شنکر وپاروتی کو ’’آدم وحوا‘‘ بتانا، کس سیاست کا حصہ ؟

اس سلسلے میں کہا جارہا ہے کہ ان کا تعلق جمعیۃ علماء ہند سے ہے اور وہ ایک معمولی پڑھے لکھے مولوی ہیں۔نام کے ساتھ’’ مفتی‘‘ کا ٹائٹل زیبائش کے لئے لگایا گیا ہے۔ مفتی الیاس نے اپنے بیان میں بھگوان شنکر اور ان کی بیوی پاروتی کو اپنا سرپرست بتایا اور کہا کہ شنکر مسلمانوں کے پہلے نبی تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان سناتن دھرم سے ہیں۔ ہندوؤں کے دیوتا شنکر اور پاروتی ہمارے بھی ماں باپ ہیں۔ اس بات کو ماننے میں مسلمانوں کو کوئی گریز نہیں ہے. انہوں نے یہ بیان اجودھیا میں دیا۔انھوں نے کہا کہ بھارت میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے۔مبینہ مفتی نے لفظ ہندو کو مذہب کی بجائے ملک سے زیادہ جڑا بتایا ہے۔ انہوں نے آر ایس ایس کے ہندو قوم والی بات پر کہا کہ مسلم ہندو قوم سے مخالف نہیں ہیں۔ جس طرح چین میں رہنے والا چینی، امریکہ میں رہنے والا امریکی ہے، اسی طرح ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب مذہب ایک ہے، کیونکہ سب کا پیغام ایک ہے۔ مفتی کا کہنا ہے کہ پہلے ہم بھارتی ہیں، مذہب اس کے بعد آتا ہے۔ امن، ہم آہنگی، بھائی چارہ ہمارا پیغام ہونا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ لوگ سیاست کے لئے مذہب کا استعمال کر رہے ہیں، اورجو بھی ملک کی یکجہتی کے لئے آگے بڑھے گا ہم اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
مفتی الیاس کے بیان کے بعد ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔ علماء نے اس بیان کی شدید مخالفت کی ہے۔ دلی تاریخی فتح پوری مسجد کے امام مفتی مکرم نے کہا کہ ہم ان کے بیان سے ہم متفق نہیں ہیں، ان کا بیان غلط ہے۔ انہوں نے جو باتیں کہی ہیں اسے ہم نہیں مانتے۔ ان کا یہ سیاسی بیان ہو سکتا ہے۔بابری مسجد تحریک سے وابستہ ہاشم انصاری نے بھی مفتی الیاس کے بیان کو مسترد کر دیا اور جم کر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ مولوی قرآن تو پڑھتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے۔ ان کے بیان کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنی قومیت ہندو بنا لیں، ہم لوگوں کا ان سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ جمعیت علماء ہندکا ایک وفد ایودھیا آیا تھا۔ جمعیت علماء ہند 27 فروری کو بلرام پور میں قومی اتحاد کا پروگرام منعقد کرے گی۔ اس پروگرام میں ایودھیا کے سادھو سنتوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے اور مفتی الیاس اسی سلسلے میں یہاں آئے تھے۔
بی جے پی کو خوشی کیوں؟
