نور النساء

نو سا ل کی عمر میں مہاراجا سایا جی راؤ گائکواڑکے دربار میں سنسکرت کا بھجن گا کر مہاراجا کو خوش کیا تو انھوں نے نہ صرف انعامات سے نوازا بلکہ وضیفہ بھی مقرر کیا۔چودہ سال کی عمر میں ان کی ہندوستانی زبان میں لکھی گئی پہلی کتاب ’بلاسن گیت مالا‘ جو موسیقی سے متعلق تھی شائع ہوئی۔بہت ہی کامیابی کے ساتھ انھوں نے موسیقی کی تعلیم کاسلسلہ شروع کیا اور بیس سال کی عمر میں ’گیان شالا‘موسیقی اکاڈمی میںیہ پروفیسر بنا دیے گئے آج کل جو بڑودہ یونیورسٹی کی ’فیکالٹی آف میوزک ‘ہے۔
حضرت عنایت خاں صوفی منش انسان ،عدم تشددکے قائل عارفانہ زندگی کے شیدائی تھے۔ان کے استادسید محمد ابو ہاشم مدنی تھے ۔ یہ بھی چشتی سلسلہ سے صوفی تھے۔انتقال کے وقت حضرت مدنی نے اپنے شاگرد عنایت خاں سے فرمایا کہ ’’مغربی ممالک میں جا کر تصوف کی تبلیغ کریں‘‘۔
مغربی ممالک جانے سے قبل انھوں نے رنگون اور سیلون کا سفر کر کے کچھ دنوں کے لیے بڑودا میں قیام کیا تھا اور یہیں سے انھوں نے مغرب کا سفرشروع کیا۔ہندوستان میں ان کی موسیقی اور تصوف کمال عروج تک پہنچ چکا تھا۔مغرب کی دنیا اب ان کے اس کام کے لیے نئی جگہ تھی۔ ان کا پانچ سالہ چھوٹا بھائی محبوب خاں اور ان کا ایک رشتے کا بھائی محمد علی خاں امریکہ کے سفر میں ان کے ہم سفر تھے۔حضرت عنایت خاں کی زندگی بھر یہ لوگ ان کی خدمت میں لگے رہے۔چھ ماہ کے بعد ان کے چھوٹے بھائی مشرّف خاں بھی امریکہ میں ان کے ساتھ آکر مل گئے۔
۱۹۱۲ء ؁ میں عنایت خاں اپنے بھائیوں کے ساتھ امریکہ سے ہجرت کر کے یوروپ آئے اور یہاں پر ان کوبہت ہی اپنائیت اور پیار ملا خاص طور سے فرانس اور روس میں۔فرانس سے یہ لندن آئے اور یہاں یہ چھہ سال ۱۹۲۰ء ؁ تک رہے۔تعلیم کا سلسلہ انھوں نے جاری رکھا، ’علم النفس‘اور’عام حالاتِ زندگی‘ کا گہرائی سے مطالعہ کرتے رہے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ ہندوستانی موسیقی کی محفلیں سجاتے رہے۔اسی کے ساتھ ہی ساتھ صوفی تصوف کی تعلیمات کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔اس طرح سے ان کے مریدوں کی تعداد کافی ہو گئی۔
۱۹۱۲ء ؁ میں ان کی ملاقات ایک مریکی خاتون’اُورا مینارے بیکر‘ سے ہوئی اور جب وہ ’امینا بیگم‘ بن گئیں تو ماسٹر عنایت خاں نے ان سے شادی کر لی۔ ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی (۱۹۱۹ء ؁ ) ۔ بیٹی سب سے چھوٹی تھی اور خیر النسا نام تھا۔ ۱۹۲۰ء ؁ میں انھوں نے اپنے خاندان کے ساتھ فرانس کا سفر’جنیوا‘ میں مستقلاً بس جانے کی غرض سے کیا جہاں انھوں نے تصوف سے متعلق ایک خانقاہ قائم کیا ۔نومبر ۱۹۲۶ء ؁میں یہ دہلی آگئے لیکن ان کی شہرت ان سے پہلے یہاں پہنچ چکی تھی اس لیے یہ یہاں بھی تصوف کی تعلیم سے جڑے ہی رہے۔اجمیر شریف کے ایک سفر میں ان کوسخت ٹھنڈ لگ گئی جو ان کی موت کی وجہ بن گئی اور ۵؍فروری ۱۹۲۷ء ؁ کو تلک لاج ، دہلی میں جہاں یہ ٹھہرے ہوئے تھے، انتقال ہو گیا۔
