عام آدمی پارٹی کی دہلی انتخابات میں تاریخ ساز کامیابی پارٹی کی نہیں بلکہ عام آدمی کی کامیابی ہے جس نے مودی لہر کی پرواہ کئے بغیر ایک ایسی جماعت کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا۔ جو عام آدمی کے لئے سوچتی ہے۔ اس کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جس کے قائدین وی آئی پی ہونے کے باوجود اپنے آپ کو وی آئی پی کلچر سے دور رکھتے ہیں۔ جن کی باتوں میں سچائی محسوس ہوتی ہے‘ جن کے وعدے محض بہلانے کے لئے نہیں بلکہ کچھ کردکھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی میں جو کچھ ہوا‘ وہ دہلی کے عام آدمی کے اعتماد اور بھرم کو ٹھیس پہنچانے کے مماثل ہے۔ عام آدمی پارٹی کی کامیابی بلاشبہ اروند کجریوال کی شخصیت کا سحر ہے۔ کجریوال کی شخصیت اناہزارے جیسی ہستی پر تک بھاری رہی۔ مودی توا کو کجریوال نے دہلی میں ناکام بنادیا۔ ان سے اور ان کی پارٹی سے پورے ملک کو اور اس کے عوام کو بہت سارے توقعات وابستہ رہیں۔ مگر ایک پرانی بات کو ایک منصوبہ بند طریقے سے جس طرح سے میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر لاکر پارٹی کی ساکھ کو متاثر کیا گیا وہ قابل غور ہے۔ یوگیندر یادو کے عزائم پرشانت بھوشن کے ساتھ ان کی اروند کجریوال کو پارٹی سے ہٹانے کی سازشیں منظر عام پر آئیں جس سے پارٹی کے ارکان واقف تھے مگر میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آنے سے اختلافات اور بھی بڑھ گئے۔ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ پارلیمانی انتخابات میں ہندوستان بھر میں 400 سے زائد نشستوں پر عاپ کے امیدواروں نے مقابلہ کیا تھا اور انہیں تو شکست فاش ہوئی تھی مگر ان کی وجہ سے سیکولر ووٹ تقسیم ہوئے اور مودی کی قیادت میں بی جے پی کو قطعی اکثریت حاصل کرنے کے لئے راہ ہموار ہوگئی۔ تبھی عاپ کی اعلیٰ سطحی قیادت اختلافات منظر عام پر آگئے تھے اور یہ بات سامنے آچکی تھی کہ اتنی تعداد میں عاپ امیدواروں کو میدان میں اتارنے کے لئے یوگیندر یادو نے دباؤ ڈالا تھا۔ یوگیندر یادو اور کجریوال میں فاصلے تبھی سے محسوس کئے جانے لگے تھے۔ شاذیہ علمی کی عاپ سے دوری بی جے پی میں شمولیت اور پھر عاپ قیادت کے خلاف ان کی بیان بازی سے یہ ظاہر ہونے لگا تھا کہ پارٹی کے اندر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
عاپ بلاشبہ ایک دہلی کی حد تک محدود جماعت ہے۔ مگر دہلی ہندوستان کا پایہ تخت ہے۔ چونکہ مودی لہر کے باوجود اس کی کامیابی ہوئی تھی اس لئے اسے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس میں انتشار طئے ہے۔ بعض قائدین علیحدہ پارٹی تشکیل دیں گے یا کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ہندوستانی سیاست میں آئے دن جماعتوں میں پھوٹ ہوتی رہتی ہے جیسے حال ہی میں جتن رام مانجھی کو جب بہار کے چیف منسٹر کے عہدہ سے ہاتھ دھونا پڑا تو انہوں نے اپنی علیحدہ پارٹی قائم کرلی۔ وہ جنتادل یونائٹیڈ سے علیحدہ کردےئے گئے‘ خود جنتادل کی تقسیم کے بعد وجود میں آئی۔ اس کا دوسرا حصہ جنتادل سیکولر ہے‘ جنتادل کا وجود جنتاپارٹی کی پھوٹ کے بعد عمل میں آیا تھا۔ جنتا پارٹی بکھری تو ایک حصہ بی جے پی بن گیا۔ اسی طرح ہندوستانی سیاسی جماعتوں میں پھوٹ روایت کا ایک حصہ ہے۔ اگر اس تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو یاد آجائے گا کہ 1930ء کے دہائی میں انقلابی اور انتہا پسند کمیونسٹ جماعتیں دو حصوں میں منقسم تھیں‘ سوشیلسٹ اور کمیونسٹ‘ 1964ء میں سی پی ایم تشکیل دی گئی جو مغربی بنگال اور تریپورہ میں اثر و رسوخ کی حامل رہی جبکہ سی پی آئی کیرالا، مغربی بنگال اور بہار میں مخالف رہی۔ سی پی ایم انقلابی اور انتہا پسند تحریکات سے وابستہ رہی جبکہ سی پی آئی کانگریس کی حمایتی رہی جو 2009ء میں نیوکلیر پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے کانگریس سے دور ہوگئی۔ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے‘ گاندھی جی کے دور سے ہی کانگریس کی قیادت میں اختلافات رہے۔ موتی لال نہرو اور سی آر داس نے سواراجیہ پارٹی تشکیل دی تھی جو مقننہ میں انتخابات کے ذریعہ داخل ہونا چاہتے تھے۔ راج گوپال چاری اس کے مخالف تھے۔ گاندھی جی دونوں گروپس کا اتحاد چاہتے تھے تاکہ کانگریس متحدہ طور پر قوم کی خدمت کرسکے۔ یہ گاندھی جی کی کوششیں ہی تھیں کہ دونوں گروپس ایک ہوگئے اور سواراجیہ پارٹی تحلیل کردی گئی۔ پنڈت نہرو کے 1964ء میں انتقال کے بعد کانگریس میں اختلافات منظر عام پر آئے۔ تاہم 1964ء میں لعل بہادر شاستری اور 1966ء میں مسز اندرا گاندھی پارٹی میں پھوٹ کے بغیر وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوگئے‘ 1967ء کے عام انتخابات کے بعد پارٹی میں اس قدر انتشارپیدا ہوا کہ پارلیمنٹ میں اس کے ارکان کی تعداد 523سے گھٹ کر 280 ہوگئی تھی۔ 1969ء میں باقاعدہ پھوٹ پڑگئی۔ ایک گروپ اندرا گاندھی کے ساتھ ہوگیا تھا۔ 1971ء کے انتخابات میں اندرا گاندھی نے پارلیمنٹ کی 355نشستیں حاصل کرکے اپنی گروپ کی حامی کانگریس کو اصل قومی پارٹی کا موقف حاصل کروالیا۔ جگجیون رام کی بغاوت کے بعد کانگریس دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔ ایک حصہ اندرا گاندھی کی قیادت میں گانگریس آئی کہلانے لگا۔ 1989ء میں وی پی سنگھ جو کبھی اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے قریب ترین حلقے میں شامل تھے‘ علیحدہ ہوگئے اور ان کی قیادت میں جنتادل تشکیل دی گئی۔ پھر جنتادل میں بھی چندرشیکھر نے بغاوت کی‘ یہ پارٹی بھی بکھر گئی۔ آج کانگریس قومی سطح پر ایک کمزور پارٹی ہے۔ سونیا گاندھی پارٹی صدر ہیں مگر ایک طاقتور گروپ ان کا مخالف ہے۔ راہول گاندھی کو صدارت پر فائز کرنے کی مخالفت کی جارہی ہے۔ ایسا ہی حال بی جے پی میں ہے۔ مودی کی مقبولیت اور ان کی لہر کے آگے پارٹی کے سینئر قائدین بے بس ہوگئے یا کردےئے گئے۔
اڈوانی، مرلی منوہر جوشی جیسے سینئر قائدین کو کنارہ کردیا گیا۔ سشماسوراج بھی وزارت عظمیٰ کی دعویدار تھیں مگر مودی نے انہیں وزیر خارجہ بنادیا اور انہیں زیادہ سے زیادہ بیرونی دوروں میں مصروف کردیا تاکہ وہ ملکی سیاست اور پارٹی امور میں زیادہ دخل اندازی نہ کرسکے۔ بی جے پی پر مکمل گرفت آر ایس ایس کی رہی ہے۔ آر ایس ایس مودی کو مبینہ طور پر پسند نہیں کرتے۔ مگر حالات کے آگے اس نے مصلحت سے کام لینے کو ترجیح دی ہے اور جب بھی موقع ملے گا وہ مودی کے قدموں تلے سرخ قالین کو کھینچنے کی کوشش ضرور کرے گی۔ علاقائی جماعتوں میں ہر دور میں پھوٹ ہوتی رہی۔ این بھاسکر راؤ نے این ٹی آر کی علالت کا فائدہ اٹھایا۔ راتوں رات ارکان اسمبلی کو اپنی تائید میں لے کر غیر جمہوری طریقہ سے کانگریس کی حمایت سے حکومت تشکیل دی۔پھر چندرا بابو نائیڈو نے اپنے خسر راما راؤ کا تختہ پلٹ دیا۔ چندرا بابو نائیڈو کے خلاف پرچم بغاوت بلند کرکے کے چندر شیکھر راؤ نے تلنگانہ راشٹریہ سمیتی تشکیل دی اور 12برس بعد نہ صرف ایک نئی ریاست تلنگانہ کی تشکیل میں کلیدی رول ادا کیا بلکہ اس کے چیف منسٹر بن گئے۔ آسام ہو یا بہار، مغربی بنگال ہو یاکوئی اور ریاست۔ ہر جگہ ہر جماعت میں پھوٹ ہوتی رہی۔ اور یہ پھوٹ پڑنے کی کچھ وجوہات ہوا کرتی ہیں۔ ایک تو بعض مفادات حاصلہ کے حامل قائدین اونچی کرسی پر بیٹھنے کی خواہش کی تکمیل میں دوسری جماعتوں کے بھروسہ پر ایسے کام کرتے ہیں۔ کبھی ان کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو اُسے انقلاب کا نام دیا جاتا ہے اور ناکام ہوجائے تو اسے بغاوت کہا جاتا ہے۔ یقیناًاعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا ہر ایک کا حق ہے مگر اس کے لئے اس کا اہل ہونا بھی ضروری ہے۔ دوسروں کے لگائے ہوئے درختوں کی چھاؤں پر سب کا حق ہوسکتا ہے مگر پھل پر نہیں۔ایک اور وجہ جو پارٹی یا کسی ادارہ، کسی تحریک کو کمزور کرنے یا اس میں انتشار کی وجہ ہوسکتی ہے وہ اس پارٹی یا ادارہ کے کرتا دھرتا کی مطلق العنانی یا ڈکٹیٹر شپ۔ آمرانہ رویہ وقتی طور پر تو قبول اور برداشت کرلیا جاسکتا ہے مگر زیادہ عرصہ تک یہ ناقابل برداشت رہتا ہے۔ اقرباء پروری، جانبداری بھی اداروں کو کمزور کردیتی ہے۔ عاپ میں پرشانت بھوشن پر یہی الزام رہا کہ وہ اس پارٹی کو ایک خاندان کی پارٹی بنانا چاہتے تھے۔ ایک بات طئے ہے کہ کبھی بھی کسی ادارے، تحریک یا جماعت کو وہی نقصان پہنچا سکتا ہے جو اس سے پوری طرح واقف ہو۔ یہ سب سے زیادہ قابل اعتماد ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور سیاسی تاریخ کے اوراق اس کے گواہ ہیں۔ لہٰذا کسی بھی جماعت یا تحریک کے قائدین کو ہمیشہ اس بات کا خیال اور لحاظ رکھنا چاہئے کہ وہ خود ایسے رویہ سے اجتناب کرے جس سے ان کے رفقاء کی دل شکنی ہوتی ہو‘ جب دل شکنی ہوتی ہے تو قربت فاصلوں میں بدل جاتی ہے۔ عاپ میں بھی شاید ایسا ہی ہو‘ جو بھی ہوا افسوسناک ہے۔ اب عاپ کو مزید نقصان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہوگا۔ کیوں کہ یہ عاپ کا نہیں ہندوستانی عوام کا نقصان ہے۔ جمہوریت سادگی، اخلاص پر کسی کا ایقان باقی نہیں رہے گا۔
جواب دیں