فرقہ پرستوں کے شکنجے میں کستا جارہا ہے مہاراشٹر

کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ انتہا پسندانہ نظریہ رکھنے والوں کو کنارے لگایا جائے اور سماج میں ایسے لوگوں کو آگے لایا جائے جو انسانیت میں یقین رکھتے ہیں؟ گوند پنسارے مہاراشٹر میں کٹر وادی کی مخالفت کے لئے جانے جاتے ہیں اور ان پر جان لیوا حملہ سب کے لئے تشویش کی بات ہے۔ ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی انتہا پسندی کے خلاف باتیں کر رہے ہیں اور شدت پسندی کے خلاف سخت قدم اٹھانے کی یقین دہانی کر رہے ہیں تو دوسری طرف بی جے پی کے ہی اقتدار والی ریاست مہاراشٹر میں ایک ایسے انسان پر جان لیوا حملہ کیا جاتا ہے جس کی پوری زندگی شدت پسندی اور کٹر واد کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے گذری ہے۔ پولس کا دعویٰ ہے کہ وہ حملہ آوروں کو تلاش کر رہی ہے اور بہت سے لوگوں سے پوچھ تاچھ بھی کی جاچکی ہے مگر اب تک حملہ آور کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ غور طلب ہے کہ گزشتہ دنوں کمیونسٹ لیڈر گووند پانسرے اور ان کی بیوی اوما پر اس وقت فائرنگ کی گئی تھی جب وہ صبح کی سیر کے لئے نکلے تھے۔ ٹھیک اسی انداز میں نریندر ڈابھولکر کے اوپر بھی فائرنگ کی گئی تھی جب وہ اگست ۲۰۱۳ء میں مارننگ واک کے لئے نکلے تھے۔پولس کے مطابق فائرنگ کرنے والوں کی تلاش میں وہ زور وشور سے مصروف ہے.۔ وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس نے بتایا کہ پانسرے کی بیوی نے فائرنگ کرنے والوں کو دیکھا تھا۔ ان کی بیوی کے بتائے مطابق جلد ہی فائرنگ کرنے والوں کا خاکہ تیار کیا جائے گا. وزیر اعلی نے دعوی کیا کہ پولیس جلد ہی حملہ آوروں کو پکڑ لے گی۔
ممبئی پولیس کا کرائم برانچ معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ اس کے لئے 7 رکنی ٹیم بنائی گئی ہے. بتایا جاتا ہے کہ پولیس نے قریب 120 لوگوں سے پوچھ گچھ کی ہے لیکن ابھی تک کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی۔ اس حملے کی خبر سے بہتوں کو حیرت ہوئی ہے جن سماجی کارکنوں سے لے کر سیاستداں تک شامل ہیں۔ سماجی لیڈر انا ہزارے نے کہا کہ پانسرے پر حملے کی خبر سن کر وہ حیران ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر حکومت کو حملہ آوروں پر سخت کارروائی کرنی چاہئے۔ سی پی ایم لیڈر سیتا رام یچوری نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مسئلے کو مہاراشٹر حکومت کے سامنے اٹھائیں گے۔ وہیں شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے نے حملے کی تحقیقات کا حکم دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ این سی پی لیڈر شرد پوار نے بھی کہا کہ وہ پانسرے پر حملے کی خبر سے حیران ہیں۔ 
اُف یہ خون
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے قدآور بزرگ لیڈر گووند پنسارے اور ان کی بیوی پر صبح کے وقت حملہ ہوا تھا۔ دو نامعلوم حملہ آوروں نے گولی چلائی تھی جس میں وہ بری طرح زخمی ہوگئے تھے اور چند بعد ہی اسپتال میں انھوں نے دم توڑ دیا۔وہ ۸۲ سال کے تھے اور پیشے سے قانون داں تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اندھ وشواس اور کٹر واد کے خلاف جنگ لڑی اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان پر حملہ کا سبب یہی مہم بنی ہے۔ وکیل اور مصنف گووند پانسرے اور ان کی بیوی کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر ایس پی اوم پرکاش شرما نے بتایا کہ پانسارے کو ایک گولی گردن کے پیچھے لگی تھی اور ایک گولی ان کے ہاتھ کو چھوتے ہوئے نکل گئی۔ ان کی بیوی اوما پانسارے کو بھی ایک گولی لگی ہے اور اب بھی زیر علاج ہیں۔
سیاست کا کھیل
جہان ایک طرف پنسارے پر حملہ کے بعد مہاراشٹر کے سیکولر حلقوں میں تشویش کی لہر ہے وہیں دوسری طرف شیو سینا اوربی جے پی کے درمیان اس معاملے پر سیاست شروع ہوگئی ہے۔ شیوسینا کے ترجمان اخبار ’’سامنا‘‘ میں چھپا ہے کہ جب نریندر ڈابھولکر پر حملہ ہوا تھا تو ریاست میں کانگریس کی سرکار تھی مگر اب یہاں بی جے پی کی سرکار ہے اور قانون و امن کی صورتحال خراب ہوگئی ہے۔ اخبار نے پوچھا ہے کہ اس حملے کے لئے کون ذمہ دار ہے؟ حالانکہ اس نے حملے کی مذمت بھی کی ہے۔غور طلب ہے کہ شیو سینا خود بھی اس سرکار کا حصہ ہے مگر وہ جہاں ایک طرف اقتدار کے مزے لے رہی ہے وہیں وقت بے وقت سرکار پر تنقید کرکے خود کو اپوزیشن کی جگہ بھی دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ سامنا میں خود شیو سینا نے اپنی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ جب اندھ وشواس کے خلاف جدوجہد کرنے والے سماجی کارکن نریندر دابھولکر کا قتل ہوا تھا تب ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی، اس وقت اسے اس کے لئے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھامگر اب پنسارے پر ہوئے حملے کی ذمہ داری آخر کون لے گا؟ شیوسینا نے کہا ہے کہ لاچاری کی حالت یہ ہے کہ وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ ریاست میں قانون کی صورت حال خراب ہے کیونکہ حکومت میں وہ بھی شامل ہے۔اگر کسی اور کی حکومت ہوتی تو بلا جھجھک یہ الزام لگایا جا سکتا تھا۔ شیوسینا کا کہنا ہے کہ پنسارے بنیاد پرست ہندو نظریے کے ہمیشہ خلاف رہے۔ شیواجی مہاراج پر لکھی ان کی کتاب بھی تنازعات میں گھری رہی ۔ بہت سے لوگوں کو ناتھورام گوڈسے کے بارے میں ان کے خیالات بھی اچھے نہیں لگے تھے لیکن اس سب کے باوجود پنسارے کے سماجیکاموں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 
شیوسینا نے اپنے ترجمان سامنا کے اداریے میں لکھاہے کہ جب آفتاب طلوع ہورہا تھا اور اس کی پہلی کرنیں دنیا کو روشن کر رہی تھیں تب ہی پنسارے پر گولیاں برسائی جا رہی تھیں۔ یہ سب کچھ ہمارے اپنے مہاراشٹر میں ہو رہا ہے اور حکومت بدل جانے کے باوجود ہو رہا ہے۔ادارتی مضمون میں کہا گیا کہ حکومت ہماری ہے، اس لئے ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ قانون اور نظام کی صورتحال بگڑ گئی ہے اور ملزم آزاد گھوم رہے ہیں. اگر صوبے میں کوئی اور حکومت ہوتی تو کوئی ان الفاظ سے اسے لتاڑ سکتا تھا
دو قتل ،ایک جیسے
مہاراشٹر کے وزیر داخلہ رام شندے نے واقعہ کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قصورواروں کی تلاش کے لئے ریاست میں تمام راستوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔کیا گووند پانسارے اور ان کی بیوی پر جان لیوا حملہ اندھ وشواس کے خلاف جنگ چھیڑنے والے پونے کے ڈاکٹر نریندر دابھولکر قتل کیس سے کوئی تعلق رکھتا ہے؟ دابھولکر وہی شخص تھے جو حکومت پر مسلسل اندھ وشواس مخالف بل پاس کرنے کا دباؤ بنا رہے تھے۔ گووند پانسرے بھی ایک اندھ وشواس مخالف کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ نریندر دابھولکر کے قتل کے بعد انہوں نے ریاستی حکومت پر اندوشواس مخالف بل پاس کرنے کا دباؤ بنایا تھا۔ انہوں نے اپنے کارکنان سے دابھولکر کے مشن کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھانے کو کہا تھا۔ یاد رہے کہ دابھولکر کے قتل کی گتھی آج تک سلجھ نہیں پائی ہے۔۲۰۱۳ء میں ان کے قتل کے بعد پولیس کو سی سی ٹی وی فوٹیج میں فائرنگ کرنے والا شخص بھی دکھا جس کا خاکہ جاری کیا گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق خاکہ والا شخص موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھا تھا اور اس نے ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ انہی دھندلی تصویروں کی بنیاد پر پونے کرائم برانچ کی ٹیموں نے جگہ جگہ چھاپے مارے، لیکن آج تک قاتل گرفت میں نہیں آئے۔سوال یہ ہے کہ کیا دونوں لیڈروں پر قاتلانہ حملہ کسی ایک ہی سازش کا حصہ ہے؟ کیا اس کے پیچھے وہ طاقتیں ہیں جو نہیں چاہتیں کہ اس ملک میں کٹر واد اور فرقہ پرستی کے خلاف کوئی تحریک چلے؟ یہ بات اس لئے بھی کہی جاسکتی ہے کہ دونوں لیڈروں پر حملہ ایک ہی انداز میں کیا گیا ہے۔ مہاراشٹر وہ صوبہ ہے جہاں آرایس ایس کی بنیاد پڑی اور شیوسینا کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے۔ یہاں کٹر واد کے خلاف لڑائی بہت مشکل ہے مگر گوند پنسارے اور دابھولکر جیسے لوگ پھر بھی میدان میں ڈٹے رہے ہیں۔ مہاراشٹر ہی وہ ریاست ہے جہاں بابائے قوم ناتھو رام گودسے کے نظریات کے حامی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور ایک تنظیم مدت سے اس کے یوم وفات کو احترام واحتشام کے ساتھ مناتی رہی ہے۔
یہ سوچنے کا وقت ہے
پنسارے اور دابھولکر پر حملے کے بعد پورے ملک کے لئے قابل غورلمحہ ہے کہ اس قسم کی طاقتوں کو اگر ابھی سے کنٹرول نہیں کیا گیا تو مستقبل میں ملک کی جمہوریت کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے۔ یہاں شدت پسندی کی دوسری مثالیں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ یہاں ایک فیس بک پوسٹ کے سبب خون خرابہ ہوجاتا ہے ۔ ایسے میں اس قسم کی ذہنیت کا فروغ کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ شدت پسند لیڈران جو جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں انھیں بھی اس پہلو پر سوچنا چاہئے۔ ایسا نہیں کہ قانون کو ہاتھ میں لینے اور خون خرابہ کرنے کا
یہ رجحان یہیں تک محدود رہے گا بلکہ اس سے خود انھیں بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ آج بھارت میں اس بات پر تشویش ظاہر کی جاتی ہے کہ پیرس میں حملہ ہوگیا اور شدت پسندوں نے خون خرابہ کیا مگر اس سے زیادہ تشوشناک بات ہے مہاراشٹر کے کولہا پور میں ایک سماجی کارکن پر قاتلانہ حملہ اور وہ بھی صرف اس لئے کہ وہ شدت پسندی کے خلاف ہے۔

«
»

ملک کی تقسیم کیلئے جناح سے زیادہ نہرو، پٹیل ذمہ دار

جرائم کے بڑھتے مانسون کے آگے انتظامیہ کی خودسپردگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے