انتخابات میں فتح وشکست کا سلسلہ تو چلتا ہی رہتا ہے۔یہ فطرت کے عین مطابق بھی ہے۔ لیکن شکست کے بعدبجائے اس کے کہ شکست کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے،کہاں اور کس موقع پر انفرادی یا پارٹی سطح پر کیا کمیاں وخامیاں سرزد ہوئیں، اس کا احتساب کیا جائے اور پھر اصلاحات کرنے کی کوشش کی جائے، لیکن ان سب پر دھیان نہ دے کر کے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پارٹی اب بہت زیادہ تھک اور ہار چکی ہے اوراس نے شکست کے سامنے اپنے ہتھیار آسانی سے ڈال دئیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے نائب صدر پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس سے ٹھیک پہلے اور سماجی کارکن انا ہزارے کے ذریعہ مودی حکومت کے حصول آراضی بل کے خلاف رام لیلا میدان میں دھرنے پر بیٹھنے سے عین قبل چھٹیاں منانے چلے گئے ہیں ۔
یہ وہی مدعا ہے جس پر راہل گاندھی اترپردیش کے بھٹا پارسول میں احتجاج کر چکے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ راہل گاندھی غور وفکر کے لئے یا خود احتسابی کے لئے چھٹی پر گئے ہیں اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے باضابطہ طور پر پارٹی صدر کو اس کی درخواست دی تھی جسے منظوربھی کر لیا گیا۔لیکن سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ چھٹی تو محض ایک بہانہ ہے، اس کے پس پشت کئی عوامل کارفرما ہیں۔ چھٹی کے وقت کو لے کر دوسری پارٹیوں کے لیڈران سمیت خودکانگریس پارٹی کے کئی لیڈروں نے انہیں دبی زبان میں نشانہ بنایا ہے۔یہاں تک کہ دگ وجے سنگھ جیسے راہل کے قریبی لیڈر کو بھی یہ کہنا پڑا کہ انہوں نے صحیح وقت پر چھٹی نہیں لی۔واضح رہے کہ ملک کے سیاسی لیڈران عام طور پر چھٹی پر نہیں جاتے اور بالخصوص ایک ایسے وقت تو بالکل بھی نہیں جب پارلیمنٹ کا اہم ترین بجٹ اجلاس شروع ہونے جارہا ہو۔راہل گاندھی کو ایک ایسے وقت چھٹی پر جانے کا خیال آیا جب پارلیمنٹ کے اندر اور باہر انہیں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کا ایک اچھا موقع تھا۔
راہل کے اس فیصلہ سے اب لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات جنم لینے لگے ہیں اور ان سوالات کا جنم لینا فطری بھی ہے۔سوال کیا جانے لگا ہے کہ کیا کانگریس پارٹی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ؟
یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ اگر انہیں چھٹی پر جانا ہی تھا تو اس کے لئے راہل کو سونیا گاندھی سے چھٹی کی اجازت کیوں لینی پڑی؟کانگریس راہل گاندھی کی خود اپنی پارٹی ہے، اگر وہ چھٹی مانگے بغیر بھی چلے جاتے تو اس پر کوئی چون وچرا تک نہیں کرسکتا تھا۔یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ کیا راہل گاندھی ناراض ہوکر چھٹی پر گئے ہیں۔ کیا پارٹی پر راہل گاندھی کووہ اختیارحاصل نہیں ہے، جسے وہ چاہتے ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹکٹ تقسیم میں راہل کی مرضی نہ چلنے دینا اور پھر شکست کی صورت میں ہار کا ٹھیکرا انہیں کے سرپھوڑنااور پھر کانگریس صدر دفتر کے باہر 146 پرینکا لاؤ، کانگریس بچاؤ145 جیسے نعروں سے احتجاج ومظاہرہ کرنا یہ ایسے ایشوز ہیں جن سے راہل گاندھی کو تکلیف ہوتی ہے۔راہل کے چھٹی پر جانے کی اصل وجہ کیا ہے، یہ تو وہی بہتر جانیں گے، لیکن یہ سچ ہے کہ ایک مرتبہ پھر انہوں نے سیاست کے تئیں اپنی عدم سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ کل وقتی سیاست نہیں کرتے۔
وہ جس صورت حال میں چھٹی منانے چلے گئے ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ ناراض ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ راہل گاندھی ایک ایسے سیاستداں ہیں جو پس وپیش کے شکار ہیں۔ان کے اندر اعتماد کی کمی ہے۔ انتخابی ریلیوں اور جلسوں میں ان کی تقریریں اکثر وبیشتر مخالف پارٹیوں کی تنقید پر مبنی ہوتی ہیں ۔ ملک اور اس کے عوام کے تئیں ان کا کیا ویژن ہے، کیا سوچ ہے اور کیا پالیسی ہے، اس پر وہ کھل کر کچھ بولنے سے کتراتے ہیں۔
ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کی مانیں تو راہل گاندھی کے پاس کسی قسم کا کوئی ایڈمنسٹریٹیو تجربہ نہیں ہے۔ ایڈمنسٹریٹیو تجربہ کا مطلب صرف یہ نہیں کہ مرکز میں کبھی وزیر کی حیثیت سے انہوں نے اپنی خدمات انجام نہیں دیں، بلکہ پارٹی کن اصولوں اور کن بنیادوں پر چلتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ اسے جاننے میں بھی وہ ناکام رہے ہیں۔گزشتہ یوپی اے حکومت میں انہیں مرکزی وزیر بننے کا موقع میسر بھی ہوا تھااور وزیر بن کر انہیں اپنی انتظامی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا تھا۔
اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ نے راہل گاندھی کو اپنی کابینہ میں شامل ہونے کے لئے کئی مرتبہ ان سے پیشکش بھی کی تھی، لیکن انہوں نے یہ کہہ کر کہ وہ کانگریس کو تنظیمی سطح پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں، اس کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس قدیم ترین پارٹی میں نئی روح پھونکنا چاہتے ہیں،منموہن سنگھ کی اس پیشکش کو مسترد کردیا تھا۔انجام کار یہ ہوا کہ پارٹی کو مضبوط کرنے کے نام پرپارٹی مضبوط تو نہیں ہوسکی، بلکہ پارٹی کی حالت دن بہ دن مزید پتلی ہوتی گئی۔ حالانکہ وہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور مواصلات یا پھر دیہی ترقی کی وزارت لے کر اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کر سکتے تھے۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔مرکزی وزیر بن کر انہیں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے اور انتظامی امور میں تجربات حاصل کرنے کا جو سنہرا موقع انہیں ملا تھا، وہ اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔اسی طرح راہل گاندھی نے پارٹی کے احیاء نو کی باتیں خوب کیں اور اس کا خوب خوب چرچا کیا، لیکن زمینی سطح پر کچھ بھی نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس پارٹی کو گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہوئے متعدد انتخابات میں شرمناک ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ پارٹی کے زمینی سطح کے کارکنان کا اپنی قیادت سے کوئی رابطہ نہیں تھا ، نتیجتاً ان کے حوصلے پست رہے اور انہوں نے انتخابات میں بہت زیادہ جوش وخروش نہیں دکھایا۔
مزید برآں، امیٹھی کے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے بھی وہ عوام پر اپنی چھاپ چھوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ گرچہ دوبارہ وہ امیٹھی سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں، تاہم سچائی تو یہی ہے کہ یہاں بھی ان کی کارکردگی حوصلہ افزا نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۴ کے عام انتخابات میں یہاں سے بی جے پی کی امیدوار اورفروغ انسانی وسائل کی موجودہ وزیر اسمرتی ایرانی نے انہیں زبردست ٹکر دی تھی۔اس وقت سننے میں یہ بھی آیا تھا کہ ووٹنگ کے دن راہل گاندھی نے زیادہ تر بوتھوں کے چکر لگائے اور پھراپنے تئیں رائے دہندگان کی ہمدردی
حاصل کر لی۔ کیونکہ انہیں اپنی شکست قریب نظر آ رہی تھی۔ حالانکہ اس سے پہلے کے انتخابات میں انہوں نے بوتھوں پر جانے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی کیونکہ اس وقت انہیں اپنی جیت پر پورا بھروسہ تھا۔یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک رکن پارلیمنٹ کے طور پر ان کی کارکردگی اوسط سے بھی کم ہے۔ ۲۰۰۹ میں امیٹھی کی جو صورت حال تھی، وہ اب بھی برقرار ہے۔ یہاں سماجی یا معاشی لحاظ سے کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے۔ بہر حال،راہل کی چھٹی کو لے کر طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں، تاہم یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ اس چھٹی کی اصل وجہ کیا ہے؟
مضمون نگار روزنامہ انقلاب دہلی کے نیوزاڈیٹر ہیں
جواب دیں