حضرت عنایت خاں کی موت نے امینہ بیگم کو گہرے صدمہ میں پہنچا دیا۔۱۳؍سال کی عمر کی شرمیلی و کم عمر کی’نور‘ جلد ہی بڑوں کی طرح اپنی بیمارماں اور بھائیوں کی دیکھ بھال میں لگ گئیں۔اس نے بچوں کی نفسیات کا مطالعہ کیا تھااور موسیقی میں ’وینا اور پیانو‘ پر مہارت حاصل کی، وہ شاعرہ تھیں اور بچوں کی کہانیاں بھی لکھتی تھیں جو رسالوں میں شائع ہوتی تھیں اور ریڈیوفرانس سے نشربھی ہوتی تھیں۔۱۹۳۹ء ؁ میں ان کی کہانیوں کا مجموعہ لندن میں شائع ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے آثار کافی دنون سے محسوس کیے جا رہے تھے، وہ اب شروع ہو چکی تھی اور جرمنی فرانس پر قابض ہو رہا تھا۔نورا ور ان کا پریوار کسی طرح سے فئل ماؤتھ میں آ کر قیام کیا۔نو رکی پرورش اور تعلیم موسیقی وصوفیانہ ماحول میں ہوئی تھی،اُسے تتلیوں کے پیچھے بھاگناگڑیوں کے ساتھ کھیلنا اچھا لگتا تھا لیکن ’ٹیپو سلطان ‘ جیسے بہادرحکمراں کے خاندان کا خون اس کی رگوں میں دوڑ رہا تھااس لیے اس نے بھی نازیوں سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔وہ سوچ رہی تھی کہ اگر کچھ ہندوستانی اس کے ساتھ آ جائیں تو ہندوستان اوربرطانیہ کے رشتوں میں مضبوطی آئے گی جو ہندوستان کو آزادکرانے کے کام آئے گی۔
۱۹۴۰ء ؁ میں جب جرمنوں نے فرانس پر قبضہ کیا تو نورالنساء کا سماجی اور سیاسی شعور پختہ ہو چکا تھا۔ وہ سمجھتی تھی اب والد صاحب کی طرح محض عدم تشدد رپر یقین رکھنے اور صوفیانہ موسیقی میں گم رہنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ حالات براہ راست عملی اقدام کا تقاضا کر رہے ہیں۔نور کو بچپن ہی سے ریڈیو پر بچوں کی کہانیاں سنانے کا شوق تھا اور وہ ریڈیو اور وائرلیس کی تکنیک سے قدرے شناسا تھی ۔ چنانچہ جرمنوں کے خلاف تحریک مزاحمت میں اُس نے خفیہ پیغام رسانی کا میدان چنا۔
اسی جذبہ کے تحت نور نے’وومینس آکزلری اےئر فورس(Womens Auxiliary Air Force (WAAF))میں اےئر کرافٹ وومین سکنڈ کلاس کے عہدے پر بھرتی ہو گئیں اور ان کو ’وائر لس آپریٹر کی ٹریننگ دلائی گئی اور اس کے بعد ’اسسٹنٹ سکشن آفیسرعہدے کی ترقی دی گئی۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں کے زیر قبضہ فرانس میں کئی سطحوں پر تحریک مزاحمت جاری تھی۔ برطانیہ کی خفیہ سروس نے پیرس میں اپنے جاسوسوں کا جال پھیلا رکھا تھا جس کے ذریعہ پل پل خبر اتحادی کمان کو پہنچتی تھی۔ نور النساء جرمنوں کے خلاف کام کرنے والی پہلی خاتون ریڈیو آپریٹر تھیں۔
۱۹۴۳ء ؁میں نازیوں نے ان جاسوسوں کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور ایک ایسا وقت بھی آیا کہ نور النساء کے تمام ساتھی گرفتار ہو گئے اور پیرس میں اتحادیوں کے لیے پیغام رسائی کی تمام تر ذمہ داری اس نوجوان خاتون پر آن پڑی لیکن آخر کار جرمن خفیہ سروس’گستاپو‘ نے نورکو بھی گرفتار کر لیا۔
نازی پنجے کی گرفت میں آنے کے بعد نورالنساء کا حوصلہ اور بھی بلند اور مضبوط ہو گیا اور راز اگلوانے کے لیے سارے نازی ہتھکنڈے ناکام ہو گئے۔نو ر کی زبان کھلوانے کے لیے اُسے جو جو اذیتیں دی گئیں ان کا اندازہ اس امر سے ہو جاتا ہے کہ جنگ کے بعد نازیوں پر چلنے والے جنگی جرائم کے مقدمے میں ’گستاپو‘ کے متعلقہ افسر،’ہانس جوزف کیفر سے نور النساء کی موت کے بارے میں پوچھا گیا تو سنگدل افسر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ نور عنایت خان جرمنوں کے خلاف کام کرنے والی ہند نژاد اولین خاتون ریڈیو آپریٹر تھی۔ اس نے چھبیس برس کی عمر میں خود کو تحریک مزاحمت کے لیے وقف کر دیا تھا اور پہلی جنگ عظیم کے وقت بلومز بری میں پیدا ہونے والی یہ لڑکی دوسری جنگ عظیم کے دوران انتیس برس کی عمر میں جرمنوں کی قید میں انتہائی اذیت ناک حالات میں دم توڑ گئی۔
نرم و نازک خد و خال ، گہری سیاہ آنکھوں اور دھیمے لہجے والی حسین و جمیل خاتون کی خطر پسند زندگی نے کئی قلم کاروں کو اپنی طرف راغب کیا اور اب تک اس کی زندگی پر عالمی شہرت کے دو ناول تحریر کیے جا چکے ہیں۔
نو رعنایت خان کو اپنے جد امجد ٹیپو سلطان سے والہانہ عقیدت تھی اور اُسی روایت پر چلتے ہوئے انھوں نے ہندوستان کو انگریزی عمل داری سے پاک کرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ خفیہ سروس میں بھرتی کے لیے انٹرویو ہوا تو نور عنایت نے انگریزافسر سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ فی الحال ہمارے سامنے ایک مشترکہ دشمن نازی جرمنی کی شکل میں موجود ہے لیکن نازی ازم کا خاتمہ ہوتے ہی میںآزادئ ہند کے لیے انگریزوں کے خلاف بر سر پیکار ہو جاؤں گی۔
ایک ایسی خوبرو، صاف گو، شیر دِل اور فنکارانہ مزاج کی عورت کے اصل حالاتِ زندگی بہت پہلے دنیا کے سامنے آجانے چاہئے تھے۔ان کی داستان حیات پر اب تک اسرار کا دبیز پردہ پڑا ہوا تھا جس نے بیشمار افواہوں کو بھی جنم دیا۔ بہر حال مصنفہ ’شرابانی بسو‘ داد کی مستحق ہیں کہ انھوں نے اپنی نئی کتاب ’جاسوس شہزادی‘ میں اس دیرینہ ضرورت کو پورا کیا ہے اور نور عنایت خان کی ہشت پہلو زندگی سے ہمیں متعارف کرایا۔
ویسے ایک رپورٹ کے مطابق نور عنایت خان۱۳؍اکتوبر ۱۹۴۳ء ؁ گرفتار کی گئیں اور فرانس میں ان سے تفتیش کی گئی۔گرفتاری کے وقت وہ اتنی بہادری سے لڑی تھی کہ تفتیش کے وقت افسران اس سے سہمے ہوئے رہتے تھے۔بہت ہی خطر ناک قیدی اسے مانتے تھے۔تفتیش کے کام میں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت لگا لیکن اس سے کوئی بھی راز اگلوا نہیں سکے۔ اس درمیان دو بار اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکی۔
۱۳؍سمبر ۱۹۴۴ء ؁ کو صبح کے وقت نور عنایت خان کو تین دوسری خواتین قیدی کے ساتھ سر کے پیچھے گولی مار کر شہید کر دیا گیا اور لاشوں کو فوراً بھٹی میں جلا دیا گیا۔
نور عنایت کے مرنے کے بعدبرطانیہ سے ’برٹس جارج کراس‘ جو ملک کا بہادری کاسب سے بڑا اعزاز ہوتا ہے انہیں ملا اور فرانس میںCroix de Guerre with silver starملا۔چونکہ وہ ۱۹۴۶ء ؁ سے گم شدہ تھیں اس لیے انہیں Member of the Order of the British Empire کا درجہ نہیں مل سکا۔لندن میں ان کے پرانے گھر کے پاس ان کی یاد گارجو قائم کی گئی وہ کسی ایشیائی مسلم عور ت پہلی یادگار ہے۔مارچ ۲۰۱۴ ؁ میں نور عنایت کی یاد میں ’رائل میل ‘ نے ٹکٹ بھی جاری کیا۔
اس طرح کے بہت سے سورما جن کا تعلق ملت سے رہا ہے، مٹی میں دبے ہوئے ہیں، ضرورت ہے ان کو تلاش کر کے ان کے کارناموں کواجاگر کیا جائے اور ان کو بھی ادب میں جگہ دی جائے۔ہم چند شعرا کا گن گان کر کے ہم مان لیتے ہیں کہ ادب کا حق پورا کر دیا۔

«
»

پانچ منٹ

ہندوستان تمام مسلمانوں اور انسانوں کا آبائی وطن ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے