عالمی سطح پر دنیا کے بیشتر ممالک میں ہونے والے خودکش حملے،بم دھماکے،فائرنگ، قتل و غارت گیری، لوٹ مار، عصمت ریزی ، ہم جنس پرستی، جیسے گھناؤنے اور ظلم و زیادتی کے واقعات کی وجہ ملک میں ناخواندگی میں اضافہ، ادب و اخلاق کی تعلیم و تربیت ندارد، مذہبی تعلیم سے دوری، بڑوں کے ساتھ عزت و احترام اور چھوٹوں کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آنے کے احساس کا فقدان، رشتہ دار، عزیز و اقارب، دوست احباب، پڑوسیوں کے ساتھ زندگی گزارنے کی تربیت سے محرومی وغیرہ ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر جرائم اوردہشت گردی کو جنم دیا ہے۔ عالمی سطح پر جن ممالک میں آج دہشت گردانہ کارروائیاں خطرناک موڑ اختیار کرگئیں ہیں ان ممالک کا جائزہ لیا جائے تو اوپر دےئے گئے اسباب کی وجوہ ان میں دکھائی دیتے ہیں۔ بعض ممالک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی ملکی قوانین و ضوابط کو پامال کررہے ہیں اور کئی جرائم میں ملوث پائے جارہے ہیں اس سلسلہ میں اگر تحقیق کی جائے تو یہی اسباب ان نوجوانوں میں بھی پائے جارہے ہیں یعنی ادب و اخلاق اور اعلیٰ کردار کا نہ ہونا، مذہبی تعلیم و تربیت سے محرومی اور بڑوں کی تعظیم و تکریم اور چھوٹوں سے پیار و محبت کی کمی کا عدم احساس ہے۔ آج ترقی یافتہ ممالک ہو ں کہ ترقی پذیر یا معاشی طور پر پسماندہ ممالک ۔ دہشت گردانہ کارروائیاں کسی نہ کسی بہانے ان ممالک میں انجام دی جارہی ہیں۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی انجام دہی کے تناظر میں دیکھا جائے تو مذہبی اور مسلکی اعتبار سے یا پھر نسل پرستیکی وجہ سے دکھائی دے رہی ہیں۔انسان اگر ہر روز خود اپنا محاسبہ کرتے ہوئے دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے اور انکی خوشی و غم کو اپنی خوشی و غم سمجھے تو اس ملک کے تمام عوام خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔
ہر ملک کے قوانین و ضوابط جسے انسانوں نے مدون کئے ہیں اس میں وقتاً فوقتاً کمی ، زیادتی یا بدلاؤ لانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور بعض ممالک میں حکمراں عوام کے مفاد کو پیشِ نظر رکھکر قوانین مرتب کرنے ترمیم کرنے کے بجائے اپنے مفاد حاصلہ کے لئے ترمیم کرتے ہیں تو اس سے ملک کا نظام درہم برہم ہوتا ہے اور عوامی احتجاج اور پھر حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے آثار جنم لیتے ہیں ۔ لیکن خدائی قانون یعنی شریعت مطہرہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جہاں نفاذ ہے اس میں کسی قسم کی ترمیم نہیں کی جاسکتی اور ایسے ممالک میں جہاں شرعی قوانین نافذ ہیں اور ان ممالک میں قرآن و احادیث نبوی ﷺ و سنتِ رسول ﷺ کی تعلیمات سے بچوں کو آراستہ کیا جاتا ہے ان ممالک میں جرائم کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔شرعی قانون کے نفاذ میں ہی امن و امان کا قیام ممکن ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون پر بھی جو عوام کے مفاد میں ہوں اس پر اگر عمل کیا گیا اورکسی بھید بھاؤکے بغیر عملی اقدامات کئے گئے تو ان ممالک میں بھی جرائم کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ جرائم کے واقعات کسی بھی نوعیت کے ہوں ان کے سدّباب کے لئے ابتدائی سطح سے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے یعنی بچوں کی تعلیم و تربیت پر والدین، سرپرست، اساتذہ اور حکمرانوں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہی بچوں بڑے ہوکر ملک میں بہتر نظم و نسق کی صورتحال قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔جن ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیاں دھماکو صورتحال اختیار کی ہوئیں ہیں اس کے پیچھے کئی اسباب ہیں۔
عالم اسلام کے اُن ممالک جہاں پر گذشتہ چند برسوں کے دوران لاکھوں انسانوں کی نسل کشی کی گئی اور کی جارہی ہے اور انکی کروڑوں کی املاک اور تاریخی ورثہ کو تباہ و تاراج کیا گیا اس میں ایسے خود غرض اور مفاد پرست دشمنانِ اسلام حکمرانوں کی سازشیں کارفرما ہے ۔ عالم اسلام کے ان ممالک میں مسلمان ترقی کرتے ہوئے خوشحال زندگی گزاررہے تھے ان کے درمیان مسلکی بنیاد پر لڑائیاں ہونے لگیں اور پھران ممالک میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے مسئلہ پرحالات کشیدہ ہوتے گئے اور پھر جنگ کا ماحول پیدا کیا گیا۔ دشمنانِ اسلام اپنی سازشوں میں کامیاب ہوتے رہے اور مسلم حکمرانوں نے دشمنانِ اسلام کی ان سازشوں کو سمجھنے میں دیر لگادی اور جب یہ دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو سمجھنے لگے اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔آج عالم اسلام کے حکمراں ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی انہیں ہتھیار اور فوجی طاقت فراہم کررہے ہیں تو دوسری جانب شدت پسند تحریکیں یعنی نام نہاد جہادی تنظیمیں ، جہاد کے نام پر اپنے ہی بھائیوں کا قتلِ عام کررہے ہیں۔
مصر میں شدت پسندی سے نمٹنے کیلئے سخت قوانین
امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک کے حکمرانوں نے عالمِ اسلام میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پرخطرناک فضائی حملوں کے ذریعہ جو ظلم و زیادتی کی ہیں تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ نام نہاد جہادی تحریکیں تو آج بھی اپنی کارروائیاں انجام دے رہی ہیں۔ بلکہ انکی دہشت گردانہ کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ دوسری جانب ان دہشت گرد یا شدت پسند تحریکوں کے خاتمہ کے نام پر امریکہ اور اتحادی ممالک مل کر جو حملے کررہے ہیں اس میں ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکت ہوچکی ہے اور ہورہی ہے۔ عراق میں صدام حسین، افغانستان میں ملا محمد عمر ، مصر میں حسینی مبارک اور منتخبہ پہلے جمہوری صدر محمد مرسی ، لیبیا میں کرنل قذافیکی حکومتیں ختم ہوچکی ہیں اس کے باوجود آج بھی ان ممالک میں امن و آمان کا قیام مشکل دکھائی دیتا ہے۔مصر میں فوجی بغاوت کے بعد فوجی سربراہ نے عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا تھا اور پھر انتخابات کے ذریعہ مصر کی صدارت سنبھال لی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین پر احتجاج کے دوران جو مظالم ڈھائے گئے اور اخوان کے سینکڑوں کارکن جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں گزار رہے ہیں یہ ایک تاریخ ہے۔ ان دنوں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کے ساتھ سعودی عرب کے نئے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور دیگر عرب ممالک کے حکمرانوں نے انہیں مکمل تعاون دینے کا وعدہ کیا ہے جس کے بعد مصری صدر نے ملک میں امن و آمان کے قیام کے لئے سخت قوانین لاگو کردےئے ہیں۔ مصر میں مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے لئے انسداد دہشت گردی کے نئے قانون کے تحت سیکیوریٹی فورسز کومزید اختیارات دےئے گئے نئے قانون کے تحت حکام کو سرگرمیوں اور اجتماعات پر پابندی عائد کرنے اور دہشت گرد ثابت ہونے والے کسی بھی شخص کے اثاثے منجمد کرنے کے اختیارات ہونگے۔سرکاری اعلامیہ کے مطابق کوئی بھی تنظیم یا گروپ جو شہریوں میں خوف پیدا کرے ، ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے یا قومی سلامتی اور اتحاد کو نقصان پہنچائے اسے دہشت گرد قرار دیا جائے گا۔اسی طرح سرکاری یا عوامی ٹرانسپورٹ کی بندش یا تعلیمی اداروں کو تعلیمی سلسلے سے روکنے والے گروپ کو بھی دہشت گرد قرار دیا جائے گا۔تجزیہ نگاروں کے مطابق ان پابندیوں کا مقصد اسلام پسند مظاہرین کو ہدف بنانا ہے جو آئے دن حکومت کے خلاف یونیورسٹیوں کے کیمپسوں میں حکومت مخالف مظاہرے کرتے ہوئے سڑکیں بند کردیتے ہیں۔ ایک طرف حکومت اسلام پسندوں کے احتجاج کو ختم کرنا چاہ رہی ہے تو دوسری جانب 2011میں حسنی مبارک کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد مختلف الزامات کے تحت جیل میں قید سابق صدر حسنی مبارک ، سابق وزیر اعظم احمد نازیف و سابق وزیر داخلہ حبیب العدلی کے علاوہ کئی اعلیٰ عہدیداروں کوکرپشن اور قتل ودیگر الزامات سے بری کیا جاچکا ہے جبکہ جن مظاہرین نے حسنی مبارک کے اقتدار کے خلاف عوامی بغاوت میں اہم رول ادا کیا تھا ان کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
پاکستان میں شدت پسند تنظیموں میں گٹھ جوڑ
حکومت پاکستان نے خفیہ اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں تمام صوبوں کے اعلیٰ حکام کو سرکاری عمارتوں، امام بارگاہوں اور عبادت گاہوں کے ارد گرد حفاظتی اقدامات کو بہتر بنانے کی ہدایت دی ہے۔ حکومت کے مطابق حالیہ شدت پسندی کے واقعات کے پیچھے لشکر جھنگوی اور ملا فضل اللہ کا گٹھ جوڑ بتایا جارہا ہے۔ پشاور آرمی اسکول کاسانحہ، شیعہ مسجد پر حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔ پشاور سانحہ کے بعد ملک میں سزائے موت پر عمل در آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس میں اب تک 22مجروموں کو پھانسی دی جاچکی ہے جن میں لشکرِ جھنگوی سے تعلق رکھنے والے متعدد شدت پسند بھی شامل ہیں۔ اس ماہ کی تین تاریخ کو کراچی میں لشکرِ جھنگوی کے دو ارکان کی پھانسی کے بعد دو خانگی اسکولوں کے قریب کریکردھماکوں کے بعد پولیس کو جائے وقوع سے ایسے پمفلٹ بھی ملے تھے جن میں متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ہمارے لوگوں کو پھانسی دینے اور جعلی مقابلوں میں مارنے کا سلسلہ بند کرو ورنہ یہ واقعہ بھرے اسکول میں بھی پیش آسکتا ہے۔ اس کے بعد حکومت پاکستان نے ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے حالیہ واقعات میں کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے ملوث ہونے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا ہیکہ تنظیم کے ارکان کی پھانسیاں رکوانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے۔حکومت کے مطابق کالعدم تنظیم نے دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے القاعدہ سے بھی مدد مانگی تھی اور وہاں سے انکار پر اس نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا ہے ، حکومت کے مطابق لشکر جھنگوی نے جیلوں میں قید انکے شدت پسندوں کو رہائی کے لئے عام لوگوں کو یرغمال بھی بناسکتی ہے ۔ پاکستانی وزارت داخلہ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر ملا فضل اللہ نے لشکر جھنگوی کو مالی معاونت فراہم کی ہے بلکہ انہیں مزید تعاون کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔اس طرح پاکستان میں طالبان اور لشکرِ جھنگوی کی سرگرمیوں پر خصوصی نظر رکھی جارہی ہے اور کسی بھی بڑے حملے کو روکنے کے لئے اہم اقدامات کئے جارہے ہیں۔
دولت اسلامیہ کے نشانہ پر اب عیسائی بھی
دولت اسلامیہ نے شام کے شمال مشرقی علاقے میں عسیائی آبادی کے ایک گاؤں پر قبضہ کرکے درجنوں افراد کو یرغمال بنانے کی کوشش کی۔ برطانیہ میں موجود شام سے متعلق انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والے ادارے کے مطابق 200سے زائد عیسائی مرد، خواتین اور بچوں کے علاوہ جو سنی مسلمان داعش کی خلافت کو قبول نہیں کئے انکے اغوا کی کارروائی تل تمر کے قریب حملوں کے دوران کی گئی۔ عیسائی آبادی کا اغواء ایک ایسے وقت ہورہا ہے جبکہ امریکہ شمالی شام میں دولت اسلامیہ عراق و شام کے خلاف فضائی حملوں کی صورت میں کرد فوج کا ساتھ دے رہا ہے۔ اس سے قبل داعش نے 21عیسائیوں کو ذبح کرنے کا ویڈیو جاری کیا تھا اور اب 200سے زائد عیسائیوں اور دیگر افراد کا اغواکرنے کے بعد امریکہ اور اتحادی ممالک داعش کے خلاف مزید تیز کارروائیاں کرسکتے ہیں یا پھر داعش ان افراد کو ڈھال کے طور پرا ستعمال کرنے کی کوشش کرے گی۔ داعش اور امریکہ اور اتحادی ممالک کے درمیان کس قسم بات چیت ہوتی ہے یا پھر ان افراد کو نظر انداز کرکے امریکہ داعش پر فضائی حملوں کی کارروائی جاری رکھتا ہے اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ داعش سے فی الحال کوئی اچھی امید نہیں کی جاسکتی۔ دیکھنا ہیکہ امریکہ اور اتحادی ممالک اس سلسلہ میں کیا اقدام کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں خواتین کی سیاسی رقابت
بنگلہ دیش میں گذشتہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ ماہ خالدہ ضیاعوامی لیگ کی سربراہ اور موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔ انہوں نے گذشتہ ماہ نے اپنے کارکنوں کو ملک گیر ہڑتال کرنے کیلئے کہا تھا تاکہ وزیر اعظم دوبارہ انتخابات کروانے پرمجبور ہوجائیں۔ان کے اس اعلان کے بعد سے بنگلہ دیش میں سیاسی تشدد میں کم از کم سو افراد مارے جاچکے ہیں۔ دونوں خواتین دیرینہ سیاسی حریف ہیں ۔ خالدہ ضیا کی نیشنلسٹ پارٹی نے گذشتہ برس ہونے والے انتخابات میں دھاندلیوں کا الزام عائد کرکے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا ۔گذشتہ سال کے انتخابات کے بعد سے اب تک حزبِ اختلاف کے کئی کارکن لاپتہ ہونے کا دعوی کیا جارہا ہے انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سیاسی کارکنوں کی گمشدگی میں حکومت کے ملوث ہونا بتایا جارہا ہے۔ عدالت نے خالدہ ضیا کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے یہ وارنٹ 25؍ فروری کوخالدہ ضیا بدعنوانی کے ایک مقدمہ میں حاضر نہ ہونے پر جاری کیا گیا ہے۔ ان پر خیراتی رقوم میں سے ہزاروں ڈالرز کی خرد برد کے الزامات بھی ہے جس سے وہ انکار کرتی ہیں۔ان دونوں خواتین کی سیاسی لڑائی میں کئی کارکنوں کے گمشدہ ہونے کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ۔ شیخ حسینہ کی حکومت میں ان کے مخالفین پر مختلف الزامات عائد کرکے عدالتوں میں محروس کردیا گیا ہے۔
سعودی عرب میں محمود عباس اور عبداللہ ثانی کا شاہانہ استقبال
مملکت سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ان دنوں مختلف ممالک کے حکمراں ملاقات کررہے ہیں ان حکمرانوں کے درمیان مختلف امور پر بات چیت ہورہی ہوگی لیکن اصل مسئلہ ان دنوں خطہ میں موجودہ دہشت گردانہ حملوں سے ہے۔ گذشتہ دنوں فلسطینی صدر محمود عباس اور اردن کے عبداللہ ثانی کا سعودی عرب میں استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر شاہ سلمان نے آزاد مملکت فلسطین کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ شاہ سلمان نے فلسطینی صدر کو تیقن دیا کہ سعودی عرب علحدہ مملکت فلسطین کے قیام کے لئے اپنا تعاون جاری رکھتے ہوئے ہمیشہ پابند عہد رہے گا۔ دونوں قائدین کے درمیان عالمی علاقائی خصوصاً فلسطینی امور پر بات چیت ہوئی۔ سعودی عرب جو عالمی سطح پر اثر و رسوخ رکھتا ہے ۔
جواب دیں