لیکن علی کو کب وقت کا خیال تھا وہ دیر تک پڑھتا رہا اور تیاری کے بغیر ہی سو گیا اس لئے صبح جب آنکھ کھلی تو اس وقت متحان شروع ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی رہ گیا تھا ۔ ’’ امی آپ نے مجھے جلدعی نہیں اٹھایا دیکھئے ناں کتنا وقت ہو گیا ۔ ‘‘
امی نے جواباْ کہا ۔ ’’ بیٹا میں تو خود ہی دیر سے اٹھی ہوں ، تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں نیند کی گولی کھا کر سوتی ہوں اگر تمہارے پاپا گھر پر ہوتے تو وہی تمہیں اٹھا دیتے ۔ ‘‘
علی نے جلدی جلدی تیاری کی اور ناشرہ کئے بغیر ہی امتحان دینے چلاگیا ۔ جب وہ سینٹر پہنچا تو امتحان شروع ہو چکا تھا علی پہلے ہی دن پانچ منٹ لیٹ ہو چکا تھا بہر حال نگراں امتحان نے اس کو کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی اور ایڈ مٹ کا رڈ طلب کیا ۔
علی نے ایڈ مٹ کارڈ تمام جیبوں اور سامان میں تلاش کیا لیکن وہ اسے نہ مل سکا شاید وہ جلدی میں گھر پر ہی بھول آیا تھا ۔ علی نے نگراں امتحان کی منت سماجت شروع کر دی لیکن اس کا دل نہیں پسیجا اور اس نے فیصلہ کن لہجہ میں کہا ۔ ’’ بر خوردار آج چونکہ پہلا دن ہے اس لئے آپ کو امتحان کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ اور اس طرح علی اپنی بھر پور تیاری کے با وجود پرچہ نہ دے سکا جس کا اس کو بہت صدمہ ہوا ۔ باقی پرچوں میں اچھے نمبر لانے کے با وجود وہ ایک پرچہ میں غیر حاضر ہونے کی وجہ سے فیل ہو گیا ۔ اور وہ لڑکا جو اپنے کالج کے ذہین طلباء میں شمار ہوتا تھا اسے ایک پرچہ میں فیل ہونے کی وجہ سے بہت شرمندگی اٹھانی پڑ رہی تھی علی کا ایک سال تو ضائع ہوا لیکن اگلے سال اس نے امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا ۔ علی آج بہت خوش تھا کیونکہ اس کی پسند کی نوکری کا انٹرویو لیٹر آیا تھا کل اس کو انٹر ویو کے لئے بلا یا گیا تھا ۔ علی کی امی انٹر ویو والے دن مسلسل اس کو آوازین دے رہی تھیں ۔ ’’علی بیٹا اٹھو ! صبح کے آٹھ بج چکے ہیں اب اٹھ جاؤ ۔ ‘‘ اور علی صرف پانچ منٹ کہتے کہتے مزید ایک گھنٹہ گزر گیا ۔ جب امی کام سے فارغ ہوئیں تو دیکھا کہ علی ابھی تک سو رہا ہے انہوں نے اس کے اوپر پانی چھڑکا ۔ علی ہڑ بڑا کر بستر سے اٹھا اور جب اس کی نگاہیں دیوار پر لگی گھڑی پڑیں تو اس کے اوسان خطا ہو گئے ۔ کیونکہ گھڑی میں نو بج چکے تھے ۔ جبکہ انٹرویو کا وقت ساڑھے نو بجے تھا ۔ وہ جلدی جلدی تیار ہو کر بغیر ناشتہ کئے بس اسٹاپ پر پہنچا تو اس وقت ساڑھے نو میں پانچ منٹ رہ گئے تھے ۔ علی نے برابر کھڑے ہوئے مسافر سے پوچھا کہ بس کتنی پہلے یہاں سے گئی ہے ۔ انہوں نے جواب دیا صرف پانچ منٹ پہلے جیسے تیسے جب علی دفتر پہنچا تو کافی لیٹ ہو چکا تھا ۔ مینیجر نے اس کو اطلاع دی کہ جناب آپ کا کافی انتظار کرنے کے بعد پانچ منٹ پہلے ہی دوسرے صاحب کو اپائنٹ کر لیا گیا ہے اگر آپ پانچ منت پہلے بھی آ جاتے تو آپ کی اعلیٰ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ جاب آپ ہی کو ملتی لیکن اب تو ؟
علی بہت بہت افسردو ہوا اور بوجھل قد ہوں کے ساتھ گھر واپس آگیا اور اس کے کانوں میں صرف یہی الفاظ گونج رہے تھے ۔ صرف پانچ منٹ صرف پانچ منٹ ۔ علی نے نوکری سے دلبر داشتہ ہو کر اپنے والد کا کاروبار سنبھال لیا لیکن علی اتنا نقصان اٹھانے کے با وجود اپنی ’’ پانچ منٹ ‘‘ والی عادت سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکا ۔ وہ اپنا ہر کام پانچ منٹ پر ٹالتا رہا اور تو اور علی کی نماز بھی پانچ منٹ کی نذر ہو جاتی اور اپنے کسی دنیا وی کاموں میں مصروف ہو کر بھول جاتا ۔
علی کے والد نے اس کی اس عادت سے تنگ آکر اس کی شادی کر دی کہ شاید شادی کے بعد یہ عادت چھوٹ جائے ۔ شادی کے بعد اس کمی ذمہ داریوں میں اور اضافہ ہو گیا ۔ اور اب تو ان نئی ذمہ داریوں کے اضافہ کی وجہ سے علی کے پاس اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے پانچ منٹ بھی نہیں رہے تھے اور جب اس کے گلشن میں پھول کھلنا شروع ہوئے تو ان نو نہالوں کی وجہ سے اتنی مصروفیات بڑھ چکی تھیں کہ با وجود کوشش کے نماز کے لئے اور اپنے دینی فرائض کے لئے بھی وقت نہ نکال سکا ۔
وقت تیزی سے پر لگا کر اڑتا رہا علی کے ماں باپ ضعیف و نا تواں ہو چکے تھے ۔ اچانک ایک سال کے دوران ہی دونوں اس کو تنہا چھوڑ کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔ اس ناگہانی غم سے علی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگا ۔ لیکن وقت کے مرہم نے اس کے زخم کو مند مل کر دیا ۔
علی کی بیٹیاں اب جوان ہو چکی تھیں لہٰذا وہ اپنے اس فرض سے بھی سبک دوش ہو گیا ۔ اب علی اور اس کی بیوی گھر میں تنہا رہ گئے کیونکہ ان کا لڑکا کاروبار سنبھالنے صبح ہی چلا جاتا اس طرح ان دونوں کو تنہائی گھر میں کاٹنے کو دوڑتی ۔ علی نے سوچا کہ وہ اب لڑکے کی شادی کر دینی چاہئے تاکہ گھر میں بہو آئے اور گھر کی رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں ۔ علی نے اپنے بیٹے کی بڑے ارمانوں سے شادی کی لیکن شادی کے کچھ عرصے بعد بیتا اپنی بیوی کو لے کر علیحدہ ہو گیا ۔ علی کی زندگی میں بہت غم کے پہاڑ ٹوٹ چکے تھے لیکن آخر عمر میں بیٹے کی جدائی ایسا غم تھا جس کو اس کا دل برداشت نہ کر سکا اور اس کو دل کا دورہ پڑ گیا ۔ اس وقت اس کے صرف اس کی۸ بیوی تھی اس نے رونا دھونا شروع کر دیا ۔ پڑوسی اس کی چیک و پکار سن کر دوڑے ہوئے آ گئے اور فوراْ ڈاکٹر کو لے آئے جنہوں نے فوراْ علی کی دیکھ بھال کی دوائیاں تجویز کیں اور اس کو ہدایت کی کہ جب بھی خوشی یا غم کا موقع آئے یہ گولیان کھا لیا کرو یہ گولیاں ہر وقت اپنے پاس رکھا کرو ۔ علی ٹھیک ہونے کے بعد اپنے کاروبار میں مصروف ہو گیا کیونکہ بیٹے کی جدائی کے بعد زندگی کی ضروریات کے لئے پیسے کی ضرورت تھی ۔ لیکن علی کوزر کی کچھ زیادہ ہی ہوس تھی اور خدا کی عبادت کے لئے سوچتا رہ جاتا کہ ابھی پہت وقت پڑا ہے اللہ بڑا غفور و رحیم ہے معافی مانگ لیں گے وہ معاف کر دے گا ۔ آج بھی علی صبح دیر سے اٹھا تھا کہ دفتر سے مینیجر کا فون آگیا کہ سر آپ پانچ منٹ میں دفتر پہنچ جائیے بہت اچھی پارٹی آئی ہے اس سے ہم کو لاکھون کا فائدہ ہو سکتا ہے دوسری کمپنیوں کے لوگ بھی آئے ہوئے ہیں ۔ علی نے بے انتہاخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔ اچھا ٹھیک ہے میں ابھی پانچ منٹ مین پہنچ رہا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی ضروریات سے فارغ ہو کر بغیر ناشتہ کئے دفتر کے لئے چل دیا اور بیوی ناشتہ کے لئے روکتی رہ گئی ۔ علی کی بیوی نے تیاری کراتے وقت تقریباْپانچ مرتبہ دوا کی گولیاں رکھنے کو کہا اور علی ہر دفعہ پانچ منٹ صبر کرو کہا لیکن جلدی اور گھبراہٹ میں گولیاں رکھنا بھول گیا ۔
علی جب دفتر پہنچا تو اس کے مینیجر نے علی کو بتایا کہ ۔ سر کاش آپ پانچ منٹ میں آجاتے ۔ آپ کا انہوں نے بہت انتظار کیا اور پھر دوسری کمپنی نے اس پروجکٹ پر سائن کو دئیے ۔ یہ کہہ کر مینیجر ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کمرے سے چلا گیا ۔
علی کو اتنے بڑے نقصان سے سخت دھچکا لگا اور وہ یہی سوچتا رہا کہ کاش وہ پانچ منٹ پہلے آجاتا ۔ اپنی اس ناکی می پر اس کو بہت افسوس تھا۔ اس کو اپنا وہ وقت یاد آیا جب وہ نوکری کے لئے انٹر ویو دینے گیا تھا تو اس وقت بھی مینیجر نے یہی کہا تھا کہ جناب پانچ منت پہلے کسی کا انتخاب ہو چکا ہے ، کاش آپ پانچ منٹ پہلے آجاتے ۔ آج بھی وہی صورتحال تھی اور وہی جملے تھے ، فرق صرف اتنا تھا کہ اس وقت یہ جملہ بولنے والا مینیجر اس سے زیادہ وہ حیثیت رکھتا تھا اور آج یہ جملہ بولنے والا اس کا ماتحت تھا ۔ اچانک اس کے دل میں درد کی شدید لہر اٹھی شاید اسے دل کا دورہ پڑ رہا تھا ۔ وہ تکلیف سے دوہرا ہو گیا ۔ علی نے جلدی جلدی اپنی جیبیں ٹٹولنی شروع کیں ۔ اف میری گولیان کہاں گئیں ۔ لیکن وہ تو اس کی پانچ منت کی نذر ہو چکی تھیں اسی وقت اس کے دل میں درد کی ایک اور لہر اٹھی اور اب وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا تھا وہ اپنی مدد کے لئے آواز دینا چاہتا تھا لیکن اس کی زبان گنگ ہو چکی تھی ۔
اب اس کی موت اس کے سامنے کھڑی تھی ۔ اسے علم تھا کہ وہ مر رہا ہے اس کی آنکھون کے سامنے اس کی زندگی کی تمام فلم چل رہی تھی کہ ماضی میں اس نے آج تک جتنا پیسہ بہایا ہے وہ اس دوزخ کی آگ کو بجھا سکتا ہے جتنا کچھ بنایا ہے کیا وہ اس کی کوئی مدد کر سکتا ہے یہ نام و نمود میرے کسی کام نہیں ۔ اس نے تو سب کچھ دنیا کے لئے کیا ہے ۔ آخرت کے لئے کچھ بھی نہیں کیا ۔ میں نے تو اپنی ساری عمر ہی پانچ منٹ کے پیچھے گزار دی اور اب تو پوری زندگی ہی پانچ منٹ کی نذر ہو رہی ہے ۔
اس وقت علی کے دل میں خواہش ابھری کہ کاش اس وقت اس کو پانچ منٹ مل جائیں تاکہ وہ ان پانچ منٹوں میں زندگی کے گناہوں کو کچھ تو خدا کے حضور بخشوا لے ۔ معافی مانگ لے اور اپنے گناہوں کو دھوکر آخرت کے لئے کوئی سامان پیدا کر لے لیکن نہیں ہر گز نہیں ۔ موت کے فرشتے کو کسی بھی پانچ منٹ سے کوئی سرو کار نہیں وہ پانچ منٹ کی دیر سویر کئے بغیر ہی اپنا کام کر گیا ۔
جواب دیں