جہان ایک طرف علماء دین کی طرف سے مفتی محمد الیاس کے بیان کی مذمت اور مخالفت ہورہی ہے وہیں دوسری طرف بی جی پی کی طرف اس سے ان کے بیان کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اترپردیش بی جے پی نے جمعیت علماء ہند کے مفتی محمد الیاس کے بیان کو معیاری جملہ بتایا ہے۔ بی جے پی ریاستی صدر ڈاکٹر لکشمی کانت واجپئی نے کہا ہے کہ اس بیان کو محمد الیاس کے حامی قبول کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک میں امن اور سکون قائم ہوگا۔ واضح ہوکہ محمد الیاس نے کہاتھا کہ بھگوان شنکر مسلمانوں کے پہلے نبی تھے اور مسلمانوں کو یہ بات ماننے میں گریز نہیں ہے کہ مسلمان بھی سناتن دھرم سے ہی تعلق رکھنے والے ہیں۔ ساتھ ہی محمد الیاس نے ہندوستان میں رہنے والے ہر شخص کو ہندو بھی بتایا ہے۔ ان کے چونکانے والے بیان پر لکھنؤ کے عید گاہ کے امام مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ اس طرح کے بیان سے مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔تو ا دوسری طرف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر مولانا ڈاکٹر کلب صادق نے کہا کہ مفتی محمد الیاس مذہب کے نام پر تنازعہ نہ کھڑا کریں۔کلب صادق کے مطابق وہ (مفتی محمد الیاس) پہلے ثابت کریں کہ وہ جمعیت علماء ہندمیں کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ اس طرح کے بیان سے پہلے انھیں ہندو مذہب کے بارے میں جاننا چاہئے، کیونکہ بھگوان شنکر ہندو مذہب کے عقیدے کا مرکز ہیں۔فیض آباد شہر کے علماء نے بھی کہا ہے کہ بھگوان شنکر کو مسلمانوں کا پہلا نبی بتانا ان کا اپنا خیال ہے۔ ان کے مطابق ہر مذہب اپنے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر سماج سے منسلک ہے۔ ہندو مذہب کے ماننے والوں اور اسلام مذہب کے ماننے والوں کی الگ الگ تاریخ ہے اور اسے کسی سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے۔علماء کا کہنا ہے کہ ہندوستانی مسلمان ہمیشہ سے ہر مذہب و مذہبی شخص کا احترام کرتا ہے۔ ہندوستان میں رہنے والا ہر مسلمان ہندوستانی ہے۔ یہ بار بار بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم سب ہندوستان کی سرزمین کو ہی اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ آخر ہمیں اسی سرزمین کی مٹی میں سپرد ہونا ہے۔اس قسم کی بیان بازی کرنا اسلامی عقائد میں خرابی پیدا کرنے کی مصداق ہے۔مولانا کلب صادق نے کہا ہے کہ اسلام ہر مذہب کا احترام کرنا سکھاتا ہے۔ہندوستان میں ہندوستانی کہلانے میں کسی مسلمان کو کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوااور نہ ہوگا۔ہم سب وطن سے محبت کرنے والے لوگ ہیں ہم سب ہندوستانی ہیں۔
بھارت انبیاء کی سرزمین؟

بھارت ایک قدیم ملک ہے۔ تاریخی اور مذہبی شواہد میں اس بات کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ تمام انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا یہیں نزول ہوا تھا۔ وہ اسی سرزمین پر اتارے گئے تھے۔ وہ جس مقام پر اترے تھے اسے سرندیپ پہاڑ کہا جاتا ہے۔ یہ مقام آج بھی سری لنکا میں ہے۔ یہاں ایک بہت بڑا قدم کا نشان ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے مسلمانوں اور عیسائیوں میں کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم کے قدم کا نشان ہے۔ دوسری طرف بدھسٹ اسے گوتم بدھ کے قدم کا نشان بتاتے ہیں اور ہندو اسے برہماکے پیر کا نشان مانتے ہیں۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ بھارت اور سری لنکا کے بیچ سمندر کے اندر موجود پہاڑی سلسلے کو ’’اڈمس برج‘‘ یا آدم کا پل کہا جاتا ہے جب کہ ہندو اسے رام سیتو یا سیتو سمندرم کہتے ہیں۔ بے شمار اسلامی کتابوں میں آدم علیہ السلام کے سری لنکا میں اترنے اور وہاں سے بھارت آنے کی باتیں کہیں گئی ہیں۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ بھارت میں جو طرح طرح کے پھل، پھول اور خوشبودار مسالے وجڑی بوٹیوں کی بہتات ہے وہ اس لئے کہ حضرت آدم اپنے ساتھ جنت سے جو چیزیں لائے تھے انھیں اسی سرزمین پر پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ اجودھیا میں ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک قبر ہے جس کے بارے میں بہت سے مصنفین نے لکھا ہے کہ یہ حضرت آدم کے بیٹے شیث علیہ السلام کی قبر ہے۔ اسی طرح اجودھیا کوتوالی کے پاس ایک تیس ہاتھ لمبی قبر ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قبر ہے۔ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کی سرزمین پر بھی بہت سے انبیاء کرام آئے ہونگے اور جس طرح اللہ نے دوسرے خطوں میں انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنے پیغمبروں کو بھیجا اسی طرح یہاں بھی اس نے بھیجے ہونگے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ اہل اللہ کو یہاں بھگوان کا درجہ دے دیا گیا ہو مگر ہم کسی ہندو دیوتا کے بارے میں ایسا یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے ہیں۔ مفتی محمد الیاس نے جس طرح تمام باتوں کو پورے یقین کے ساتھ کہا ہے وہی بات علماء ہضم نہیں کرپائے ہیں اور ان کی باتوں پر اعتراض جتایا ہے۔ اس اعتراض کو ہم مسترد بھی نہیں کرسکتے کیوں کہ اسلام توحید کو قائل ہے اور ہندووں کے ہاں تیس کروڑ سے زیادہ دیوی دیوتاؤں کا عقیدہ رکھا جاتا ہے۔ اگر ہندووں کے کسی دیوتاکے بارے میں ویسا ہی مسلمان تسلیم کرلیں جیسا کہ مفتی صاحب موصوف نے کہا ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ مسلمانوں کے اندر بھی مشرکانہ باتیں سرایت کرنے لگیں۔ ویسے بھی جب قرآن وحدیث سے اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہین ہے تو پھر ہم کس بنیاد پر کسی دیوتا کو نبی مان سکتے ہیں؟ دوسری بات ’’ہندو‘‘ لفظ کو لے کر جس میں تعبیر وتفہیم کی غلطی سے کئی شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ آر ایس ایس کی طرف سے بھی بار بار یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے سبھی لوگ ہندو ہیں مگر یہ بات وہ فریب دینے کے لئے کہتے ہیں ۔ اگر وہ سب کو ہندو مانتے تو وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس وغیرہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے داخلے پر پابندی کیوں ہوتی؟ اصل میں اگر ’’ہندو‘‘ بہ معنیٰ ہندوستانی ہے تو یقیناًبھارت کے سبھی لوگ ہندوستانی ہیں لیکن اگر ہندو کا مطلب ایک خاص مذہب کا پیروکار ہے تو یقیناًمسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو کہلانے پر اعتراض ہوگا۔ سبھی مذاہب کو ایک کہنا بھی درست نہیں ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی مذاہب میں کچھ تعلیمات میں یکسانیت ہے مثلاً ہر جگہ چوری، جھوٹ، غیبت، زنا کی مذمت کی جاتی ہے مگر ان مذاہب کے درمیان بہت واضح فرق ہے۔ اسلام کی بنیاد کی توحید خالص پر ہے اور موجودہ دور میں سناتن دھرم کی بنیاد شرک پر ہے۔ ایسے میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ تمام مذاہب ایک ہیں۔ اصل میں اس قسم کے بیانات آج کل آر ایس ایس اور بی جے پی کے دربار میں اپنا نمبر بڑھانے کے لئے
دیئے جاتے ہیں۔ اس کے پیچھے سیاسی اغراض ومقاصد کارفرما ہوتے ہیں جنھیں ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔

«
»

ملک کی تقسیم کیلئے جناح سے زیادہ نہرو، پٹیل ذمہ دار

جرائم کے بڑھتے مانسون کے آگے انتظامیہ کی خودسپردگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے