوں کو یا تو قتل کردیاگیا تھا یانذرآتش کیا گیا،بہت سوں کوعیسائی بنادیا گیایا پھر انھیں بحری بیڑہ پرڈمپ کرکے افریقہ کے ساحلوں پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔مسلمان کے خوف کا یہ عالم تھا کہ اسپین میں ایک بھی مسلمان خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا تھا۔یہ وہی اسپین تھا جس میں طار ق بن زیاد بربرنے اللہ اکبر کی صدا بلند کی تھی۔جب قوم سائنس،ریاضی اور فلسفہ کی تعلیم میں الجھی تو اس نے اپنا ذلت آمیز انجام کو بھی دیکھا،کیا ہم اسی تعلیم کی تقلید میں آج بھی الجھ کررہنا پسند کریں گے۔جب سائنس ، ریاضی اور فلسفہ عام نہیں تھا اس وقت ہم نے دین کے اصولوں پر چل کر اسپین جیسے طاقتور ملک کو فتح کرلیا تھا، جو یوروپ کا دل سمجھا جاتا تھا۔
کیا تمھیں یاد نہیں کہ (Crusaders) صلیبی مسلمانوں پربھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے تھے، ایسا لگتا تھا کہ دنیا سے مسلمان اور اسلام کا صفایا ہوجائے گا۔ان حالات میں ایسی آندھیوں کارخ کس نے موڑا؟کیا وہ سرسید احمد خاں جیسی سوچ رکھنے والے لوگ تھے، یا مغربی تعلیم جیسی تعلیم کی چاہ رکھنے والے لوگ تھے،کیا آج بھی آپ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہمیں ایسے( Crusaders) صلیبوں سے نجات دلانے کے لیے یہ مغربی تعلیم ہماری ڈھال ثابت ہوگی۔
مغربی تعلیم کی امامت کرنے والوں کوعموماً اور بالخصوص ہمارے ان علیگ حضرات کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب ظالم منگولوں کا قہر مسلمانوں پر مسلط ہواتودنیا یہ سمجھ بیٹھی کہ اب اسلام کاچراغ گل ہوجائے گا، اس وقت بھی ہمارے پاس ایک بہترین تہذیب وتمدن تھا،سماجی وثقافتی قدریں تھیں بہترین دنیوی تعلیم تھی،لیکن سب بے سود ثابت ہوا، رکن الدین بیبرس وہ اللہ کا سپاہی تھاجس نے مصر میں عین الجالوت کے مقام پراس طوفان کو روک دیا، جو سائنس کے فارمولوں سے نا آشنا تھا ، مگراللہ کی نصرت پراسے کامل یقین تھا۔انھیں ابابیلوں کے لشکرکا علم تھا، انھیں نوح علیہ السلام کی کشتی کاعلم تھا، انھیں موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا علم تھا،انھیں شق القمر کا علم تھا، انھیں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا علم تھا،انھیں بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے عذاب کا علم تھا، انھیں یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنا یاد تھا۔انھیں عاد،ثموداور مدین کی تباہی کی وجہ معلوم تھی،انھیں نمرود کی بھڑکائی ہوئی آگ سے ابراہیم علیہ السلام کے بچ جانے پر ایمان تھا ، اُن کا عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر اُٹھائے جانے پر ایمان تھا۔انھیں داؤد علیہ السلام کا جالوت کو قتل کرنا یاد تھا، وہ لوط علیہ السلام کے عذاب سے واقف تھے، وہ اصحاب الاخدود کے کارناموں سے بہ خوبی واقف تھے اور ان تمام واقعات پر کامل ایمان تھا ۔ وہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے کب اور کیسے کے سوالوں سے بالاتر ہوکر معجزات اور واقعات پر پورا پورا ایمان رکھتے تھے۔قوم رکن الدین بیبرس کے اس تاریخ ساز کارنامہ کی عظمت کا اعتراف کرتی ہے۔پھر وہ لوگ جواسلامی تعلیم کو قدیم کہتے ہیں،انھیں ان واقعات سے سبق لینا چاہیے، کہ اسلامی تعلیم اور اللہ کی ذات پرصدق دل سے یقین رکھنے والوں کی ہرمحاذپر فتح ہوئی۔اسلامی تعلیم ہر دور میں جدیدترین تھی اورآئیندہ ہردورمیں جدیدترین ہی رہے گی۔
کیا لوگ اپنے فن اورتعلیم سے دنیامیں عیش و عشرت کو اسی طرح حاصل کرنا چاہتے ہیں، جس طرح ایک ان پڑھ نمک فروش بنیا نمک فروخت کرکے خوشحال ہونا چاہتا ہے؟کیا پھران مغربی تعلیم یافتہ لوگوں کے خوشحال ہونے کا معیار بھی اس نمک فروش بنیے کے معیار کے مساوی ہے؟کیا ان کی تعلیم کا مقصد صرف عیش وعشرت کا سامان حاصل کرنے تک محدود ہے۔کیا اب جدید تعلیم کا مقصد یہی رہ گیا ہے کہ ہمارے گھروں میں انگریزی بولنے والی بہوئیں آجائیں، جنھیں سلام کرنے میں اپنی توہین محسوس ہوتی ہو اور ’Hi،WowاورHugکرنے میں فخر محسوس ہوتاہو،جن سے مولد بچے یوروپ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرکے اپنے والدین سے یہ سوال کرے کہ اسلام کیا ہے؟دین حق پر قائم ہونے کے بجائے مائیکل جیکسن جیسے نچنیوں کے گانوں پر رقص کرتے ہوئے نظر آئیں۔انھیں ہمارے دین کے رہنما معلوم نہیں ، وہ ہمارے پیغمبروں اور انبیاء کرام سے ناآشنا ہیں۔جنھیں سنت اور فرض کا فرق معلوم نہیں، جو حلال و حرام میں تمیز نہیں کرسکتے، جنھیں اذان کی عظمت اور روزے کی برکت معلوم نہیں، انھیں والدین کا درجہ کیا ہوتا ہے اس کا علم نہیں۔اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ کا دوسرا سیاہ پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے والدین تعلیم نسواں اور پردہ کی اہمیت پر دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں، بحث و مباحثہ کرتے ہیں،دینی ادارے قائم کرکے اپنی برتری اورپاکیزگی کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں،مگر افسوس صد افسوس کے وہ اپنے ہی بچوں کوسمجھانے میں ناکام نظر آتے ہیں اور انھیں اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ان جدید تعلیم یافتہ بچوں کی نسلیں تو راہ حق سے بھٹک گئی ہیں،وہ بے پردگی ، بے ہودگی کوماڈرنائزیشن کا نام دے کر اپنی دنیا اور آخرت کو برباد کررہیہیں ۔یہ لوگ مغربی تہذیب کو اس درجہ تک قبول کرچکے ہیں کہ ان کا حق و باطل میں فرق پیدا کرنے کا شعور بھی دم توڑ چکا ہے، ہمیں معاشرہ میں ایک نئی تحریک کی ضرورت ہے ، ہمیں معاشرہ کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے اللہ کی نافرمانی کی، اللہ کے دین سے دوری اختیار کی پھر اللہ نے انھیں ذلیل وخوار کیا۔جس قوم نے اپنے اسلاف کی بتائی ہوئی راہ کو چھوڑا اس قوم کو تاریخ نے تاریکیوں میں غرق کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان جدید تعلیم یافتہ لوگوں سے قوم اور ملت کو کیا ملا، انھوں نے قوم کو کیا دیا۔جو مغربی تہذیب اپنی طاقت کے زور سے صدیوں سے نہیں کرسکی تھی، ان کے ہی نقش قدم پر چل کرہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے ہماری تہذیب، ہمارے اسلامی معاشرے کو رسوا کرنے کا کام کیا ہے۔پھراس تعلیم سے کیا حاصل ہوا۔یہ نام نہاد لوگ ’گھر واپسی‘ تحریک سے بدظن تو ہیں مگر وہ جب اپنا جائزہ لیں، اپنے گریباں میں جھانکیں تو انھیں یہ اندازہ ہوجائے گا کہ وہ تو اپنے ہی گھر میں نہیں ہیں۔نئی تعلیم نے معاشرہ کو ماڈرنائزیشن یا جدیدیت کے نام پر اگر کچھ دینے کا کام کیاہے تو وہ ہے عریانیت،فحاشیت،بے پردگی، بے غیرتی،دہشت گردی اور ظلم وستم کے سوا کچھ نہیں دیا ۔
اگر ہم جدید تعلیم کے پیروکاروں سے یہ سوال پوچھیں کہ محمد بن قاسم ثقفی ۱۷سالہ اُس جانباز مرد مومن ،مرد حق، مرد آہن نے کونسی تعلیم ایسی حاصل کی تھی،جس کے زور پر انھوں نے ایک لاکھ کی فوج کے سامنے ۱۲ہزار سپاہیوں کا لشکر لیکر سندھ پراللہ اکبرکا جونعرہ بلند کیا تھا۔وہی صدا ہندوستان میں ایک ہزار سال تک گونجتی رہی اور آج بھی گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔دور جدید کے ماہرین تعلیم مذکورہ بالا اعداد وشمارکوناجائز اور لااعتبار قرار دینے میں پس و پیش نہیں کریں گے۔
سائنس ، ریاضی اور فلسفہ کی تعلیم میںآپ کہاں الجھ رہے ہو۔اسلام کا دامن مضبوطی سے تھام لو، دین کا گہرائی سے مطالعہ کرو، قران کوسمجھو، دل میں اتار لوجس میں زندگی سے وابستہ تمام تعلیم موجودہے، آخرت کی جس میں رہنمائی کی گئی ہے، قیامت کی جس میں پیشن گوئی کی گئی ہے،جنت کی حقیقت سے
آگاہ کیا گیا ہے، جہنم کے عذاب سے باخبر کیا گیا ہے،جس میں یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ اللہ کی ذات جہاں رحیم و کریم ہے ، وہی ذات جبار بھی ہے۔ اللہ کے دین کو سمجھو اور اس پر مضبوطی سے قائم ہوجاؤ،یقیناًتمھارے ذہن ود ل کے دریچے کھل جائیں گے، پھر اس میں ایمان کی تازہ ہوا داخل ہوگی،آنکھوں کے سامنے جنت کی نعمتیں ہونگی ، جھنم کا خوف طاری ہوجائیگا، منکیر نکیر اور عذاب قبر کا علم ہوگا۔قران کی تعلیم کو کھنگال کر دیکھو، اس سے آپ کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی۔اللہ کی نظر میں دنیا مچھر کے پرَ کے برابربھی نہیں ہے لیکن کیا اسی مچھر کے پرکو حاصل کرنے کے لیے تم انگلینڈ اور امریکہ جانا چاہتے ہو،گھرمیں طاق پر رکھا ہوا قران پاک تم کو نظر نہیں آتا ،جس سے تم اللہ کی قربت حاصل کرسکتے ہو،محمد ﷺکے محبوب بن سکتے ہو، جنت کی تمام آسائش کو حاصل کرسکتے ہو۔یقین جانیے اگر تمھیں دنیا کی طلب ہوگی تو آخرت نہیں مل سکتی ، مگر ہاں اگر تمھیں آخرت کی طلب ہوگی تودنیا بھی ساتھ ساتھ ہوگی، یہ وہی مثال ہے اگر تم پانی مانگو تو پانی دینے والا گلاس بھی ساتھ میں دے گامگر صرف گلاس مانگنے سے ساتھ میں پانی نہیں آتا۔
کیا آپ نے کسریٰ(Persia)کے پرخچے اڑتے ہوئے نہیں دیکھے۔پرشیا اپنے وقت کا سپر پاور تھا، اپنی طاقت پر جسے غرور تھا، اپنی تہذیب و تمدن پر جو اتراتا تھا، اپنے آخری ایام میں اس نے اپنی تباہی و بربادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔جسے آپ قدیم تعلیم یافتہ کہتے ہو،انھیں کو پرشیا ’دیوا آمدن ، دیوا آمدن‘ کہہ کر پکار رہاتھااور پورا مدائن شہرجوان کا دارالحکومت تھا، ان کے حوالے کر رہا تھا۔
جدید تعلیم کا جنون جن پر سوار ہے وہ اب بھی علیگڑھ اور جامعہ ملیہ کے چہار دیواری میں الجھے ہوئے ہیں،انھیں کے میناروں میں پھنسے نظر آرہے ہیں۔کیا جدید تعلیم یافتہ لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ موجیں مارتا ہو ا وہ خوں خوار دریاجس میں اللہ کے جیالوں نے اپنے گھوڑوں کو اُتاردیا۔پرشین حیران تھے، کہ یہ کیسے ممکن ہے، لیکن حقیقت ان کے سامنے تھی۔یہی وجہ ہے کہ انھیں اس حال میں دیکھنے پر وہ ’دیو آمدن، دیو آمدن‘ بے ساختہ کہنے پر مجبور تھے۔وہ کونسی تعلیم تھی کہعمادالدین کے لعل نورالدین زنگی کو خواب میں بتا یا جارہا تھاکہ مدینہ میں کچھ ملعون نبی کریم ﷺ کے جسد مبارک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، جس کو تم قدیم تعلیم کہتے ہو، اسی تعلیم کے گرویدہ بڑی تیزی سے مدینہ منورہ کی سمت روانہ ہوئے، جہاں انھوں نے ان ملعونوں کا قتل کیا، آج بھی امت مسلمہ نبی کریم ﷺ کے اس غلام کا صدق دل سے اعتراف کرتی ہے۔
بزرگان دین کو بھی رشک ہے، اس فاتحپرجسے آج دنیا سلطان محمد فاتحکے نام سے یاد کرتی ہے جس نے بھاری بھرکم جہاز ،جس کا سطح آب پر چلنا مشکل تھا ،اسے خشکی پر ۷میل گھسیٹ کرقسطنطنیہ کو فتح کیااورنبی کریم ﷺ کی اس حدیثکو پورا کیا جس میں اس بات کی پیشن گوئی تھی کہ قسطنطنیہ کا فاتح جنتی ہوگا، اس فتح سے ہمکنار ہونے کے لیے مسلمانوں کو۷۰۰سال کا عرصہ درکار رہا۔آج بھی رومن انگشت بدنداں ہیں کہ یہ کیسے اور کیوں کر ممکن ہوسکا۔یہ کونسی ٹیکنولوجی تھی،کونسی حکمت عملی ، کونسا مدبرانہ اقدام تھایا یہ کونسی تعلیم تھی،یا یہ کوئی ایسا فلسفہ تھا جسے سرسید احمد خاں بھی سمجھنے سے قاصر تھے ۔
ہم کیسے بھول سکتے ہیں اس کردکے شیرکوجو سائنس ،ریاضی اور فلسفہ کی تعلیم سے نابلد ہونے کے باوجودانھوں نے کروشیڈر کو ذلت آمیز شکست دی تھی جس کی وجہ سے آج بھی رومن صلاح الدین ایوبی سے خائف نظر آتے ہیں۔کیا تمقطیبہ بن مسلم کو نہیں جانتے جنھوں نے وہ کام انجا م دیا جسے سکندر اعظم جیسا بادشاہ بھی افغان کو فتح کرنے میں ناکام رہا اسے قطیبہ بن مسلم نے فتح کرلیااور افغان کے لوگوں کو دین اسلام کا درس بھی دیا۔
کیاآپ الپ ارسلان اور یوسف بن تاشقین کے کارناموں سے بھی بے خبر ہو،جنھوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جس کے تذکرے تاریخ کے اوراق پر سنہرے حرفوں میں لکھے گئے ہیں۔
یاد کرو تم محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کو جس کی تاریخ گواہ ہے کہ جنھوں نے اسلام کی بلندیکیلئے وہ کارنامہ انجام دیا جس کی ہیبت اور جاہ و جلال سے کفر کانپ جایاکرتا تھا، کیا یہ سب لوگ ایسی ذہنیت کے ہوسکتے تھے، جسے ہم آج روشن خیالی کا نام دیتے ہیں اورجدید تعلیم یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، نہیں ہر گز نہیں، بلکہ ان کے دلوں میں ایمان کی روشنی فروزاں تھی،حق و انصاف کادریا ان کے دلوں میں موج زن تھا، انھوں نے باطل کا قلع قمع کیااور حق کا علَم بلند کیا۔امریکہ، فرانس اور یوروپین یونیورسیٹیوں کے چراغ تو وقت کی آندھی سے بجھ سکتے ہیں، مگر ایمان و حق کی تجلی سے منور رہنے والے دل و دماغ سے جو روشن افکار باہر آتے ہیں وہ یقیناًرہتی دنیا تک قائم رہیں گے اور فتح و کامرانی کا سلسلہ یوں رواں دواں رہے گا۔
کچھ لوگوں پر علیگ ہونے کا خبط کچھ اس طرح سے سوار ہوا ہے، گویا علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں دنیا کی سمت تعین کرنے کی سند عطا کی ہو، وہ بھول رہے ہیں کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں ان ادبا و شعراء کی کتابیں نصاب کی زینت ہیں جنھوں نے علیگڑھ میں تعلیم حاصل نہیں کی ہے یا یوں کہیے کہ غیر علیگ ہی علیگڑھ کو درس دینے میں پیش پیش ہیں۔
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں لباس اور ظاہری نمائش تک ہی دین کو محدود کیا جارہا ہے، جب تک دین کی کسک اور تڑپ دلوں میں پید ا نہ کی جائے تو اس ادارہ یا اس انجمن کے لوگ دین کی سرفرازی میں ناکام ثابت ہوتے رہیں گے۔جس کی واضح مثال تاریخ کے اوراق پر موجود ہے، کیا ہوا ہسپانیہ اور غرناطہ کا ، وہ سائنس ،ریاضی اور فلسفہ کی الجھنوں میں اس قدر الجھتے گئے، کہ پھر کبھی ان الجھنوں سے باہر نہیں آسکے ، جو ان کی تباہی اور زوال کا باعث بن گئی، جو ہمارے لیے جائے عبرت ہے۔
اکبر جیسے بادشاہ کے دین الہٰی کے فتنہ کوحضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ نے نیست و نابود کیا جو آج کی جدید تعلیم جیسی تعلیم اور روشن خیالی سیقطعی بھی ممکن نہ تھا،آج کی جدید تعلیم کا گہوارہ سمجھی جانے والی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں گرویدہ اور پیروکار ’شدھی اور گھر واپسی‘ جیسی تحریک کی روک تھام نہیں کرسکتے ،پھر اکبر جیسے طاقتور بادشاہ کے دین الٰہی کے فتنہ کے خلاف آواز اٹھانا تو دور کی بات ہے۔
حضرت مجددالف ثانی رحمتہ اللہ کے پاس اسلامی تعلیم اور اسلامی قدریں تھیں، جس کی وجہ سے اس فتنہ کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے وہ اکبر کے سامنے آہنی دیوارکے مانند ڈٹ کرکھڑے ہوئے اور اُس کا مقابلہ کیااور ’دین الٰہی‘کے فتنہ کا صفایا کردیا۔شاہ ولی اللہ دہلوی ان کے نواسے شاہ اسماعیل شہیداورسید احمد شہیدپرمسلمانان ہندکو آج بھی فخر ہے جنھوں نے اسلام کے زیور تعلیم سے آراستہ ہوکر دنیامیں اپنا ایک مقام پید ا کیا اپنی ایک شناخت قائم کی۔
روشن خیالی اور آزاد خیالی کے نام پر دین و ملت کو تباہ و برباد کرنے کے لیے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے۔جنھوں نے ہر دور میں اسلام میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، مگر وقت اور حالات کی زد میں آکر انھیں شرمنا ک شکست ہوئی۔الخارجیہ فتنہ کی بنیادذل خویسرا نے ڈال کر اسلامی تعلیمات اور اسلامی رہنماؤں کی مخالفت کی اور عوام کو گمراہ کرنے کی پُر زور کوشش کی،مگر اللہ نے انھیں ہلاک و برباد کیا۔ واصل ابن عطا: اس نے معتزلہ فرقہ کی بنیاد ڈالی، جس نے روشن خیالی اور آزادخیالی کی کوکھ سے جنم لیا، مگر بالآخر اس باطل کو بھی شکست ہوئی۔
جاد ابن درہم : اس نے قران کریم کو مخلوق سے تعبیر کیا، اور اس ملعون کوعیدالضحیٰ کے دن قتل کیا گیااور قوم کو گمراہی سے نجات دی گئی۔
جہم ابن صفوان:یہ وہ شخص تھا جس نے جہمیہ فرقہ کی بنیاد ڈالی، جو ختم ہوا، مگر اس سوچ و فکر کے لوگ آج بھی جدید تعلیم کی صف میں گاہے گاہے نظر آتے ہیں۔
غیلان الدمشقی :نے اللہ کے دین میں خلل پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی اورمعبد الجھنی کے ا لقدریہنظریات سے متاثرہوکرالمرجیہ فرقہ کی بنیاد ڈالی مگر اسے بھی منہ کی کھانی پڑی اور وہ بھی حالات کی زد میں آکر پاش پاش ہوا۔ یہ سب روشن خیالی کا علَم تھامے ہوئے تھے، جسے اللہ نے ہلاک و برباد کردیا۔یہ تمام دشمنان اسلام مسلمان ہوتے ہوئے بھی اللہ کے دین میں فتنہ پیدا کرنے، تعلیم کی آزادی کی گمرہی کی پاداش میں تباہ و برباد کردیئے گئے، مگر زیدبن نفیل اور ورقہ بن نوفل اپنے حق کی جستجو اور اخلاص نیت اور راہ حق کی تلاش میں سرگرم عمل تھے ان ہی وجوہات کی بنا پر دور جاہلیت میں ہوتے ہوئے بھی انھیں اللہ کے رسول محمد ﷺنے جنتی ہونے کی بشارت دی تھی۔
آج بھی وقت ہے کہ ہمیں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، اسلام کے راہ پر گامزن ہونے کی ضرورت ہے،اسلامی واقعات اور فتوحات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نبی ﷺ کی ہدایتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں صحابہ کرام کی نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے، ریاضی، سائنس اورفلسفہ سے زیادہ ۳۱۳کی گنتی اور تحت الشجرہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ہمیں یہودیوں کے علم کے بارے میں نہیں بلکہ اوس اور الخزرج کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے، ہمیں رومن کی طاقت کے بارے میں نہیں بلکہ الیرموک اور القادسیہ کے فتح کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔اسلام کوصرفمذہب نہیں بلکہ اسلام کو دین سمجھنے کی ضرورت ہے یا یو ں کہیے ہمیں صرف مسلمان نہیں بلکہ مومن بننے کی ضرورت ہے۔(
جواب دیں