اس پرقابو پانے کی نہ کسی کو فکر ہے اور نہ کوئی ضرورت محسوس کررہا ہے مذکورہ ان اسکولوں میں اخلاقی تعلیم کے نام پر ہندو بچوں کو پڑھایا جارہا ہے کہ رام جنم بھومی کیلئے اب تک ۷۸ جنگیں لڑی جاچکی ہیں اور تین لاکھ ہندو ان میں اپنی قربانی دے چکے ہیں، سنگھ پریوار کے ان اسکولوں میں پڑھائی جارہی کتابوں میں مسلمہ قومی قائدین مہاتما گاندھی، پنڈت نہرو، مولانا آزاد، رفیع احمد قدوائی، دادا بھائی نوروجی، گوپال کرشن گوکھلے، لالہ لاجپت رائے کا ذکر تک نہیں ہے، صرف چند مقامات پر مہاتماگاندھی اور گوکھلے کے نام درج ہیں لیکن قومی معماروں کی فہرست میں ان کا حوالہ نہیں ہے، معلومات عامہ کے تحت قومی پرچم کی تفصیلات میں ترنگے کو سب سے نیچے رکھا گیا ہے سب سے پہلے ہندو اوتار ، رام اور کرشن،اس کے بعد چندر گپت، وکرمادتیہ، پرتھوی راج چوہان، کرشنا دیورائے، مہارانا پرتاپ، شیواجی اور گرو گوبند سنگھ کے پرچوں کا ذکرملتا ہے۔ ان کتابوں کو پڑھانے والوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ طلباء کو ان کی تعلیم دیتے وقت ہندوتوا کے تحفظ کا عہد لیں، سنگھ کے نصاب تعلیم میں جدید ہندوستان کے بارے میں بمشکل ۱۰ فیصد معلومات ملتی ہے اور ۹۰ فیصد نصاب میں ہندو مذہب اور اس کی تفصیلات کو سمویاگیا ہے۔
اسی طرح سنگھ کے اسکولوں میں جو تاریخ پڑھائی جارہی ہے اس میں فرقہ پرستی کے زہر کو نہایت دیدہ دلیری کے ساتھ بھردیا گیا ہے، ودیا بھارتی ہو اکھل بھارتیہ شکھشا سنستھان یا دوسرے ناموں سے چلائے جارہے تعلیمی اداروں میں حکومت کی منظور شدہ نصابی کتب پڑھائی جانی چاہئے لیکن جملہ اصول وقواعد کو بالائے طاق رکھ کر جن کتابوں کے ذریعہ تعلیم دی جارہی ہے وہ ہندوتوا سے رچی بسی ہیں، خاص طور پر ایسی تاریخ داخل نصاب ہے، جس میں آرائی نسل کی ہندوستان میں آمد کے تعلق سے عام مورخوں کے تسلیم شدہ نظر یہ کے برعکس یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آریائی کسی دوسرے ملک یا براعظم سے ہندوستان نہیں آئے بلکہ وہ یہیں کے باشندے تھے حالانکہ تمام مورخین اس پر متفق ہیں کہ آریائی مغربی یورپ سے ہندوستان منتقل ہوئے اور یہاں آنے کے بعد ، وہ اسی ملک میں ہمیشہ کیلئے آباد ہوگئے، مورخوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ابتداء میں آریائی نسل کے لوگ محض لوٹ مارکرنے کی غرض سے وارد ہوئے تھے، انہوں نے ہندوستان کی حقیقی آبادی دراوڑوں کی مارکاٹ کرکے انہیں جنوبی ہند کی طرف ڈھکیل دیا، تب سے ان کی بڑی آبادی اچھوتوں کی حیثیت سے وہیں آباد ہے جبکہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی رگوں میں جو خود کو ملک کا مختار کل سمجھنے کی ذہنیت میں مبتلاء ہیں، حملہ آور آریائیوں کا ہی خون دوڑ رہا ہے۔
تاریخ مسخ کرنے کی یہ کوشش درحقیقت اسلئے ہورہی ہے کہ ہندوستان پر حملہ آور کی حیثیت سے صرف مسلمانوں کو پیش کیا جاسکے اور آریائی نسل کے لوگوں کو جو آج ملک کی سیاست وقیادت پر قابض ہیں اور سنگھ پریوار کے نور نظر بھی ان کو مذکورہ الزام سے بری کردیا جائے۔
اس سے قبل تاریخ کو ہندو۔ مسلمانوں میں تقسیم کرنے کا کام انگریز حکمرانوں نے شروع کیا تھا تاکہ نئی تاریخ کے ذریعہ دونوں فرقوں میں تفریق پیدا کی جاسکے اور اس کا سیاسی فائدہ انگریز حکمراں اٹھاسکیں لیکن سنگھ پریوار کے وسیلہ سے تاریخ کو مسخ کرنے کے ایک نہیں کئی مقاصد ہیں، وہ مسلمانوں کو حملہ آور باور کرانے کے ساتھ ساتھ ان کو ظالم، جابر، بے کردار، او باش اور ہندوکش ثابت کرکے ملک میں ایک ایسی فضا بنانا چاہتا ہے جو اس کے سیاسی عزائم کی تکمیل میں معاون بن سکے، یہ کام آج سے نہیں آزادی کے بعد سے اس وقت شروع ہوگیا تھا جب بعض نام نہاد مورخوں نے تاج محل، قطب مینار اور جامع مسجد کی عمارتوں کو ہندو راجاؤں سے منسوب کرکے اس شدت کے ساتھ دروغ گوئی کی تکرار کی کہ نئی نسل کا ایک حصہ جھوٹ کو سچ سمجھنے لگا، آج سنگھ سے متعلق عناصر جب یہ کہتے ہیں کہ وہ تمام علامتیں جو مسلم حملہ آوروں کے عہد کی یاد دلاتی ہیں ان کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا جائے تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ مسلم دور کی تاریخی عمارتوں کو ہندو عمارتیں تسلیم کرلیا جائے اور وہ لوگ جن کے آباؤ واجداد نے خوف یا لالچ سے اپنا مذہب تبدیل کردیا ان کو دوبارہ اپنی تہذیب وثقافت سے جوڑا جائے۔
نصاب تعلیم کا تعین اور تیاری ریاستی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں جس کے تحت سنگھ کی تابع بعض ریاستی سرکاریں بھی یہ کام انجام دے رہی ہیں تاکہ ابتدائی اور ثانوی درجات میں جو پڑھایا جائے اس سے نئی نسل ہندوتوا کی طرف راغب ہوسکے
جواب دیں