وہ کروڑ پتی بن کر عیش کرنا نہیں چاہتے۔ انھیں اپنے بڑھاپے کی کوئی فکر نہیں ہے، کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی کو اللہ کے سپرد کردیا ہے اور تکلیف وآرام کو وہ اللہ کی مرضی کے تابع مانتے ہیں۔ انھوں نے کروڑوں کے یہ پلاٹس اللہ کی راہ میں خیرات کردیا ہے اور آج بھی مدرسے کے تعمیری کام میں مزدوری کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک پلاٹ مسجد تو دوسرا مدرسے کے لئے دے دیا ہے۔ اسی کے ساتھ تیسرا قطعہ ارضی انھوں نے شہر انتظامیہ کو اسپتال کے لئے سپرد کردیا ہے اور کارپوریشن کی مدد سے یہاں ہیلتھ سنٹر بن گیا ہے۔ انھوں نے دو پلاٹس اپنی بیٹیوں کو دیئے ہیں مگر ایک جو، ان کے پاس باقی ہے اسے وہ ڈائیگنوسٹک سنٹر کے لیب کے لئے دیناچاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی شہر انتظامیہ سے بات چل رہی ہے۔ جس پلاٹ پر اب اسپتال ہے اسے انھوں نے اپنی ماں کی یاد میں اسپتال قائم کرنے کے لئے دیا تھا جس پر شہر کے میئر نے ایک چھوٹا سا اسپتال بنوادیا ہے۔ شکور محمد کا کہنا ہے کہ اسپتال کے لئے زمین دینے سے انھیں قلبی سکون ملا ہے جس کا بیان وہ لفظوں میں نہیں کرسکتے۔ انھوں نے جو پلاٹس مسجد اور مدرسے کے لئے دیئے ہیں، ان میں سے ایک پر مدرسہ تعمیر کیا جارہا ہے اور اس تعمیر میں وہ خود بھی مزدوری کرکے مددکر رہے ہیں، جب کہ مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ جٹانے والوں میں بھی وہ شامل ہیں۔ اب جو زمین کا ایک ٹکڑا باقی ہے اسے بھی جلد ہی وہ سرکار کے حوالے کریں گے تاکہ عام لوگوں کے لئے یہاں ڈائیگنوسٹک سنٹر قائم ہوسکے۔
شکورمحمد کا رنامہ اس لائق ہے کہ اس پر فخر کیا جائے اور اسے آبِ زر سے لکھا جائے۔ انھوں نے ان سرمایہ داروں کے منہ پر طمانچہ
مارا ہے، جن کی دولت انھیں قارون بنادیتی ہے اور عوامی وفلاحی کاموں کے لئے خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ شکور محمد کے بارے میں جودھپور کے بعض مقامی اخباروں میں خبر شائع ہوئی ہے مگر کسی بڑے ٹی وی چینل نے اس پر رپورٹ نہیں دکھائی۔ شکور محمد ایک مسلمان ہیں اور انھوں نے اپنی زمین فلاحی کام کے لئے خیرات کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ مسلمان پردہشت گرد ی کا الزام دھرنے والے ہوش میں آئیں مسلمان کار خیر کرنے والا بھی ہوسکتا ہے۔ جب ساری دنیا میں مسلمان دہشت گردی اور تخریب کاری کے الزامات میں گھرے ہوئے ہیں ایسے میں شکور محمد نے انسانیت دوستی کی ایک مثال پیش کی مگر یہ خبر کسی ٹی وی چینل کی شہ سرخی تو کیا سرخی بننے کے لائق بھی نہیں تھی۔ یہی اگر کسی نام نہاد مسلمان نے دہشت گردی کا کوئی کام کیا ہوتا تو اس پر تمام چینل خصوصی پروگرام پیش کر رہے ہوتے اور قومی اخباروں میں بڑی بڑی سرخیاں ہوتیں اور صفحات کے صفحات سیاہ کئے جاتے اور مسلمان کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھ نشانہ بنایاجاتا۔میڈیا ہمیشہ منفی خبروں کو جگہ دیتا ہے اور مثبت خبریں عموماً پوشیدہ رہ جاتی ہیں کیونکہ ان کے اندر سنسنی خیزی کا مداہ نہیں ہوتا جس کی میڈیا کو چاہت ہوتی ہے۔ وہ بار بار کہتا ہے اسلام نے جہاد کا حکم دیا ہے مگر ایک بار بھی یہ نہیں بتاتا کہ اسلام میں انسانی ہمدردی بھی فرض کی ہے اور انسان تو کیا جانوروں کو بھی بلاسبب تکلیف پہنچانے کی یہاں اجازت نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں بتاتا کہ کمزور طبقات کو مضبوط بنانے کے لئے اسلام نے زکوٰۃ بھی فرض کیا ہے ۔
مال جمع کرنے کے لئے نہیں ہوتا
اسلام، انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور امداد باہمی کا مذہب ہے۔ اسلام نے زکوٰۃ کا حکم اس لئے دیا ہے کہ سماج کے دبے کچلے لوگوں کو آگے آنے کا موقع مل جائے۔ حالانکہ زکوٰۃ جمع مال پر ڈھائی فیصد ہے مگر اہل اللہ اور صوفیہ کا کہنا رہا ہے کہ انسان اپنے پاس مال جمع ہی کیوں رکھے کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہو۔ اگر دولت آئے تو چاہئے کہ اس سے اپنی ضرورت پوری کی جائے اور جو کچھ باقی بچے اسے اللہ کے راستے میں خرچ کردیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ اگر کبھی آپ کے پاس مال آیا تو اسی دن ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے اور اپنے پاس کچھ باقی نہیں رکھتے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہی کردار تھا۔ ایک بار آپ کے پاس کئی لاکھ روپئے آگئے جنھیں شام تک آپ نے بانٹ دیئے۔ یہاں تک کہ روزہ افطار کے لئے بھی کچھ نہیں بچایا۔ خادمہ نے عرض کیا کہ کاش تھوڑا سا آپ افطار کے لئے بچالیتیں تو انھوں نے کہا ہاں مجھے یاد نہیں رہا، پہلے بتاتیں۔یونہی بخاری شریف کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس اگر احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو مجھے یہی پسند ہے کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے اسے خرچ کردوں۔ ہاں اگر قرض ہوتو کچھ بچالوں۔
قرآن کریم میں بار بار لوگوں کوصدقہ وخیرات کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔ چوتھے پارے کی ابتدا ہی ان الفاظ کے ساتھ ہوتی ہے۔ ’’تم اس وقت تک بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی محبوب ترین چیز کو اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرو، اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔‘‘قرآن میں ایک دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا۔’’نیکی اس کانام نہیں کہ تم اپنا رخ پورب یا پچھم کی جانب کرلو بلکہ نیکی تو اس کی ہے جو اللہ ، پچھلے دن،(آخرت)ملائکہ ،کتاب وانبیاء پر ایمان لایا اور مال کو اس کی محبت میں رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مانگنے
والوں اور غلامی سے آزاد کرانے میں خرچ کیا اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب کوئی معاہدہ کریں تو اپنے عہد کو پورا کریں اور تکلیف ومصیبت اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ، وہ لوگ سچے ہیں اور وہی متقی ہیں۔‘‘
اصل میں اسلام کی شناخت یہی نیک اعمال ہیں مگر افسوس کے کچھ دشمنوں کی بدخواہی اور کچھ ہماری اپنی کمیوں نے ہمارے برے اعمال سے جوڑ کراسلام کی پہچان بنادی ہے۔ عام لوگ اسلام کا مطالعہ نہیں کرتے بلکہ وہ ہمارے اعمال سے اسلام کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ ہماری جانب دیکھتے ہیں تو شکور محمد جیسے افراد کہیں حاشئے میں گم ہوجاتے ہیں جو سرخیوں میں نظر آتے ہیں وہ اسامہ دبن لادن اور ابوبکر بغدادی جیسے افراد ہیں۔
تمہارا مال کونسا ہے؟
بخاری شریف کی حدیث ہے ،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے پوچھا کہ تم میں سے کسے اپنے مال کے مقابلے اپنے وارث کا مال پیارا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم میں کوئی نہیں جسے اپنا مال زیادہ پیارا نہ ہو۔فرمایا کہ اپنا مال تو وہ ہے جو آگے روانہ کرچکا ہے اور جو کچھ چھوڑ گیا وہ تو اس کے وارث کا مال ہے۔
انسان جو کچھ نیک کام میں خرچ کرتا ہے مثلاً مسجد ومدرسہ بنوایا، کسی غریب کی مدد کی ، اسپتال اور تعلیمی ادارے قائم کئے یا عوامی وفلاحی کاموں میں خرچ کرتا ہے ،وہ ضائع نہیں جاتا بلکہ اللہ کے ہاں جمع ہوتا ہے اور وہ تمام آخرت میں سود درسود جمع کرکے ملے گا۔ قرآن کریم میں اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھایا گیا ہے کہ:
’’جو لوگ اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں،ان کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں نکلیں۔ ہر بالی میں سودانے اور اللہ جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے۔اور اللہ وسعت والا اور بڑا علم والا ہے۔‘‘
مثال بہت واضح ہے کہ جس طرح سے ایک دانہ بویا جاتا ہے اور اس سے ایک پودا اگا، پھر اس پودے میں سات بالیں آئیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کو ملے گا۔ یعنی ایک کے بدلے میں سات سو۔ حالانکہ یہ انتہا نہیں ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اس سے بہت زیادہ دے سکتا ہے کیونکہ وہ وسعت والا ہے اور اس کی وسعت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
اسلام کی نگاہ میں صدقہ اچھے اعمال میں بہترین عمل ہے۔ اس کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اللہ کے جن نیک بندوں نے اپنے اعمال وافعال سے اسلام کی تبلیغ کی ان میں سب سے نمایا ں صوفیہ کی جماعت ہے۔ عہد وسطیٰ کے ہندوستان میں ان کی خانقاہیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی تھیں، جہاں سے وہ اللہ کے بندوں کی مختلف شکلوں میں مدد کیا کرتے تھے۔ مدد کی سب سے متعارف شکل تھی لوگوں کو کھانا کھلانا۔ اس کی اہمیت شاید ہمیں آج نہ سمجھ میں آئے کیونکہ آج غریب سے غریب آدمی بھی پیٹ بھر کر کھانا کھاتا ہے۔ مگر جب پیداوار کم ہوا کرتی اور اکثر شدید قسم کی قحط سالی ہوتی تھی کہ لوگ اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ ایسے میں ان خانقاہوں سے ملنے والا کھانا کس قدر اہمیت کا حامل ہوگا سمجھا جاسکتا ہے۔ اسلام کے اسی روپ نے دنیا کو متاثر کیا تھا جس کی ایک چھوٹی جھلک پیش کرتے ہیں شکور محمد
جیسے افراد۔ ظاہر ہے یہ دنیا اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ اگر مالدار لوگ ایک دن بھوکے رہنا قبول کرلیں تو دنیا سے غربت اور بھکمری کا خاتمہ ہوجائے اور دنیا بھر کے بل گیٹسوں، امبانیوں کو آئینہ دکھانے کا کام کرتے ہیں شکور محمد جیسے لوگ۔ ایسے لوگوں کے رہتے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دنیا نیک اور دلدار افراد سے خالی ہوچکی ہے۔
جواب دیں