نئے افق کی تلاش

مگر حیر ت انگیز بات یہ ہے کہ انہیں سماعتوں کے دوران ان دونوں ماہرین نے دلیل دی کہ اگر ہندوستان نے سرحد پار سے ایک بڑے دہشت گرد حملے کے جواب میں پاکستان کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی حملے شروع کئے تو پاکستان ہندوستان کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرسکتا ہے ۔
آپ اس بات کی سفاکی اور دہشت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ امریکی صلاح کاروں نے بھارت میں امریکی دادا گیر ی کا پلیٹ فارم کس حد تیار کرلیا ہے ۔اسکرپٹ لکھی جاچکی ہے کٹھ پتلیاں تیار ہیں۔ جارج کووچ نے کہا کہ جنوبی ایشیاء ایسا خطہ ہے جہاں مستقبل قریب میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا سب سے زیادہ امکان پایا جاتا ہے اس خطرے کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جاری غیر معمولی مقابلے بازی سے تحریک مل سکتی ہے ۔   سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مقابلے بازی کا محور کیا ہے ؟ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازع کی جڑ کہاں ہے ؟ مذہبی عناد؟ سرحدی غلبہ؟ یا کشمیر؟ مسئلہ کشمیر کو ہم ان سب کا مجموعہ کہ سکتے ہیں یقین مانئے ہم بقیہ ماندہ ہندوستانی، کشمیری عوام کی روز مرہ کی اذیت آمیز حقارت بھری تکلیف دہ ذہنی آزاری کا عشر اشیر بھی نہیں محسوس کرسکتے ۔کشمیر ہو یا فلسطین دونوں ہی دنیا کے نقشے پر انسانیت سوز مظالم کی منھ بولتی تصویریں ہیں ۔ کشمیر کے اسمبلی انتخابات کے نتائج اور بدلے میں بننے والی دو متضاد جماعتوں کی باہمی حکومت نے ایک بہت ہی واضح اشارہ دیاہے کہ اب بھی وقت ہے سنبھل جانے کا ورنہ وہ قیامت خیز منظر دور نہیں جسکی قیاس آرائی امریکی صلاحکار کررہے ہیں ۔ 
جموں کشمیر کے نئے وزیر اعلی مفتی محمد سعید اٹل ارادوں اور بڑے طوفان میں بھی اپنی کشتی کو پار لگانے کی قوت رکھنے کے لئے جانے جاتے ہیں. ان کی آنکھوں میں کشمیر کی سیاست کے کئی دہائیوں کے تجربے کی روشنی صاف نظر آتی ہے۔ .79 سالہ سعید کو نرم گفتار سیاستدان کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن ملک کے پہلے مسلم وزیر داخلہ کی شبیہ کو اس وقت دھکا لگا تھا جب وی پی سنگھ کی قیادت والی ان کی حکومت نے ان کی تین بیٹیوں میں سے ایک روبیہ کی رہائی کے بدلے میں پانچ افراد کو چھوڑنے کے دہشت گردوں کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے تھے. روبیہ کی رہائی کے بدلے میں دہشت گردوں کی رہائی کا حساس ریاست جموں و کشمیر کی سیاستپر دور رس اثرات پڑے.دو دسمبر 1989 کو قومی محاذ کی حکومت کے قیام کے پانچ دن کے بعد ہی روبیا کو اغوا کر لیا گیا تھا. مفتی سعید اس وقت مرکز میں وزیر داخلہ تھے جب وادی میں دہشت گردی نے سر اٹھانا شروع کیا تھا اور اسی وقت 1990 میں وادیوں سے کشمیری پنڈتوں کے نقل مکانی کی بدنام زمانہ کہانی شروع ہوئیتھی۔
اپنی بیٹی محبوبہ مفتی کے ساتھ 1999 میں خود کی سیاسی پارٹی جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کی تشکیل کرنے سے قبل سعید نے اپنے سیاسی کیریئر کا طویل وقت کانگریس میں گزارا اور کچھ وقت وہ وی پی سنگھ کے تحت محاذ میں بھی رہے. 1950 کی دہائی میں وہ جی ایم صادق کی کمان میں ڈیموکریٹک نیشنل کانفرنس کے رکن بھی رہے.1972 میں وہ کابینہ وزیر بنے اور اسمبلی میں کانگریس پارٹی کے لیڈر بھی. 1975 میں انہیں کانگریس پارٹی اراکین کا لیڈر اور ریاستی کانگریس صدر بنایا گیا لیکن وہ اگلے دو انتخاب ہار گآ ۔ 