سونیا اور راہل کو نوشتۂ دیوار پڑھنا چاہئے

اگر سونیا گاندھی راہل گاندھی اور دوسرے کانگریسی لیڈر یہ جاننا چاہیں کہ مقبولیت کسے کہتے ہیں؟ تو وہ اس خبر کو پڑھ لیں جو دوسرے اخبارات اور ٹی وی یا ریڈیو سے بھی وہ سن چکے ہوں گے۔
اسی تقریب میں میڈیا کے ایڈیٹروں نے مسز سونیا گاندھی سے اس شہرت کی تصدیق چاہی جو ہر ایک کے علم میں آچکی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اپریل میں کانگریس سیشن کے دوران یہ اعلان کردیا جائے کہ ستمبر میں سونیا صاحبہ کی صدارت کی مدت ختم ہونے کے بعد مسٹر راہل گاندھی کو کانگریس کا صدر بنا دیا جائے گا۔ جواب میں مسز سونیا گاندھی نے اس خبر کی تردید نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ راہل صدر بنائے جائیں گے تو سب کو اطلاع مل جائے گی۔ مسٹر راہل کے چھٹی پر جانے کا اعلان کرتے ہوئے کانگریس کے لیڈروں نے کہا تھا کہ وہ کچھ غور و خوض کے لئے تنہائی میں کچھ وقت گذارنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے بھی جانشین کا مسئلہ تھا۔ ان کے بیٹے ممتاز بھٹو اور شاہ نواز بھٹو تیز طرار ہونے کے باوجود اس کے اہل نہیں تھے کہ انہیں وہ اپنا جانشین بناتے۔ یہی وجہ تھی یا کوئی اور وجہ کہ انہوں نے اپنی بیٹی بے نظیر کو اپنا جانشین بنایا ایک بات یہ بھی دیکھی گئی ہے کہ اکثر سیاسی لوگ کسی بہت مشہور اور محبوب لیڈر کی نقل کرکے اتنے ہی مقبول بننا چاہتے ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی پوری قیادت کے دوران اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو ساتھ رکھا۔ پنڈت جی کی پتنی شریمتی کملا نہرو کا آزادی سے پہلے ہی انتقال ہوچکا تھا اور اندرا گاندھی اپنی سیمابی طبیعت کی بناء پر اپنے شوہر فیروز گاندھی کو چھوڑکر اور اپنے دونوں بچوں کو لے کر باپ کے پاس آچکی تھیں۔ فیروز گاندھی سے ہم تو کبھی نہیں ملے لیکن ہمارے کئی دوست ایسے تھے جن کا فیروز گاندھی سے بہت تعلق رہا ان سب کا یہی کہنا تھا کہ وہ ایک مثالی انسان اور شرافت کا پیکر تھے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ملک میں کوئی ایسا نہیں ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ فیروز گاندھی نے اپنے بچوں کے لئے کسی بھی قسم کی کوشش کی ہو کہ وہ اُن کے پاس رہیں اور نہ انہوں نے دوسری شادی کی جو اُن کی اندراگاندھی سے محبت کی دلیل ہے۔
شاید اسی کو سامنے رکھ کر مسٹر بھٹو بھی اپنی بیٹی بے نظیر کو شادی سے پہلے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد جو دو لاکھ کے قریب پاکستان کے بڑے چھوٹے فوجی اور غیرفوجی افسر ہندوستان کی عارضی جیلوں میں پڑے تھے ان کی رہائی کے لئے جب مسٹر بھٹو مسز اندرا گاندھی سے مذاکرات کرنے کے لئے شملہ آئے تو بے نظیر ان کے ساتھ تھیں۔ ہوسکتا ہے مسٹر بھٹو اندراجی کے جذبات بھڑکانے کے لئے انہیں ساتھ لائے ہوں کہ انہیں یاد آجائے گا کہ وہ بھی ہر ملک کے دورے پر اپنے والد کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ شاہ سعود سے ملنے کے لئے جب پنڈت جی گئے تب بھی وہ اُن کے ساتھ تھیں۔ اور پھر جب مسٹر بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تو عوام نے ممتاز یا شاہ نواز کو نہیں بے نظیر کو اُن کا جانشین بنایا اور وہ آخر تک پاکستانیوں کی محبوب لیڈر ہیں۔
ہم یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ مسز سونیا گاندھی کس قدر کشمکش کا شکار ہوں گی ان کی بیٹی پرینکا ایک کم حیثیت کے آدمی کی بیوی اور دو بچوں کی ماں ہونے کے باوجود بہار کے ایک بہت ممتاز لیڈر کی دولھن بنی بیٹی راج لکشمی اور اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ کی بیوی دو بچوں کی ہی ماں اور ممبر پارلیمنٹ ڈمپل یادو اور نہ جانے کن کن ممتاز شخصیتوں کے ہجوم میں شمع محفل بنی ہوئی تھیں اور آپ نے پڑھ لیا کہ جب تک وہ رہیں کسی نے اُن کے علاوہ کسی کی طرف نہیں دیکھا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ سونیا جی نے کل اور اس سے پہلے رائے بریلی، امیٹھی اور نہ جانے کہاں کہاں اور کب کب یہ منظر نہ دیکھا ہو کہ ؂
لاکھ ستارے ہر طرف ظلمتِ شب جہاں جہاں
ایک طلوعِ آفتاب دشت و چمن سحر سحر
وہ اگر کانگریس کو زندہ رکھنا چاہتی ہیں اور یہ بھی چاہتی ہیں کہ ملک پر حکمرانی الہ آباد کے آنند بھون اور گجرات کے گاندھی خاندان کی ہی رہے تو انہیں راہل صاحب کی شادی کردینا چاہئے اور انہیں اس پر آمادہ کرلینا چاہئے کہ وہ اپنی بہن کے حق میں دستبردار ہوجائیں۔ رہے سونیا کے داماد اور راہل کے بہنوئی تو وہ پرینکا کی ایک جذباتی غلطی ہیں جنہیں کسی بھی حق کے بغیر وہ سب حاصل تھا جو بے نظیر کے شوہر آصف زرداری کو وزیر اعظم کے شوہر ہونے کی وجہ سے حاصل تھا وہ مسٹر دس فیصدی بچہ بچہ کی زبان پر تھے اور وہ رابرٹ سے بہت آگے کی چیز تھے اس کے باوجود نصرت بھٹو نے ممتاز یا شاہنواز کے لئے کوئی جدوجہد نہیں کی۔
سونیا گاندھی کو ایک کڑوا گھونٹ یہ ضرور پینا پڑے گا کہ پرینکا کو وہ اس پر آمادہ کرلیں کہ اگر اُن کے شوہر نامدار اُن کی شہرت اور عزت کی پروا نہ کریں تو وہ بھی اپنے دونوں بچوں کو لے کر اپنی ماں اور بھائی کے پاس چلی آئیں لیکن وہ کانگریس کو ملک کی پہلی بڑی مخالف پارٹی سوشلسٹ پارٹی کمیونسٹ پارٹی سوشلسٹ پارٹی سوتنتر پارٹی اور ری پبلک پارٹی کی طرح تاریخ کا ورق بننے سے بچالیں۔ ہم دل پر جبر کرکے لکھ رہے ہیں کہ قیادت کے لئے وجاہت اور شخصیت کا پرکشش ہونا بھی مقبولیت میں بہت مددگار ہوتا ہے اور یہ پیدا کرنے والے کے اختیار میں ہے کہ کسے کیسا بناتا ہے اندراجی کے بیٹوں میں سنجے پرکشش نہیں تھے اسی لئے وہ عوام کے محبوب کبھی نہیں رہے راجیو گاندھی سیاست سے دور دور رہتے تھے لیکن جس دن انہوں نے سنجے کی جگہ سنبھالی انہیں نانا اور ماں کی محبوبیت میں سے بھی حصہ ملا۔ بہتر ہوگا کہ سونیا گاندھی دیوار پر لکھا ہوا پرینکا کا نام پڑھ لیں اور بیٹے کی محبت اقتدار پر قربان کردیں ورنہ کانگریس کے قتل کی ذمہ داری لینے کیلئے اپنے کو تیار کرلیں۔

«
»

پانچ منٹ

ہندوستان تمام مسلمانوں اور انسانوں کا آبائی وطن ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے