کسی بڑے تحریک کار کی اصل کامیابی یہی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے کاموں کو بھی اپنے اجتماعی کام کا حصہ بن جانے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ہندستان کی قومی تحریک میں بھگت سنگھ اور گرم دَل کے لوگ گاندھی سے مختلف تھے لیکن ا?ج کا مورّخ یہی نتیجہ اخذ کرے گا کہ گاندھی کی قیادت میں جو تحریک چلی، اسی کا ایک جزو بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی تھے۔
شبلی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس اور ایم۔اے۔او۔ کالج سے براہِ راست متعلّق تھے لیکن علی گڑھ کے زمانے میں ہی شبلی کا بعض امور میں سرسیّد سے الگ نقطہ? نظر کا حامل ہونا ثابت ہے۔ اسی لیے علی گڑھ سے علاحدگی کے بعدشبلی زندگی کے باقی پندرہ سولہ برسوں میں دوتعلیمی اداروں کے بنیاد گزار اور سرگرم کارکن بنے: ’’ندو? العلما‘‘ اور ’’دارالمصنفین‘‘۔ یہ دونوں ادارے علی گڑھ تحریک کی معلوم سمت سے الگ راستوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔سر سیّد سے مطالعہ? تاریخ اور گذشتہ کے احتساب کا جو پیمانہ وضع ہوا، حالی اور شبلی دونوں نے اسے اپنے ڈھنگ سے قائم رکھا۔ شبلی نے تاریخی مطالعے کو کچھ یوں بنیادی کام سمجھ رکھا کیوں کہ بہ قولِ مہدی افادی:’’شبلی سے تاریخ لے لیجیے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔‘‘شبلی کی پہلی مختصر تصنیف سے لے کر ’سیر? النبی‘ تک؛ تاریخی مطالعہ، قومی فکر اور اجتماعی زندگی کو اپنی کوششوں سے بہتر بنانے کا اْن کے ہاں جوجذبہ کارفرما نظر ا?تا ہے، اسے سرسیّد کی قیادت میں اس عہد کی اجتماعی فکر کا حصّہ سمجھنا چاہیے۔
علی گڑھ تحریک کے تمام مقاصد کی بنیاد تعلیم میں سمجھی گئی اور سر سید اپنے عہد کے دانش وروں کے ذہن میں یہ بات ڈالنے میں کامیاب ہوئے کہ قومی ترقی اور انقلاب کے لیے تعلیم کے بغیر کامیابی نہیں حاصل کی جاسکتی۔ایسا نہیں ہے کہ سرسیّد، نذیر احمد، حالی ، شبلی، محمد حسین آزاد اور ذکاء4 اللہ سب کے سب سرسید کے چوکھٹے میں ہی رہ کر تعلیم کے تصوّرات کو سمجھتے تھے۔ سرسید سے کچھ نے حسبِ ضرورت اختلاف کیا، کسی نے بَرملا اور کسی نے ضمنی طور پر۔ علی گڑھ کالج سے نکل کر شبلی جب ’ندو? العلما‘ کی نظامت سنبھالتے ہیں اورپھر’دارالمصنفین‘ تک کا سفر طے کرتے ہیں تو اسے عَلَی الاعلان سر سیّد کے تعلیمی نقطہ? نظر سے اختلاف ہی کہنا چاہیے۔ نذیر احمد اور حالی ادارہ جاتی طور پر ایم۔اے۔او۔کالج سے متعلّق ہوئے بغیر رفقا میں شامل رہے تو اس سے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حالی اورنذیر احمد سرسیّد کے کاموں میں شریک رہتے ہوئے بھی اس ادارے یا تحریک کی مخصوص سمت سے مکمل طور پر اتفاق نہیں رکھتے تھے یا تمام کاموں میں سرسیّد کے ساتھ موجود نہیں رہنا چاہتے تھے۔ سر سید کی وفات کے بعد حالی اور شبلی سولہ برس زندہ رہے اور قومی کاموں میں نہ صرف یہ کہ سرگرم رہے بلکہ ملکی قیادت اور سربراہی کی فکری ذمّہ داریوں سے عہدہ برآ د ہوتے رہے۔ آخری وقت تک قومی تعلیم کے فروغ اور توسیع کے معاملات سے دونوں کا شوقِ بے پایاں کم نہ ہوا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم کو بنیادی کام بنانے کی مہم جو سرسید کے زمانے میں شروع ہوئی تھی، وہ اب بھی قائم رہی۔
بہت سارے اختلافات کے باوجود شبلی سرسیّد کی عظمت اور خدمات کے قائل رہے۔ حالی نے بھی ’حیات جاوید‘ میں کبھی ضمنی طور پر یا بعض اوقات بین السطور میں سر سیّد کے سلسلے سے اپنے تحفّظاتِ ذہنی کے اشارے کیے ہیں۔ شبلی اور حالی کی وفات کے سو برس پورے ہوئے اور سر سیّد کی پیدایش کے اب دوسوبرس ہونے کو آئے؛ ایسے میں کیا یہ موزوں نہیں معلوم ہوتا کہ سر سیّد، حالی اور شبلی کے مثلث کو بہ غور سمجھا جائے اور اس بات کا محاسبہ کیا جائے کہ اواخرِ انیسویں صدی میں علی گڑھ تحریک کے پلیٹ فارم سے جس نئی قومی شیرازہ بندی اور نشا? الثانیہ کی داغ بیل پڑی، سرسیّد کے رفقا بالخصوص حالی اور شبلی نے ان کے ساتھ کتنی دور تک سفر کیا اور کیا سر سیّد سے مختلف راہ اختیار کرنے میں بھی وہ کامیاب ہوئے؟ کون کس حد تک خود بدل رہا تھا یا قوم کو بدل رہا تھا یا اپنے عقائدمیں تبدیلی چاہتا تھا؟ کَج مَج راستوں اور پیچیدہ عملی مواد کے ساتھ اس موضوع کا معروضی جائزہ ہمارے لیے فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ا?ج یہ احتساب کا موقع ہے کہ حالی اور شبلی سر سید کے بتائے راستوں پر کس حد تک ساتھ ساتھ چلے اور کس قدر اس سے مختلف راہ پر گامزن ہوئے؟ یہ کام شبلی اور حالی کے تعلیمی نقطہ? نظر میں ا?ئی تبدیلیوں کے جائزے کے بغیر ممکن نہ ہوگا۔
شبلی جب علی گڑھ پہنچے تو وہ ایک عالِم ضرور تھے لیکن علی گڑھ کے تعلیمی ماحول نے انھیں نئے خیالات اور تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ کیا۔ وہ رفتہ رفتہ اپنے تاریخی کاموں کی طرف سرسید کی ذہنی قیادت میں ہی بڑھے جسے ا?ج شبلی کا اختصاص سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی امور میں بھی سرسید کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ ان موضوعات پر سب سے پہلے نئے انداز میں کام کرنے والوں میں عظمت کے حامل ہیں۔
شبلی اور سر سیّد کی عمر میں چالیس برس کا فرق تھا اور اس لیے فطری طور پر دونوں دو نسلوں کے تسلیم کیے جائیں گے جن کی درمیانی کڑی الطاف حسین حالی ہیں لیکن ہم عصر دستاویزات شاہد ہیں کہ شبلی سرسیّد اور حالی سے تقریباً ہم مشر بانہ رفاقت رکھتے تھے۔شبلی کی علمی حیثیت ایسی تھی جس کے سبب ان کے بزرگ بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ شبلی کی وفات پر عبدالحلیم شرر نے اپنے رسالے میں جو دو مضامین لکھے، ان میں شبلی اور سرسیّد کے تعلقات کا کچھ ا?نکھوں دیکھا حال درج ہوا ہے جس میں ان کے نتائج کچھ اس طرح سامنے ا?تے ہیں:
’’جس قدر سیّدصاحب کی دقیقہ رَسی اور وسعتِ نظر کے مولانا قائل ہوتے جاتے تھے، اس سے زیادہ سیّد صاحب ان کی تلاش و جستجو اور جلبِ روایات کے معتقد و معترف ہوگئے تھے۔‘‘ (حیاتِ شبلی، ص ۷۲۱)
سرسید سے شبلی کے اختلافات کی نوعیت پر غور کریں تو یہ بات ازخود واضح ہوجاتی ہے کہ دونوں کا ذہنی سانچہ بالکل مختلف تھا۔ علی گڑھ پہنچنے کے بعد جو اْن کا پہلا رسالہ سامنے آیا یعنی ’مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم‘ ؛اس میں ترجمے کی زبان، حکومت کی زبان اور عمومی تعلیم جیسے مسئلوں پرسر سیّد کے سلسلے سے شبلی کے تنقیدی تاثرات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ مسائل کے حل کے لیے دونوں کی تجویزیں مختلف ہیں۔ آگے چل کر حکومت پرستی اور انگریز پرستی سے جب مقابلہ ہوا تو دونوں میں بْعدِ مشرقین نظر آتا ہے کیوں کہ کبھی شبلی کو انگریزوں کی تعلیمی جستجو اور ترقی پسند آتی تھی لیکن کئی بارانگریزاپنی بعض کج ادائیوں کی وجہ سے ناپسند ہوتے ہیں۔ سرسیّد اس معاملے میں برطانوی حکومت کے صالح عقیدت مند تھے۔
شبلی اور سرسیّد میں اکثر ہدف کا اختلاف نہیں۔ دونوں قومی بیداری کے طلب گار ہیں لیکن تشخیص میں مختلف ذرائع کے استعمال کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ ادارہ سازی کی جہت ، سیاسی اور مذہبی فکر کا رْخ اور کس حد تک حکومت سے تعاون کریں اور کس حد تک ہم وطنوں کی تحریک میں شریک ہوں، اس طرح کے ہر سوال میں شبلی اور سرسیّدایک دوسرے سے الگ ہوتے گئے۔
شبلی اور سر سیّد مشرقی اور مغربی تعلیم کے شعبوں میں بھی ایک دوسرے کے ہم مزاج نہیں تھے۔اس کا ایک سِرا انگریز پرستی سے جْڑتا تھا جس میں ابتدائی عہد کے بعد شبلی سر سیّد سے بہت دور تھے۔ملک میں نئی تعلیم کا خاکہ گڑھا جا رہا تھا اور اس کی متعدّد انواع و اقسام اور شاخیں نکلنا شروع ہو رہی تھیں۔ سر سیّد کی فکر پورے طور پر یک رْخے انداز میں میدانِ عمل میں تھی۔ ملکی زبان میں تعلیم اور نئے نصاب میں مقامی عنا صر کی شمولیت جیسے معاملات میں سر سیّد اور شبلی اس قدر دور ہوتے گئے جیسے یہ دو دنیاؤں کے باسی ہوں۔ شبلی اپنی وفات سے دو ہفتے پہلے مسعود علی ندوی صاحب کو ایک خط میں صاف صاف لکھتے ہیں :
’’افسوس ہے کہ مجھ کو اصولی امر میں اختلاف ہے۔میں تیس برس سے مسلمانوں کی حالت پر غور کر رہا ہوں۔ خوب دیکھا، اصلی ترقی کا مانع وہی گراں زندگی ہے جو سیّد صاحب سکھا گئے۔‘‘
سر سیّد اور شبلی کے اختلافات حقیقت میں جدید ہندستان کی تعمیر و تشکیل کے دو علاحدہ راستوں کی غمّازی کرتے ہیں۔انیسویں صدی اس ملک کی تشکیلِ نو اور نئے راستوں کی طرف بڑھنے کے اسباب و عَلَل پیدا کرنے کے لیے سب سے معتبر زمانہ ہے۔اسے نشاء الثانیہ یوں ہی نہیں کہتے۔ ہندومسلمان سب مل کر یا الگ الگ اپنے حصّے کی مستعدی اور تمام تر صلاحیتوں کا استعمال کر کے اپنے ملک کے لیے طرح طرح کے خواب دیکھ رہے تھے۔ کسی کو سماجی اصلاح کی فکر ہے تو کوئی تعلیم کو موضوع بنا رہا ہے۔یہاں بھی ایک کو انگریزی رنگ چاہیے اور دوسرا روایتی تعلیم کا طلب گار ہے۔ ایک طبقہ ہے جو انگریزوں سے تعاون کر کے خود کو یا قوم کو ترقی دینا چاہتا ہے اور ایک طبقہ ہے جسے انگریزوں سے نجات چاہیے۔نظریا ت کے الجھاوے اور ایک دوسرے اندازِ نظر سے جنگی کیفیات کا بھی سماں ہے۔انگریزوں سے لڑنا ہے تو وہاں بھی کوئی تشدّد چاہتا ہے اورکوئی عدم تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر مْصِر ہے۔اس گْتّھم گْتّھا اور بحرانی ماحول کی ایک نسل سر سیّد ہیں تو دوسری نسل شبلی۔ ہمارے لیے یہ آسان نہیں کہ یہ طے کر دیں کہ کس کا راستہ درست ہے یا کس راستے سے بڑھ کر قوم کو کامیابی ملے گی۔ ایک اور سوال اس عہد میں موزوں تھا کہ کس راستے سے ہم ادھوری منزل پائیں گے اور کس سے منزلِ مقصود تک پہنچیں گے۔یہ سوالات ہمارے قومی معماروں کے تصوّرات ہی تھے جو پانی پر کھنچے گئے نقوش کی طرح سے تھے لیکن انھیں ان نقوش کو صحیح خد و خال عطا کرنا تھا۔
سر سیّد نے ضرور ہندستانی قوم کی تشکیلِ نو کا ایک خواب دیکھا تھا جس میں انھوں نے تعلیم کو نسخہء کیمیا تصوّر کیا لیکن وہ رفتہ رفتہ حصولِ ملازمت اور پھر حکومت کی پسندیدہ زبان میں تعلیم کے خو گر ہو گئے۔ان کی تنظیمی استعداد نے پورے ملک کی سطح پر نئی تعلیم کے خاکے کو کس طرح زمین پر اْتارا جائے، اس کے لیے کوئی بنیادی کام کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔مسلم ایجوکیشنل کانفرنس بھی بالآخر علی گڑھ کالج کی ایک ذیلی کمیٹی کے طور پر بن کر رہ گئی۔نئی تعلیم کے خاکے میں مذہبی تعلیم اور سیاسی فکر کی حسبِ ضرور ت شمولیت کے باب میں سرسیّد خاموش رہے۔یہ سر سیّد کی وقتی مصلحت تھی لیکن وہ اس دائرے سے باہر نہیں نکل پائے۔
علی گڑھ تحریک کے اثرات اس قدر دائمی ہوئے ،اس کا سب سے بَڑا ثبوت یہ ہے کہ انھی رفقا کے درمیان ایسے افراد پیدا ہوئے جو سر سیّد سے اختلاف کر سکتے تھے اور بدلتے ہوئے عہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے سر سیّد کی خامیوں یا کمیوں کا علاج بھی ڈھونڈسکتے تھے۔شبلی حلقہ سر سیّد کے فرزندان میں ان سے اختلاف کر کے حقیقت میں سر سیّد کے باقی ماندہ کاموں کو کرنے کا ہی ارادہ رکھتے تھے۔شیخ عبدا للہ اور خواجہ غلام ا لثقلین نقوی نے سر سیّد کی وفات کے فوراً بعد علی گڑھ میں ہی لڑکیوں کا مدرسہ قائم کر کے حقیقت میں سر سیّد سے اختلاف کا کوئی بگل نہیں پھونکا تھا بلکہ وہ علی گڑھ تحریک کے ادھورے کاموں کو انجام تک پہنچا رہے تھے۔’ندوۃا لعلما‘ اور ’دار ا لمصنفین‘ بھی ایسے ہی ادارے تھے جو حقیقت میں علی گڑھ تحریک کے بنیادی مقاصد یعنی ہندستانی مسلمانوں کی تعلیم سے وجود میں آئے تھے اور جو کا م علی گڑھ کالج میں اس وقت تک شروع نہیں ہو سکا تھا، اسے وقت رہتے لکھنو اور اعظم گڑھ میں شروع کر دیا گیا تھا۔آج اگر ہمیں سر سیّد اپنے مقاصد میں کامیاب نظر ا?تے ہیں تو ان کے مجموعی کاموں کی جن کمزوریوں کی اصلاح ان کے رفقا نے کی، انھیں بھی ہم اس احتساب کا حصّہ مانتے ہیں۔
شبلی سر سیّد کی وفات کے سولہ برس بعد تک زندہ رہے۔انھوں نے فیضانِ سر سیّد کو سرسیّد کے زمانے میں بھی دیکھا تھا اور اس گلشن کو اپنی شکل میں بڑھتے اور بکھرتے دیکھ رہے تھے۔محسن ا لملک اور وقار الملک کے نام حالی کے خطوط اس بات کے گواہ ہیں کہ حالی بھی علی گڑھ کی انگریز پرستی سے ناخوش تھے اور اصلاح کے خوگر تھے۔شبلی تو سر سیّد کی زندگی سے ہی بہت سارے معاملات میں ان سے مختلف افکار و نظریات کا اظہار کر چکے تھے۔اس لیے سر سیّد سے شبلی کے اختلافات علی گڑھ تحریک کی تکمیل کا ایک محضر نامہ مرتّب کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سے جیسے تحریکِ آزادی ہند کے معاملے میں بھگت سنگھ ،مہاتما گاندھی
کے مخالف نہیں بلکہ ہماری قومی تحریک کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ شبلی کو قدرت نے بہت کم وقت دیا ورنہ اس بات سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا کہ وہ جنگِ آزادی میں سر گرمی سے شریک ہوتے اور نہ جانے کتنے ایسے اور معاملات آتے جہاں وہ سر سیّد کے راستے کو چھوڑ کر نئی شاہ راہوں کی تلاش میں کامران ہوتے۔کسی زندہ قوم کی زندہ قیادت کا یہ خاص انداز ہے جسے ہمیں قبول کر لینا چاہیے۔
جواب دیں