1986 میں مرکز میں راجیو گاندھی کی حکومت میں بطور کابینہ وزیر (سیاحت) کے طور پر شامل ہونے والے سعید نے ایک سال بعد میرٹھ فسادات سے نمٹنے میں کانگریس کے طور طریقوں اور ان میں پارٹی کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے استعفی دے دیا تھا۔مگر پھر ۲۰۰۲ مین کانگریس کے اتحاد کے ساتھ محض 16 نشستیں لے کر ریاست کے وزیر اعلی بنے ۔اس وقت جموں کشمیر کئی محاذوں پر مسائل کا سامنا کر رہا تھا۔پارلیمنٹ پر حملے کے بعد فوج اور پاکستان ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے اور ریاست میں ذاتی آزادی پر پابندی لگ گئی تھی۔قریب دو دہائیوں میں پہلی بار مفتی نے پی ڈی پی کے پلیٹ فارم سے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کو سرینگر میں ایک ریلی سے خطاب کرنے کے لئے مدعو کیا جسے امن کی نئی کوششوں کے طور پر دیکھا گیا۔جو رہائشی علاقوں سے فوج کی واپسی، سرحدوں پر جنگ بندی، ا یس ٹی ایف اور پولیس کے خصوصی مہم گروپ کو ختم کرنے، پوٹا کو ختم کرنے اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے طور پر دکھی اس سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اور کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور مرکز کے درمیان براہ راست رابطہ قائم ہوا۔
تقسیم کشمیر کے دونوں حصوں میں سرینگر اور مظفر آباد کے درمیان بس سروس شروع ہونے کے وقت بھی مفتی ریاست کے وزیر اعلی تھے۔ سال 2002 میں ریاست کے وزیر اعلی کے عہدے کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد مفتی نے لوگوں کے امن اور وقار کی پکار کو سنا اور لوگوں کے ٹوٹے دلوں کو جوڑنے، ان کی وقار کو بحال کرنے، ان کے دلوں میں ایک نئی امید جگانے اور سیاسی عمل میں شرکت کرنے کی حوصلہ افزائی کرنے کی سمت میں قدم اٹھایا اور مرہم لگانے کی کوشش کی۔مفتی سعید اٹل بہاری واجپئی کی اس بات پر سو فیصد عمل پیرا ہونے کی کوشش کررہے ہیں جب انہوں نے کہا تھا کہ ہم دوست بدل سکتے ہیں پڑوسی نہیں  مفتی سعید کی انتخابی کامیابی کا زیادہ تر سہرا محبوبہ مفتی کو دیا جاتا ہے جنہوں نے پارٹی کے لئے کیڈر کو فعال اور منظم کیا. . . مانا جاتا ہے کہ محبوبہ مفتی نے ہی اپنے والد کو چھ سال کا مکمل مدت دلانے کے لئے بی جے پی کو منانے میں سخت محنت کی۔
یہ سیاسی معجزہ بالآخر ہو ہی گیا……بی جے پی کی حمایت سے پی ڈی پی کے مفتی محمد سعید کا وزیر اعلی بننا ہندوستانی سیاست کے لئے تاریخی واقعہ ہے۔یکم مارچ 2015حلف برداری کے لےٓ جموں کا زوروآر سنگھ اسٹیڈیم پھولوں سے سجا تھا. پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان جغرافیائی اور نظریاتی سطح پر کتنی گہری کھائی ہے اسے حلف برداری تقریب میں لوگوں نے بخوبی محسوس کیا.بی جے پی، پی ڈی پی کے وزیر اور وزیر مملکت حلف برداری تقریب میں بالکل مختلف سیاسی ثقافت اور اسٹائل میں نظر آئے. جب بی جے پی ایم پی جگل کشور نے ترانہ کے بعد تیز آواز میں بھارت ماتا کی جے کہا تو اسٹیڈیم میں بی جے پی خیمہ تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا. دوسری طرف پی ڈی پی خیمہ مکمل طور پر خاموش رھا۔دونوں پارٹیوں کے درمیان سیاسی شناخت کا تضاد حلف برداری کی تقریب میں صاف دکھا. بی جے پی اور پی ڈی پی کوٹے سے حلف لے رہے وزراء کے پھناوے بھی بالکل مختلف تھے. جاوید مصطفی ہیٹ پہنے اللہ کے نام پر حلف لے رہے تھے. مولوی عمران انصاری بھی اللہ کے نام پر حلف لیتے نظر آئے. پردیش کے مشہور لیڈر لال سنگھ نے بھگوا سافہ پہنے ڈوگری میں حلف لیا۔ بی جے پی کے سنیل سنگھ نے ہندی میں حلف لیا. .محبوبہ مفتی مرلی منوہر جوشی کے ساتھ سنجیدگی سے بات کرتی نظر آئیں. شاہنواز حسین اور رام مادھو آپس میں بات کرتے ہوئے خوش دکھائی دے رہے تھے. اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی بالکل مطمئن موڈ میں دکھائی دے رہے تھے. وہ باری باری پی ڈی پی وزراکو گلے لگا رہے تھے. پی ایم نے جاوید میر کی ہیٹ کی تعریف بھی کی. پٹھان سوٹ پہنے سجاد لون مفتی محمد سعید اور پی ایم مودی سے ہاتھ ملانے کی اتر اھٹ میں دستخط کرنا ہی بھول گئے۔ سجاد کو آخری لمحوں میں ریاستی وزیر بنایا گیا ہے۔
معاہدے کے مطابق مفتی محمد سعید چھ سال کی مدت کے لیے وزیراعلیٰ بن گئے۔اقتدار کی سیاست میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ عیاں طور پر متضاد نظریات کی حامل جماعتیں مشترکہ حکومت پر آمادہ ہوجائیں۔ دلچسپ امر ہے کہ گذشتہ برس کشمیر میں جب انتخابات ہوئے تو پی ڈی پی سمیت سبھی سیاسی گروپوں اور سماجی حلقوں نے لوگوں سے کہا کہ بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کو دیکھتے ہوئے اسے اقتدار سے دور رکھنا کشمیریوں کا  قومی مفاد ہے۔نیشنل کانفرنس کی عدم مقبولیت کے علاوہ اسی  قومی مفاد کے نام پر لوگوں سے ووٹ طلب کیے گئے۔کشمیر اور جموں کی مسلم آبادی نے پی ڈی پی ، نیشنل کانفرنس اور کانگریس اور بعض آزاد امیدواروں کو منتخب کیا، لیکن ہندو اکثریتی علاقوں مِیں لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔
پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان گفت و شنید شروع ہوئی تو یہاں کے سماجی اور سیاسی حلقوں نے اس انوکھے اتحاد کے خلاف مہم بھی چلائی ۔سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے تو اس فیصلے کو سودے بازی قرار دیا جس پر پی ڈی پی نے کہا کہ عبداللہ خانوادے نے بیچنے کے لیے کچھ چھوڑا ہی نہیں تھا۔ علیحدگی پسندوں نے بھی اس اتحاد پر تحفظات کا اظہار کیا اور لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یاسین ملک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ایک چال تھی جس میں ہم پھنس گئے۔ کشمیریوں کے سامنے بی جے پی کو بھوت بنا کر پیش کیا گیا، لوگوں نے بھوت بھگانے کے لیے ووٹ دیا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ نئی دہلّی نے ہم کو مات دے دی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پی ڈی پی نے جن شرائط پر بی جے پی کے ساتھ شراکت اقتدار کا معاہدہ کیا ہے، ان میں فوجی قوانین کا خاتمہ، کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت خصوصی پوزیشن یعنی دفعہ 370 کی برقراری، پاکستان اور علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات، پاور پروجیکٹس کی واپسی اور فراخدلانہ مالی امداد شامل ہیں۔واضح رہے 1947 میں ہزاروں ہندو خاندان پاکستان سے ہجرت کر کے جموں میں پناہ گزین ہوئے تھے اور بی جے پی انہیں کشمیری شہریت دینے کا وعدہ کر چکی ہے لیکن علیحدگی پسند اور دوسرے سماجی حلقے اسے کشمیر میں مسلم آبادی کے تناسب کو کم کرنے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔

جس طرح جموں اور کشمیر کے ووٹروں نے الگ الگ نظریاتی دھاروں کی حمایت کی ہے، انھیں جوڑنا اور دونوں خطوں کے درمیان رواداری پیدا کرنا نئی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ جموں و کشمیر میں 12 ویں ریاستی اسمبلی کے انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو یہ دو الگ الگ ریاستوں کے نتائج معلوم ہوتے ہیں۔کشمیر کی 63 سالہ انتخابی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ انتخابات کے دوران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے جموں اور اسلام پسند حلقوں کے قریب سمجھی جانے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے کشمیر میں برتری حاصل کی ہے۔ در اسل یھان حکومت بنتی ہے، لیکن بااختیار نہیں ہوتی ہے۔ یہاں حکومت ہند کی نگرانی والے اداروں کا عملاً راج ہے۔ یہاں امرناتھ اور وشنودیوی کی یاترا کے لیے بااختیار بورڈ ہیں، جو یاترا کی مدت کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔ یہاں حکومت ہند کی این ایچ پی سی ہے، جو بڑے فیصلوں کے لیے حکومت کی محتاج نہیں ہے۔ یہاں فوج ہے جو نہ صرف آزاد ہے بلکہ اسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔ سیاسی یا نظریاتی تناظر جو بھی ہو، دیکھنا یہ ہے کہ کشمیر میں موجود حساس سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کے انبار پر بننے والی یہ حکومت کشمیر میں انتظامی اصلاحات اور تعمیر و ترقی کے لیے کس قدر عوامی حمایت حاصل کر پائے گی؟ اکثر مبصرین کو خدشہ ہے کہ یہ حکومت مدت کار پوری نہیں کرپائے گی۔ وہ مفتی سعید کے 40 سالہ سیاسی کیریئر کی مثال دیتے ہیں۔
میرٹھ میں ہوئے مسلم کش فسادات میں مفتی سعید نے بھارتی کابینہ سے استعفی دیا ، اس کے بعد انہوں نے کانگریس کو ترک کے اپنی تنظیم بنالی۔ 2002 میں اسی کانگریس کے ساتھ مشترکہ حکومت بنالی، مدت پوری ہونے سے قبل انہوں نے حمایت واپس لے لی۔ کیایہ مفتی سعید کے لیے کانٹوں کا تاج ہے ؟کیونکہ بی جے پی ہندو آبادی کو خوش کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرے گی اس کا بوجھ مفتی سعید کے ہی کاندھوں پر آئے گا ۔بحیثیت وزیر اعلیٰ ان کے پہلے بیان سے ہم آنے والے وقت میں اس خطے میں قیام امن کی حکمت عملی کا اندازہ کرسکتے ہیں۔
جب انہوں نے کہا کہ انتخابات میں بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور کشمیریوں کے مسلح و غیر مسلح رہنماؤں نے اس عمل کو ہونے دیا۔ وہ چاہتے تو اس میں رخنہ ڈال سکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ جمہوری فضا کی بحالی ہے۔پاکستان کی حکومت نے ہند نواز پی ڈی پی سے گذشتہ ہفتے اس وقت سرد مہری ظاہر کی تھی جب مفتی سعید کے خاص الخاص نعیم اختر کو ویزا دینے سے انکار کیا گیا۔ نعیم اختر اسلام آباد کے پالیسی ساز ادارہ جناح انسٹیٹیوٹ کی طرف سے منعقدہ ایک انڈو پاک کانفرنس میں مدعو کیے گئے تھے۔میڈیا نے پاکستانی دفتر خارجہ کے حوالے سے لکھا پاکستان سمجھتا ہے کہ صرف حریت کانفرنس کشمیریوں کی جائز نمائندہ جماعت ہے۔سجاد لون کی ہند نواز سیاست میں آمد پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیراعلی نے کہا :مجھے نہیں معلوم کہ کون کیا کرے گا، یہ ان (علیحدگی پسندوں) کا اپنا فیصلہ ہوگا لیکن سجاد لون نے ایک بریک تھرو کیا ہے اور ایک راستہ کھل گیا۔بی جے پی اور پی ڈی پی نظریاتی طور پر بہت مختلف ہیں۔ان تضادات پر مفتی سعید کا کہنا تھا: سیاست ممکنات کو تلاش کرنے اور تضادات سے نمٹنے کا فن ہے۔ یہ بے شک نارتھ پول اور ساؤتھ پول کو ملانے والی بات ہوگئی ہے لیکن دونوں پارٹیوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حکومت کو مستحکم بنانا ہے۔

مضمون نگار ہفت روزہ مشن کی مینیجنگ اڈیٹر ہیں 

«
»

ملک کی تقسیم کیلئے جناح سے زیادہ نہرو، پٹیل ذمہ دار

جرائم کے بڑھتے مانسون کے آگے انتظامیہ کی خودسپردگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے