حالانکہ دہلی الیکشن سے قبل ہی پارٹی میں کیجری وال کو لے کر اختلاف رائے شروع ہوگئے تھے اور ونود کمار بنی ، شاذیہ علمی اور ان کے جیسے وہ تمام لیڈران جو انا تحریک سے جڑے ہونے کے بعد اروند کیجری وال کی قیادت میں بنی عام آدمی پارٹی میں شامل ہوکر اس کا چہرہ بن گئے تھے وہ پارٹی سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ عام آدمی پارٹی میں وہی شخصیت پرستی پیدا ہوگئی ہے جو تمام علاقائی پارٹیوں میں ہی نہیں اب تو بی جے پی میں بھی داخل ہوچکی ہے ۔ کانگریس میں تو بہت پہلے داخل ہوچکی تھی اب صرف کمیونسٹ پارٹیاں اس بیماری سے کسی حد تک بچی ہوئی ہیں ۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ شخصیت پرستی پارلیمانی جمہوریت کے مزاج اور روح کے بالکل خلاف ہے کیونکہ یہاں پارٹی کی بنیاد پر الیکشن اور پھر حکومت سازی ہوتی جو اپنے نظریات پالیسی اور پروگراموں کو لے کر عوام کے درمیان جاتی ہیں اور ان کا ووٹ حاصل کرتی ہیں لیکن اب حالات یکسر بدلتے جارہے ہیں اب شخصیت کے نام پر ووٹ پڑتے ہیں اور پارٹی و اس کے پروگرام حاشیہ پر چلے گئے ہیں ۔ پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی نہیں نریندرمودی کامیاب ہوئے تھے اور دہلی اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی نہیں در اصل اروند کیجری وال کامیاب ہوئے تھ اور جب نام اور شخصیت پر ووٹ ملتے ہوں تو پھر جس کے نام پر ووٹ ملے ہوں وہ کسی اور کی کیوں سنے اور اسے کیوں پنپنے دے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ عام آدمی پارٹی میں یہ خرابی پیدا ہوگئی ہے یہ تو ہوناہی تھا حیرت یہ ہے کہ اس پارٹی میں یہ بگاڑ یہ خرابی ، ا تنی جلدی آگئی لمبے چوڑے دعوے بڑی بڑی باتیں ہمارے علاوہ سب بے ایمان ایسی باتوں اور دعوؤں سے نیز گھسی پٹی پرانی سیاسی روش سے بیزار عوام کو عام آدمی پارٹی میں فطری طور سے کشش دکھائی دی لیکن اقتدار اور سیاست کی تلخ حقیقت اور سنگلاخ زمین پر قدم رکھتے ہی عام آدمی پارٹی کے لیڈروں اور حامیوں کو سچائی کا احساس ہونے لگاہے۔
کوئی بھی پارٹی جب نئی ہو اور اسے اچانک اتنی بڑی کامیابی مل جائے تو اس کے بڑے لیڈروں میں تھوڑا بہت تکبر اور تھوڑی بہت خواہشات کا پیدا ہونا لازمی ہے اور جب یہی تکبر اور خواہش ٹکراؤ کا سبب بن جائے تو پھر اس کا زوال لازمی ہے ۔1977میں جنتا پارٹی اور1988-89میں جنتا دل نے ایسی ہی کامیابی حاصل کی تھی اور آج تاریخ کے صفحات میں گم ہوگئیں۔ خدا کرے عام آدمی پارٹی کا یہ انجام نہ ہو لیکن عوام کا جذباتی استحصال خواب فروشی اور نا قابل عمل وعدوں کا جب منطقی انجام سامنے آئے گا تب پارٹی کے لئے واقعی سوالیہ نشان لگ جائے گا فی الحال تو پارٹی اور اس کے لیڈر کیجری وال کا ستارہ عروج پر ہے جو ان سے ٹکرائے گاچور چور ہوجائے گا جیسا کہ پہلے بنی اور شاذیہ وغیرہ کے ساتھ ہوچکا ہے اورآج یو گیندر یادو اور پرشانت بھوشن کے ساتھ ہواہے ۔ پارٹی میں جو اندرونی جمہوریت شفافیت اور نہ جانے کیسے کیسے دعوے کئے جارہے تھے اس کی پول آج کھل گئی ہے۔
در اصل پارٹی آج ایک دوراہے پر ہے اوردو اہم سوال اس کے سامنے منھ پھیلائے کھڑے ہیں ایک تمام اختیارات اروند کیجری وال کے ہاتھ میں مرکوز کردینا جس کی قرار داد 27فروری کو پارٹی قومی عاملہ کے اجلاس میں منظورکی گئی تھی جس میں کیجری وال سے پارٹی کے کنوینر اور دہلی کے وزیر اعلی دونوں عہدوں پر برقرار رہنے کی اپیل کی گئی تھی جو کانگریس کی اس روایت کے عین مطابق ہے کہ اگرنہرو گاندھی فیملی کا شخص ہے تو وہ وزیر اعظم اور صدر کانگریس دونوں عہدوں پر رہ سکتاہے ورنہ ایک شخص ایک عہدہ کے فارمولہ پر عمل کیا جائے گا الگ قسم کی اور نئی سیاست کے دعوے کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
پارٹی میں دوسرا بڑا سوال اس کی ملک گیر توسیع کو لے کر ہے اروند کیجری وال اور ان کا گروپ چاہتا ہے کہ پہلے دہلی میں اچھی حکمرانی شفاف انتظامیہ عوام کی بھلائی اور وی آئی پی کلچر کے خاتمہ کی مثال پیش کردی جائے اور اس کے بعد دوسری ریاستوں پر توجہ دی جائے جبکہ یوگیندر یادو وغیرہ کاخیال ہے کہ ابھی حالات کانگریس کے لئے بدترین بی جے پی کے لئے خراب اورعام آدمی پارٹی کے حق میں ہیں جس کا فائدہ اٹھا کرپارٹی کو کم از کم پنجاب ہریانہ اور کرناٹک وغیرہ میں مضبوط کیا جائے اختلافات رائے کی یہ ایک اہم وجہ تو ہے لیکن اصل وجہ اروند کیجری وال کے ہاتھوں میں تمام طاقت اور اختیارات کا مرکوز ہوناہے جسکے خلاف اٹھی آواز کو آج بیدردی سے کچل کر پیغام دے دیا گیا کہ اگر کیجری وال کی قیادت اور اختیار کو چیلنج کیا گیا تواس کا انجام کتنا عبرتناک ہوسکتا ہے اب تک کانگریس اوربی جے پی میں یہ سب ہوتا رہتا تھا اب عام آدمی پارٹی میں بھی آغازہوگیا اور اس کے ساتھ ہی شروع ہوگئی پھر وہی گھسی پٹی پرانی سیاست۔
جواب دیں