شیواجی اور مسلم حکمرانوں کی جنگ سیاسی تھی

فی الحال ملک میں کئی جگہ مذہبی تعصب پھیلایا جارہا ہے ۔ جسکی وجہ سے عوام کو اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھونا پڑ رہاہے۔ اقتدار کی ہوس کی وجہ سے سیاسی ٹولا مذہب کا استعمال کرکے فسادات رونما کرتا ہے۔ شیواجی مہاراج کی جئے کہہ کر گھروں کو آگ لگائی جاتی ہے تو کہیں کسی کی جان لی جاتی ہے۔ شیواجی مہاراج کانام لے کر سماج میں زہر گھولنے میں یہ ٹولہ کامیاب ہورہاہے۔ شیواجی مہاراج مذہبی ہم آہنگی کے قائل ہی نہیں بلکہ دلدادہ تھے۔ اُنکے سوراج کو مذہبی رنگ دیا جاتا ہے۔ انھیں مسلم مخالف وہندو محافظ حکمران کے طورپر پیش کیا جاتاہے۔
شیواجی مہاراج ایک محب وطن تھے۔دنیا میں کوئی بھی انکی جنگی مہارتوں کا اندازہ لگا سکتاہے۔ ایسا بہادر انسان مراٹھی (مہاراشٹر کی) سرزمین میں پیدا ہوا اس پر فخر کیا جانا چاہیے۔ لیکن انہی کے نام پر سیاسی جماعتیں اپنی دکانیں کھولے بیٹھی ہیں اوراپنی اپنی روٹیاں سیک رہیں ہیں۔ شیواجی مہاراج مسلم مخالف نہیں تھے ، انکے فوج میں کئی مسلم سردار و ماتحت حکمراں تھے۔مہاراج کے توپ خانے کاذمہ دار ایک مسلمان تھا۔ بحری بیڑے کا ذمہ دار دریا سارنگ دولت خان نامی مسلمان تھا۔ یہی نہیں بلکہ شیواجی مہاراج کے محافظ دستے میں بھی مسلمان شامل تھے۔اس وقت سماج کی تقسیم مذہبی بنیاد پر نہیں تھی۔ شیواجی مہاراج کے فوج میں مسلم سپاہی موجود تھے جو مغلو ں کے خلاف لڑتے تھے اور مغلوں کی فوج میں شامل ہندو سپاہی شیواجی مہاراج کے خلاف لڑتے تھے۔ شیواجی مہاراج نے اپنی فوج کوکسی بھی مسجد و مذہبی کتب کی بے حرمتی نہ کرنے کاحکم دے رکھا تھا۔ شیواجی مہاراج کے معاصر مورخ خافی خان اپنی فارسی تصنیف ’’ منتخب الباب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’ اگر جنگ میں قرآن مجید و دیگر کتب ہاتھ آتیں تو شیواجی مہاراج اسے لے کر مسلم خادمین یا مسلم فوجی کے حوالے کردیتے۔ ہندو ،مسلم عورتیں جو قید ہوکر آتیں شیواجی مہاراج نے اپنی فوج کو انکی سخت حفاظت کا حکم دیا انھیں اپنی ماں اور بہن کی طرح عزت کرنے کا حکم دیا تھا۔ شیواجی مہاراج کی فوج میں مسلم سپاہیوں کے ساتھ ساتھ عیسائی سپاہی بھی موجود تھے۔ شیواجی مہاراج کو ایک مسلم صوفی یاقوت بابا سے گہری عقیدت تھی جنھیں شیواجی مہاراج اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے۔ 
شیواجی مہاراج کا نظریہ سوراج کی تشریح موقع پرست سیاسی جماعتوں نے اپنے اعتبار سے گھڑ لی ہیں۔ جبکہ اس کے تصور کو واضح کرنے کے لیے شیواجی مہاراج کااتنا جملہ کافی ہے،’’ یہ حکومت سب کی، سبھی طبقوں کی محافظ‘‘۔ سوراج کا نظریہ عام رعایا کی بھلائی کے لیے قائم کیا گیا۔ اس لیے اس کی حفاظت حکومت کا فرض اور عوام کی ذمہ داری ہے۔ انکی فوج میں جان کی بازی لگانے والوں میں الگ الگ مذاہب اور طبقوں کے لوگ تھے۔ 
شیواجی مہاراج افضل خان کی آنتیں چیرنے کے منظر کو شیواجی مہاراج کے یومِ پیدائش ہی نہیں بلکہ گنیش اتسو و دیگر مذہبی تہواروں میں بھی ایک مخصوص طریقے سے پیش کیاجاتاہے۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ شیواجی مہاراج مسلم مخالف تھے اور مسلمان انکے کڑے دشمن تھے۔یہی نہیں تو ہمارے تاریخ کے لکئنے والوں نے بھی اس کام کوبڑی صفائی سے انجام دیا ہے۔تاکہ ان سب کو ہندو مسلم رنگ دے کر الیکشن میں اپنی روٹیاں سینکی جا سکے۔اگر شیواجی مہاراج اسلام یا مسلم مخالف ہوتے تو اسی افضل خان کی احترام کے ساتھ شاہی سرپرستی میں تدفین نہیں کرواتے۔
شیواجی مہاراج کی پہچان دنیا بھر میں اتحاد و اتفاق کی علامت بن کر ابھر رہی ہے ۔ انھوں نے سبھی مذاہب و طبقوں کی عوام کو اکٹھا کر کے سوراج کا قیام عمل میں لایا۔ انکے محافظ دستے میں، بحری بیڑے میں مسلمانوں کی کثیر تعداد شا مل تھی۔ فو ج میں تقریباً 35% مسلم سپاہی موجود تھے۔ اسکے علاوہ دیگر پسماندہ طبقات جیسا کہ، مراہٹے، مہار، مالی، بھنگی، آ دیواسی، بھنڈاری،لوہار، ستار وغیرہ سبھی موجود تھے۔ اسی طرح کنڑی، تامل، کیرل، گجراتی وغیرہ دیگر ریاستوں کے اور وہاں کے باشندوں کی مدد سے سوراج کی بنیاد ڈ الی گئی اور سبھی کو مدہب،علاتے، ذات پات کی بنیادوں کو ڈھاکر ’ ماولے‘ اس لفظ سے سب کو متحد کردیا ۔ اسی اتحاد کی قوت سے سوراج کا قیام عمل میں آیا۔
آج ملک و دنیا میں بڑھتے ہوئے فسادات اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے شیواجی کی طرح مذہبی رواداری کے منصوبے پر عمل کرنا چاہیے تا کہ ملک میں امن قائم ہو ۔ اس کے بجائے شیواجی مہاراج مسلمانوں کے سحت ترین دشمن تھے ایسا جھوٹا پرچار کچھ امن مخالف تنظیمیں لگاتار کرتی آرہی ہیں۔ آج 21 ویں صدی میں مذہبی ہم آہنگی، کسان کو اہمیت دینے ،سائنسی نظریات کی حامل ، عورتوں کی عزت دینے والی، تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے والی، ماحولیات کو تحفظ عطا کرنے والی ، ملک کی ترقی کے لیے کوشاں ، لسانی عصبیت سے پاک ، بہترمستقبل تعمیر کرنے والی، نوجوانوں کے لیے مثالی و دیگرمیدانوں میں قولی و عملی طور پر کھری اترنے والی حکومت کی ضرورت ہے۔ شیواجی مہاراج کی مغل، نظام ، عادل شاہ وقطب شاہ سے جنگ سیاسی جنگ تھی نہ کہ مذہبی۔ سیاسی محالفین تھے ۔ اسی طرح پرتگیز ، ڈچ، فرینچ اور انگریز وغیرہ سے بھی شیواجی مہاراج نے لڑائیاں لڑی تھیں۔
آج سماج کا پسماندہ، انپڑھ طبقہ تعلیم سے آراستہ ہورہا ہے۔ نوجوان جاہلانہ سوچ سے آزاد ہونے لگے ہیں۔خود کو شیواجی مہاراج کی تہذیب کا حصہ ماننے لگا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک بھر میں فرقہ وارانہ ذہنیت ختم ہونے لگی ہے۔ ایسے میں جب سماج کے تئیں ذمہ داری کا جذبہ عوام میں پروان چڑھنے لگاہے۔ مسلمان اس تبدیلی سے علحدہ کیسے رہ سکتا ہے۔
چھترپتی شیواجی مہاراج کا ہندوئی سوراج مسلمانوں کے مخالف تھا اور شیواجی مہاراج مسلمان مخالف تھے ،ایسی جھوٹی تاریخ کی تشہیر 400 سو سالوں سے مہاراشٹر کے تاریخ داں اور سیاسی گروہ خود کے فائدے کے لیے کر رہے ہیں۔ جسے دیکھ کر ذہن میں ایک ہی سوال اٹھنے لگتاہے کہ شیواجی مہاراج اگر مسلم مخالف تھے تو کیا انکی فوج میں موجود مسلم سپاہی ایمانداری سے اپنی خدمات کی انجام دہی کرتے کیا؟ جب شیواجی مہاراج کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے والے مسلم فوجیوں و سرداروں کا تعارف ہمیں ہونے لگے گا تو ساری غلط فہمیاں خود بخود دور ہوجائیں گی۔شیواجی مہاراج کی پیادہ فوج کا پہلے سردار نور خاں بیگ تھے۔گھوڑ سواروں کی تربیت کے لے محمد سائیس نامی مسلم سردار نامزد تھے جن کے ذمہ فوج کے لیے اچھی نسل کے گھوڑوں کی خریداری اور انکی تربیت ، نئے سپاہیوں کو شہ سواری سکھانا جیسی اہم خدمات تھیں۔ یہی نہیں تو شہزادہ سمبھاجی کو بھی شہ سواری انھیں محمد سائیس نے سکھائی تھی۔
شیواجی مہاراج کے بحری بیڑہ کے ذمہ دار دولت خان کو تو ہم سب جانتے ہی ہیں۔ لیکن انھیں کے ساتھ داؤد خان، ابراہیم خان ،سلطان خان جیسے کئی مسلم سردار موجود تھے۔ بحری بیڑہ میں ایک سے بڑھ کر ماہرسردار مسلم ہی تھے۔ یہی نہیں شیواجی مہاراج نے اپنے توپ خانے کا ذمہ دار ایک مسلمان کو ہی بنایا تھا اور توپ خانے کے سبھی ملازم مسلم ہی تھے۔ آپ کے محافظ دستے کے60 میں سے 20 محافظ مسلمان تھے۔ 1672میں مغل شہ سوار دستہ کے 1000 شہ سواروں کے چار دستے سوراج میں شامل ہوگئے۔ اسکے علاوہ سبھی ساحلی قلعوں کے نگہبان مسلم ہی تھے۔ شیواجی مہاراج کی فوج میں ہی مسلم سپاہی تھے ایسا نہیں بلکہ عدالتی اور حکومتی نظام میں بھی انہیں شامل کیا گیاتھا۔ شیواجی مہاراج کا جاسوسی محکمہ ،خارجہ پالیسی کے نگہبان ملاقاضی نامی ماہر عربی وفارسی مسلم سردار تھے۔ شیواجی مہاراج نے اتنا اہم عہد ہ ایک مسلم سردار کو دے رکھا تھا۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ شیواجی مہاراج کو ان پر کتنا بھروسہ تھا۔ اسی وجہ سے شیواجی مہاراج نے ملا قاضی حیدر کو جج بھی منتخب کیاتھا۔ قاضی حیدر رائے گڑھ کے جج منتخب کئے گئے ۔ انکے زمانے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے اعتراض کیا ہو کہ اس کے مقدمے کا فیصلہ غلط کیا گیا۔
شیواجی مہاراج کی فوج میں موجود مسلم بھی ان پر جان چھڑکتے تھے۔ مسلم سپاہیوں نے کبھی شیواجی مہاراج سے غداری نہیں کی۔ بلکہ سدی ہلال اور مداری مہتر نام کے جاں نثار مسلم سردار تو شیواجی مہاراج کے ساتھ ہر جنگ میں شریک رہتے جب سدی ہلا ل کالڑکا سوراج کے لیے جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوگیا تو سدی ہلا ل رنجیدہ ہونے کے بجائے فخر کرنے لگے کہ ان کے بیٹے نے سوراج کے لیے جان دیتے ہوئے آدابِ فرزندی اداکیے۔ اگر شیواجی مہاراج مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی جنگ لڑتے تو بھی اسلام کے پیرو سپاہیوں نے کبھی مخالفت نہیں کی کیونکہ شیواجی مہاراج ایک اچھے حکمراں اور رعایا پرور حاکم تھے۔ 
اگر اب بھی کوئی اعتراض کرے کہ جاگیروں کے لالچ میں کافی تعداد میں ہندو سپاہی بھی اورنگ زیب سے جا ملے تھے تو انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ شیواجی مہاراج نے جاگیریں دینے کے نظام کو بند کردیا تھا تب بھی انکی فوج میں تقریباً 35% سپاہی مسلمان تھے۔ شیواجی مہاراج کی مذہبی رواداری اس واقعہ سے ہوتی ہے ۔ جب شیواجی مہاراج نے تاجپوشی کے موقع پر رائے گڑھ کے قلعے و شہر کی تعمیر کا حکم دیا اور ذمہ داری ایک برہمن موروپنت پنگلے کو دی جب تعمیرات تکمیل کے قریب پہنچی تو شیواجی مہاراج نے ساری تعمیرات کا دورہ کیا اسکے بعد موروپنت سے کہا کہ موروپنت پنگلے تم نے جگدیشور کا مندر تو تعمیر کردیا لیکن میرے مسلم فوجیوں کے لیے مسجد کہاں بنائی جس پر موروپنت پنگلے کوئی جواب نہیں دے سکے ۔ اس پر شیواجی مہاراج نے فوراً حکم دیا کہ مسلمانوں کے لیے فوراً مسجد تعمیر کی جائے ۔ بلکہ شیواجی مہاراج نے مسجد کے لیے اپنے محل کے سامنے کی جگہ بھی منتخب کی تھی جہاں حکم کے مطابق مسجد تعمیر کی گئی۔
( New History of Maratha : G.S. Sardesai )
ایک طرفرائے گڑھ میں موجود مسلم رعایا کو دیکھ کر شیواجی مہاراج نے ان کے لیے شاہی خزانے سے مسجد تعمیر کروائی اور آج کے دور میں شیواجی مہاراج کا نام لے کر مساجد کو توڑا جاتا ہے یہ شیواجی مہاراج کے اصولوں کی تذلیل نہیں تو اور کیاہے ؟ 
ایک دفعہ بیجاپور سے 700 پٹھان فوجی شیواجی مہاراج کی فوج میں شامل ہونے کی غرض سے شیواجی مہاراج کے دربار میں حاضر ہوئے۔ شیواجی مہاراج نے ان سب کو فوج میں بھرتی کرلیا۔جس پر ایک برہمن وزیر نے اعتراض کیاتھا۔ وقت آتے ہی شیواجی مہاراج نے اُن پٹھان فوجیوں کواُس اعتراض کرنے والے برہمن وزیر کے ہمراہ کلیان کی مہم پر روانہ کیا جس میں پٹھانوں نے فتح پائی۔ کلیان کے قلعے کا محافظ ملا محمد اپنے ساتھ جتنا خزانہ لے سکتا تھا لے کر اپنے اہل وعیال کو قلعے میں ہی چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ کیونکہ اسے پتہ تھا کہ شیواجی مہاراج نے اپنے سپاہیوں کو خواتین کی عزت کاحکم دیا ہے ۔ لیکن فوج کے ساتھ آئے اس برہمن وزیر نے ملا محمد کی ایک خوبصورت بہو کو چوری سے صندوق میں بند کر شیواجی مہاراج کی خدمت میں پیش کردیا۔ شیواجی مہاراج نے اپنے کردار کا اتنا گرا اندازہ لگانے والے اس برہمن کو سخت سست سنایااور اس خاتون کو اپنی منہ بولی بہن بنا کر زیور کپڑوں سے آراستہ کر اسے باعزت بیجاپور روانہ کردیا۔
شیواجی مہاراج سے نہ صرف رائے گڑھ، سوراج کے مسلمان ہی محبت کرتے تھے بلکہ دیگر ریاستوں کے مسلم بھی آپ سے محبت کرتے تھے۔بیجاپور کی سازشوں سے آپکو خبردار کرنے والا فر د بھی مسلم ہی تھا۔ شیواجی مہاراج کی جنگ کسی مذہب یا اسلام یا کسی طبقے کے خلاف نہیں تھی بلکہ عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف تھی جسکی وجہ سے آپ کے ساتھ بہادر مراٹھے ہی نہیں بلکہ وفادار و جاں باز مسلم سپاہی و سردارا ن بھی تھے جنھوں نے مرتے دم تک شیواجی مہاراج کا ساتھ دیا۔ شیواجی مہاراج عدل پسند،دوراندیش بہادر انسان تھے۔ انہوں نے مسلمان، دلت عوام سبھی کو اپنے ساتھ لے کر سوراج قائم کیا۔ انکی اخلاقی تربیت انکی والدہ نے کی اپنے والد سے انہوں نے حکمرانی و ریاستی نظم و نسق کی تربیت حاصل کی۔
1677 میں شیواجی مہاراج اور حیدرآبادکے سلطان ابوالحسن کی ملاقات بھی تاریخ میں یادگار ہے۔ جس وقت شیواجی مہاراج کرناٹک کی مہم پر روانہ ہورہے تھے تب حیدرآباد کے سلطان ابوالحسن نے شیواجی مہاراج کو دوستی کی پیش کش کی اور ملاقات کے لیے مدعو کیا ۔ شیواجی مہاراج نے کرناٹک مہم پر نکلنے سے پہلے اپنی فوج کو سخت تاکید کر دی کہ حیدرآباد کی سرزمین میں عوام اور انکے کھیتوں کو نقصان نہ پہنچے اگر کسی نے اس حکم کو توڑا تو اسکی انگلیاں یا پھر ہاتھ بھی کاٹا جا سکتا ہے۔جب شیواجی مہاراج حیدرآباد پہنچے تو انکا شاہانہ استقبال کیا گیا ۔ سلطان ابوالحسن نے شیواجی مہاراج کو گلے سے لگایا، شاہی عطر لگاکر اور حسب روایت پان پیش کر شیواجی مہاراج کا استقبال کیا۔ سلطان ابوالحسن نے شیواجی مہاراج کو جواہرات تحفے میں دئے۔
حیدرآباد میں ایک مہینے تک قیام کرنے کے بعد شیواجی مہاراج کرناٹک کی مہم پر روانہ ہوئے۔ اس مہم کے لیے دکن کے قطب شاہی سلطان ابوالحسن تاناشاہ نے شیواجی مہاراج سے برادرانہ تعلق قائم کرتے ہوئے گھوڑے،مال و دولت اوربھاری مقدار میں جنگی سازو سامان دے کر روانہ کیا۔ریاست دکن ( حیدرآباد) میں ملی اس عزت کا ذکر شیواجی مہاراج نے اپنے دستاویزات میں کیا جس میں یہ تذکرہ بھی موجود ہے کہ قطب شاہی سلطنت اورشیواجی مہاراج میں یہ دوستا نہ معاہدہ طے ہوا کہ شیواجی مہاراج اپنی سلطنت کی جتنی چاہے اتنی توسیع کرسکتے ہیں۔ البتہ دکن کی حکمرانی قطب شاہی حکمرانوں کے لیے ہی رہے گی ۔
شیواجی مہاراج کی ایک نادر تصویر جس میں انھیں اپنے حفاظتی دستے کے ساتھ جس میں مسلم محافظ واضح نظر آتے ہیں ایک اطالوی سیاح نکولس منوچی کے سفر نامے’’ استوریہ دی منگور‘‘ میں موجود ہے جسے ایک ماہرمسلم فنکار میر محمد نے بنائی تھی ۔
غرض کہ شیواجی مہاراج ایک مذہبی روادار مثالی حکمراں تھے لیکن آج کے مفاد پرست سیاستدانوں نے اپنی فسطائی ذہنیت کا استعمال کر کے شیواجی مہاراج کی غلط شبیہ عوام میں پھیلا رکھی ہے ۔ ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو شیواجی مہاراج کی اصل تاریخ سے واقف 
کرائیں تاکہ فسطائی ذہنیت کے حامل مفاد پرست سیاست دانوں کی چالوں کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔

«
»

ملک کی تقسیم کیلئے جناح سے زیادہ نہرو، پٹیل ذمہ دار

جرائم کے بڑھتے مانسون کے آگے انتظامیہ کی خودسپردگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے