خماربارہ بنکوی :تغزل سے تقدس تک

زندگی کے بالکل آخری ایام میں جگر مراد آبادی کی طرح تائب ہوئے اور تغزل سے تقدس کی طرف مائل ہوئے۔البتہ ان کا یہ قلب ماہیت فکری زیادہ تھا،عملی کم۔جب کہ جگر صاحب فکروعمل دونوں اعتبار سے مکمل طور پر مذہبی ہوگئے تھے۔
خمار بارہ بنکوی نے اپنے جذبات اور محسوسات کے اظہار کیلئے صنف غزل کو وسیلہ بنایا۔غزلوں اورکچھ نظموں کے علاوہ انھوں نے کسی بھی صنف شاعری میں مشق سخن نہیں کی۔اور یہ حقیقت ہے کہ جن موضوعات اور تجربات کو انھوں نے شاعری کا جامہ پہنایااس کیلئے غزل کے علاوہ کوئی دوسری صنف موزوں بھی نہیں تھی۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ نظم یا دیگر اصناف سخن کی اہمیت وافادیت کے منکر تھے۔وہ اس معاملے میں بہت وسیع القلب واقع ہوئے تھے۔یہ ان کی وسیع النظری ہی کی دلیل ہے کہ انھوں نے اپنی وارداتِ قلبی کے اظہارکیلئے کلاسیکی غزل کو اپنایا،لیکن جب جدیدیت کے زیر اثر جدید غزل سامنے آئی تو انھوں نے نہ صرف اس کے مستقبل کو روشن بتایابلکہ جدید غزل کہنے والوں کو دعائیں بھی دیں۔وہ اپنی شاعری اور جدید غزل کے متعلق لکھتے ہیں:
’جس وقت میں نے شعرکہنا شروع کیااس وقت ادب کی مملکت پر کلاسیکی غزل کا راج تھا۔حالاں کہ دوتین برس قبل ترقی پسند تحریک کا بڑے زورشورسے آغاز ہوچکاتھااور غزل کی مخالفت بڑی شدت سے کی جانے لگی تھی لیکن اس وقت کلاسیکی غزل کے عظیم محافظ (شعراء اورنقاد)بقیدحیات تھے جن کے باعث غزل کا جادو سرچڑھ کر بول رہاتھا۔وقت گذرتاگیا،غزل کے محافظین ایک ایک کرکے اللہ کے پیارے ہوگئے اور غزل پر بہت براوقت آگیالیکن ساتھ ہی ساتھ ترقی پسند تحریک کا زور بھی گھٹ گیااور غزل کے مخالفین خود غزلیں کہنے لگے۔میں نے جملہ اصنافِ سخن کا تجزیہ کرنے کے بعد اپنے محسوسات اور واردات کے اظہار کیلئے کلاسیکی غزل ہی کو سب سے زیادہ موزوں اور مناسب پایا۔چنانچہ غزل کے خدمت گزاروں میں شامل ہوگیا۔وقت نے کروٹیں بدلیں مگر میں نے غزل کا دامن نہیں چھوڑا۔ترقی پسندتحریک کے بعد جدیدیت کا شور بلند ہوا۔جدیدیت کے ساتھ ہی جدیدغزل سامنے آئی۔جدید غزل کے کئی بہت اچھے کہنے والے ابھرے ہیں،میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔جدید غزل کا مستقبل بے حد روشن ہے۔یہ الگ بات ہے کہ میں خود کلاسیکی غزل کا ہی دل دادہ ہوں۔وقت بدلتارہے گا۔قدریں بدلتی رہیں گی۔غزل میں اور بھی نئے نئے تجربات کئے جائیں گے(خداکرے وہ تجربات کامیاب ہوں)لیکن میرااپنا عقیدہ ہے کہ جب تک انسان ہنسنا او ررونا جانتاہے اس وقت تک کلاسیکی غزل بھی زندہ رہے گی۔ ‘(1)
خمار بارہ بنکوی کا اصلی نام محمد حیدر خاں اور تخلص خمارؔ تھا۔بیحد قریبی لوگ ان کو پیار سے’دُلّن‘بھی کہتے تھے۔20ستمبر1919کو بارہ بنکی کے محلہ پیربٹاون میں پیداہوئے۔اردو اورفارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔اس کے بعد بارہ بنکی کے سٹی انٹر کالج سے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی ۔پھر شہر ہی کے گورنمنٹ انٹر کالج (جس کی منظوری اس وقت تک ہائی اسکول تک ہی تھی) سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد لکھنؤ کے جبلی انٹر کالج میں انھوں نے داخلہ لیا،لیکن اسی دوران ایک ’لطیف حادثہ‘ سے دوچارہوگئے ،جس کی وجہ سے پڑھائی میں دل نہیں لگا اور تعلیم ترک کرکے شعروشاعری کرنے لگے۔ خمار صاحب کی چار کتابیں حدیثِ دیگراں،رقصِ مے،شبِ تاب اور آتشِ تر شائع ہوچکی ہیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حدیثِ دیگراں‘ کی بہت سی غزلیں’رقص ِ مے ‘ میں شامل ہیں۔کچھ اشعار میں تبدیلی بھی کی گئی ہے۔
خمار صاحب تقریباً پندرہ سولہ برس سے شعر موزوں کرنے لگے تھے۔انھوں نے 1938سے ہی مشاعروں میں حصہ لینا شروع کردیاتھا۔انھوں نے اپنا پہلا مشاعرہ بریلی میں پڑھا۔ان کا پہلا شعرتھا۔
واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے
اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے 
ڈھائی سال کی مدت میں ہی آپ پورے ملک میں مشہورہوگئے۔اس دور میں جگر مرادآبادی کا طوطی بولتاتھا۔چوں کہ خمار نے ترنم سے ہی شروعات کی اس لئے جلد ہی وہ جگر صاحب کی طرح مقبول ہوگئے۔مشاعروں میں جگر مرادآبای اور مجروح سلطان پوری کے بعد اگر کسی کو توجہ دی جاتی تھی تو وہ خمار صاحب ہی تھے۔خمار کی شاعری کو پروان چڑھانے میں چودھری محمد غیاث الدین اشرف رئیس بارہ بنکی نے اہم کرداراداکیا۔
ویسے تو خمار بارہ بنکوی مشاعروں پر زیادہ توجہ دیتے تھے ،لیکن فلمی دنیا کی سیر سے بھی گریز نہیں کیا۔1942-43میں مشہور فلم ہدایت کار اے آرکامدار نے انھیں بمبئی بلالیا۔یہاں سے ان کا فلمی سفر شروع ہوااور وہ فلمی دنیامیں ایک کامیاب نغمہ نگار ثابت ہوئے ۔انھوں نے متعدد فلموں میں یادگار گیت لکھے جو کافی مقبول ہوئے۔ان کے یہ نغمے آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
خمار بارہ بنکوی کی مقبولیت اور ادبی وفلمی خدمات کو دیکھتے ہوئے مختلف قومی وبین الاقوامی اداروں نے انھیں اعزازاو اکرام سے نوازا۔انھیں اترپردیش اردو اکادمی،اردو سینٹر کینیا،اکادمی نوائے میر،عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد،ملٹی کلچرل سینٹر اوسوکناڈا،ادبی سنگم نیویارک،دین دیال جالان سمان وارانسی،قمر جلالوی الائڈ کالج پاکستان وغیر سے متعدد انعامات واعزازات مل چکے ہیں۔1992میں دبئی میں ’جشنِ خمار‘ منایاگیا۔ستمبر1993میں بارہ بنکی میں ’جشن خمار‘ کا اہتمام کیاگیاتھا۔اس جشن میں اس وقت کے گورنر موتی لال وورا نے ایک لاکھ روپئے کی رقم اور توصیف نامہ دے کر اعزازبخشا تھا۔(2)
خمار بارہ بنکوی جس طرح اچھے شاعر تھے ،اسی طرح ایک اچھے انسان بھی تھے۔لوگوں سے بہت خندہ پیشانی سے پیش آتے اور ان کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرتے۔اپنی بذلہ سنجی سے محفل کو زعفران زار بنائے رکھتے۔ان کے برسوں کے سفر وحضر کے ساتھی پروفیسر ملک زادہ منظوراحمد کی یہ گواہی ملاحظہ فرمائیں:
’خمار صاحب کم وبیش نصف صدی سے مشاعروں کا جزولاینفک رہے ہیں ۔ ان کے کلام کی سادگی ،ان کے پڑھنے کا انداز اور ان کا مخصوص ترنم دلوں کو فتح کرلینے کا سارا سامان اپنے اندر رکھتاہے،مگر ان سب پر ان کا حسن اخلاق ،چھوٹوں پر ان کی شفقت اور بڑوں کا احترام سب سے زیادہ کشش کا سبب بنتاہے۔ان کی معیت میں سفر خوشگوار اور حضر دلچسپ ہوجاتاہے‘۔ (3)
سہل ممتنع کی نمائندگی کرتیں خمار کی زیادہ تر غزلیں عشقیہ جذبات واحساسات کی ترجمان ہیں۔ان کے کلام میں سادگی وپرکاری پائی جاتی ہے اورسوزوگداز بھی ہے ۔چوں کہ خمار صاحب نے کسی کی ’تیرنظر‘ سے زخمی ہوکر شاعری شروع کی تھی اور انھوں نے غزل کو اپنی وارداتِ قلبی کے اظہار کا وسیلہ بنایاتھااس وجہ سے ان کی شاعری ان کی زندگی کی پوری پوری آئینہ دار تو ہے ہی ،لیکن دوسروں خصوصاً عشق ومحبت کے جذبے سے سرشار افراد کو بھی خمار کا کلام اپنی زندگی سے قریب تر معلوم ہوتاہے۔وہ آسان زبان میں معاملات عشق کو بیان کرتے ہیں اس وجہ سے عوام میں ان کاکلام مقبول ہوجاتاہے۔جس دور میں شاعری میں نت نئے تجربات کئے جارہے ہوں ،سیاسی ،سماجی ،مذہبی اورمعاشی افکارونظریات موضوعِ سخن بن رہے ہوں،خمار صاحب کو کلاسیکی غزل کیلئے مشاعروں میں مدعو کیاجانا اس بات کا ثبوت تھا کہ شاعری میں لاکھ ہیئتی وموضوعاتی تجربات کئے جائیں کلاسیکی غزل کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔عشق ومحبت کا موضوع چاہے جتنا پامال ہوجائے یہ لوگوں کے دلوں کے تارچھیڑنے کی پوری صلاحیت رکھتاہے۔یہ سچائی ہے کہ جب تک انسان کا دل دھڑکتارہے گا،اس کی زندگی میں خوشی و غم کے لمحات آتے رہیں گے،اس وقت تک غزل کا جادو سر چڑھ کر بولتارہے گااور لوگ خمار صاحب کی غزلیں گنگناتے رہیں گے۔پروفیسر ملک زادہ منظور احمد تحریر کرتے ہیں:
’پچاس برس سے زیادہ کا زمانہ گزرگیا۔ہماری غزل نئی جہتوں اور نئے امکانات سے آشناہوئی۔مگر خمار نے نہ تو اپنے بنیادی مزاج میں تبدیلی پیداکی اور نہ بدلے ہوئے رجحانات نے ان کی مقبولیت میں کوئی کمی ہونے دی۔پچھلے چالیس برسوں سے میرا ان کا ساتھ ہندوستان کے مختلف شہروں کے مشاعروں کے علاوہ دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کے مشاعروں میں رہاہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ترقی پسندوں اور جدیدیت کے علم برداروں کی غزلوں کے درمیان جب خمار نے محبت کا سرمدی نغمہ چھیڑا ہے تو سامعین کے دلوں کی دھڑکنیں ان کے اشعار اور ترنم کے زیر وبم سے ہم آہنگ ہوگئی ہیں۔محسوس یہ ہوتاہے کہ غزل ،جس میں ماضی کے مقدس آتش خانوں کی آنچ اور روایت کے صنم کدوں کانور شامل ہو،آج بھی لوگوں کے دلوں میں گدگدی پیداکرسکتی ہے۔یہ داغ ؔ اور جگرؔ اسکول کا فیض ہے جو فوری طور پر اپنے اثرات مرتب کرتاہے اور جذباتی تموج کا باعث بن جاتاہے۔یہاں فکری سطح پرعلم ودانش اورمنطق وفلسفہ کا جادو نہیں چلتابلکہ محبت کی زبان میں محبت کی گفتگو ہوتی ہے اور محبت کرنے والے دلوں میں اس قبیل کے اشعار گھر بناکر حافظہ میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔خمار کی اس بے پناہ مقبولیت میں ان کا ترنم بھی بھر پور کرداراداکرتاہے جو ان کی غزل کے مزاج سے ہم آہنگ ہوکر ان کے اشعار کو آتش گیر بناتاہے۔خمار کی غزلوں پر داد کا طوفان پہلے اسٹیج سے اٹھتاہے اور پھر وہ سارے مجمع کو اپنے ساتھ بہالے جاتاہے‘۔(4)
خمار صاحب کا رنگِ تغزل دیکھنے کیلئے بطورنمونہ ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
خدا بچائے تری مست مست آنکھوں سے
فرشتہ ہوتو بہک جائے آدمی کیاہے

آپ کو جاتے نہ دیکھاجائے گا
شمع کو پہلے بجھاتے جایئے

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں
جنھیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

ہنس کے بولے نقاب سرکاکر 
یوں طلوع آفتاب ہوتاہے

کہانی میرے ہی گذرے ہوئے لمحات رنگیں کی
مجھی کو اب حدیث دیگر اں معلوم ہوتی ہے

مجھ کو شکستِ دل کا مزا یاد آگیا
تم کیوں اداس ہوگئے کیایاد آگیا

یہ وفا کی سخت راہیں ،یہ تمہارے پائے نازک
نہ لے انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے

رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے
کٹ گئی عمر رات باقی ہے

اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں 
مری یاد سے جنگ فرمارہے ہیں


نہ ہارا ہے عشق ،نہ دنیاتھکی ہے
دیاجل رہاہے ،ہواچل رہی ہے

ساقی نہ دے شراب،نظر بھر کے دیکھ لے
تیرے خمارؔ کو تری آنکھوں سے کام ہے

تصویر بناتاہوں تصویرنہیں بنتی
اک خواب سا دیکھاہے تعبیرنہیں بنتی

اک پل میں اک صدی کا مزاہم سے پوچھئے
دودن کی زندگی کا مزاہم سے پوچھئے
خمار صاحب کے کلام کابالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ان کی شاعری مقبول اور اچھی ضرور ہے لیکن بڑی نہیں ہے ۔ان کے کلام میں بڑی یاعظیم شاعری کے لوازم اور خصوصیات کا فقدان ہے۔دراصل کسی بھی فنکار کی ہمہ گیر مقبولیت اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ عظیم فن کار بھی ہے۔مقبولیت الگ چیز ہے اور عظمت الگ چیز۔ایسے ہی موقع پر ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ فن پارے کی خصوصیا ت کا جائزہ لے کر دونوں کے درمیان خط فاصل کھینچاجائے اور فن کار کی مقبولیت و شہرت سے مرعوب نہ ہوکر اس کے فن پاروں کا محاکمہ فنی کسوٹی پر کیاجائے۔ادیب،شاعراورتخلیق کار کے ادبی اکتسابات کو مقبولیت کی ترازو میں تولنے کی بجائے ادبی میزان میں تول کر اس کے وزن کا تعین کرناچاہیے۔چنانچہ جب ہم خمار صاحب کی شاعری پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ان کے کلام کا فنی وادبی محاسبہ کرنے پر معلوم ہوتاہے کہ ان کے یہاں عشق ومحبت کے انتہائی پامال موضوع کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔عشق ومحبت کے علاوہ صرف چند اشعار غمِ زمانہ اوردوستوں کی طوطاچشمی کے شکوے پر مشتمل ملتے ہیں۔ان تین چیزں کو ان کی شاعری سے نکال دیاجائے تو کچھ بچتاہی نہیں۔ہیئتی اعتبار سے بھی انھوں نے کوئی قابل ذکر تجربہ نہیں کیا۔جس عہد میں انھوں نے آنکھیں کھولیں وہ سائنس وٹکنالوجی کا زمانہ تھا۔پوری دنیا میں طرح طرح کے انقلابات رونما ہورہے تھے۔ترقی پسند تحریک بالکل الگ ادبی منظر نامہ پیش کررہی تھی ۔ان کے دور میں نئے نئے رجحانات اور میلانات سامنے آئے لیکن وہ ان سب سے بے پروا ’عشق کی بنسی ‘بجاتے رہے۔ان پر پوری طرح عشق ومحبت کا خمار چھایارہا۔وہ اپنے حصار سے باہر نہ نکل سکے۔وہ آپ بیتی کو جگ بیتی سمجھتے رہے لیکن کبھی جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کی کوشش نہیں کی۔مذکورہ اشعار پر غورکیجئے وہی مقطر موضوع،فرسودہ خیال اور روایتی انداز موجود ہے۔حسن وعشق ،گل وبلبل،ہجرووصال،جام وپیمانہ اور ساقی ومیخانہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
ان کی شعری کاوشوں کے پس منظر میں جب ہم ان کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس کا جواب بھی مل جاتاہے کہ ایساکیوں ہے؟ موٹے طورپر اس کی تین وجوہ نظر آتی ہیں۔اول یہ کہ انھوں نے کسی کی نگاہِ مست سے پست ہوکر وادی سخن میں قدم رکھاتھا۔ان کا شعری نصب العین اپنے عشقیہ جذبات کا اظہارتھا۔ان کے پیش نظر کوئی اعلیٰ وارفع مقصد نہیں تھا۔دوسرے وہ بنیادی طور پر مشاعرے کے شاعر تھے۔مشاعروں کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔جو اسٹیج کی ضرورت اور سامعین کی اکثریت کے جذبات کو ملحوظ رکھتے ہیں انھیں کا سکہ چلتاہے۔وہاں جو شاعر فکروفلسفہ چلانا چاہتاہے سامعین اس کو چلتاکردیتے ہیں۔مشاعروں میں عموماً سطحی جذبات اور عامیانہ خیالات والے اشعار کو زیادہ داد ملتی ہے۔خمار صاحب کے سامنے بھی یہ مجبوری ضرور آڑے آئی ہوگی۔تیسرے خمار صاحب مشاعروں میں نام کمانے کے بعد فلمی دنیا میں چلے گئے۔وہاں کا ماحول مشاعروں سے زیادہ کاروباری اور غیر ادبی ہے۔خمار صاحب فلمی دنیاکے تقاضے پورے کرتے کرتے ادبی تقاضے بھول گئے یا انھیں نظر انداز کرنے پر مجبورہوگئے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں فکروفلسفے کی گہرائی ،مسائل زمانہ کی عکاسی اور مستقبل کی آگاہی نہیں ملتی۔ان کے یہاں وسیع النظری اور شعور کی گہرائی کا بھی فقدان ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ کوئی شخص درمیانی درجے کی عشقیہ شاعری کرکے بڑاشاعرنہیں بن سکتا۔اگر ان کی عشقیہ شاعری میں تصوف کی چاشنی شامل ہوجاتی تب بھی کچھ بات بن جاتی لیکن افسوس کہ ایسابھی نہیں ہوسکا۔ان کی شاعری خالص عشق مجازی کی ترجمان اور ذاتی احساسات کی آئینہ دارہے۔مذکورہ وجوہ سے ان کی شاعری ادبی اعتبار سے متاثر ہوئی۔ان کی شاعری کا آغاز جس شاندار انداز میں ہواتھااس سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوگئی تھیں لیکن غالباً مشاعروں اور پھر فلمی دنیا میں جانے کے سبب اس کی اٹھان رک گئی۔بڑی شاعری عموماً ’آمد‘ سے وجود میں آتی ہے جب کہ فلمی دنیا میں’ آورد‘ سے کام لینا پڑتاہے۔فلمی دنیا میں جانے کے بعد ان کی شاعری کی زبان صاف اور اس میں مزیدنغمگی پیداہوگئی لیکن رمزیت وایمائیت غائب ہوگئی جو غزل کی اہم خصوصیت ہے۔راست بیانیہ کے سبب تغزل کا رنگ پھیکاپڑگیا۔پروفیسر ملک زادہ منظور احمد تحریر کرتے ہیں:
’بمبئی کی فلمی زندگی خمار کے تجربات میں کوئی مفید اضافہ نہ کرسکی۔وہ نہ تو وہاں کے ادب فروش حالات ہی سے صلح کرپائے اور نہ اپنی شاعری ہی کو وہاں کی مسموم ہواؤں سے محفوظ رکھ سکے۔نتیجہ یہ ہواکہ ان کے فلمی گیتوں میں غزل،اور غزل میں فلمی گیتوں کا مزاج سرایت کرگیا۔غنائیت ،موسیقی،آہنگ ،جھنکار،ترنم اور زیروبم تو ضرور ان کے کلام میں پیداہوامگر اسی کے ساتھ ساتھ سادگی بیان اور سہل ممتنع کے پردے میں فلمی گیتوں کا ہلکا پھلکا انداز اور سستاپن بھی شامل ہوگیا‘۔( 5)
چنانچہ فلمی دنیا میں جانے سے خمار صاحب کو بے پناہ شہرت ومقبولیت توملی لیکن اس سے ان کو بڑا ادبی نقصان اٹھانا پڑا۔مجروح سلطان پوری،شکیل بدایونی ،حسرت جے پوری اور اس قبیل کے دیگر شعراء کی طرح خمار بارہ بنکوی کے شعری سرمائے کا سنجیدہ ادبی محاکمہ تو درکنار عمومی جائزہ تک نہیں لیاگیا۔آخراسے ادبی المیہ ہی تو کہاجائے گا کہ بین الاقوامی شہرت کے باجود خمار پر ایک اچھا مضمون تک ملتا۔نقادان ِ ادب نے ان کی فلمی امیج کے سبب ان کے کلام کو قابلِ اعتناء ہی نہیں سمجھا۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ شعراء ایسے نہیں تھے کہ انھیں اس طرح نظر انداز کیاجاتا۔ان کے یہاں شعریت پائی جاتی ہے اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ ان کے کلام کا خالص فنی اور ادبی جائزہ لیاجاتا۔یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ان شعراء کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اب اس کی تلافی ہونی چاہئے۔اول درجے کے نہ سہی دوسرے درجے کے شاعر تو ہیں ہی۔
خمار صاحب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے عشق مجازی کے پردے میں عشق حقیقی اور متصوفانہ رموز ونکات کی گفتگو کبھی نہیں کی ۔پہلے عشق مجازی کیااس کے بعد عشق حقیقی فرمایا۔دونوں ایک ساتھ نہیں چلے۔چنانچہ جب وہ تغزل سے تقدس کی طرف مڑے ہیں تو باقاعدہ اعلان کرکے۔وہ جب تک جوان اورتوانا رہے عشقیہ شاعری کرتے رہے ،لیکن عمر ڈھلنے کے ساتھ تھ عشق ومحبت کے جذبات بھی سرد پڑنے لگے اور ان کو فکر آخرت ستانے لگی۔چنانچہ زندگی کے آخری ایام میں وہ تائب ہوگئے اور اللہ سے لولگالی۔ویسے بھی خمار صاحب کو پتہ نہیں کیسے شراب کی لت لگ گئی لیکن وہ نظریاتی طور پر مذہب بیزار کبھی نہیں تھے۔پروفیسر ملک زادہ منظور احمد ایک جگہ رقم طراز ہیں:
’ہر دلعزیز،مہمان نواز،شفیق،دلچسپ خمار صاحب رندی اور مستی کی زندگی گزارنے کے بعد تائب ہوئے۔عمرہ کا شرف حاصل کیا‘۔(6)
وہ دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’وہ چاہے رندی وسرمستی کا زمانہ ہو،یا توبہ واحتراز کا،میں نے خمار صاحب کی صبحیں ہمیشہ وظائف سے روشن اور منور دیکھی ہیں۔منھ ہاتھ دھونے کے بعد وہ ایک وظیفہ پڑھتے ہیں جس میں شہدائے کربلا کے نام شامل ہوتے ہیں۔یہ وظیفہ ان کی زندگی کے معمولات میں شامل رہاہے۔‘ (7)
تغزل سے تقدس کی طرف مڑنے کے دور کے کچھ اشعار بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں ؂
گذراشباب دل کو لگانے کے دن گئے
جشن ِ نیاز وناز منانے کے دن گئے
خوف خدانے پاؤں میں زنجیر ڈال دی 
کوئے بتاں میں ٹھوکریں کھانے کے دن گئے 
نظروں کو تاک جھانک کی عادت نہیں رہی
بے اختیار جلوے چرانے کے دن گئے
دل کے معاملات پہ بحثیں ہوئیں تمام
ناصح کو ہم خیال بنانے کے دن گئے
اچھاہواکہ سر سے بلا ٹل گئی خمار ؔ 
کمبخت دل کے ناز اٹھانے کے دن گئے

دن گئے شباب کے زندگی بدل گئی 
شمع ہے وہی مگر روشنی بدل گئی

حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ 
کیابات ہوگئی جو خدایادآگیا

قیامت یقیناًقریب آرہی ہے 
خمارؔ اب تو مسجد میں جانے لگے ہیں
خمار بارہ بنکوی کی زندگی میں ایسا انقلاب آیا کہ و ہی خمار جوواعظ اورناصح کو ہمیشہ ٹیڑھی نظر سے دیکھتے رہے جب رندی وسرمستی کی زندگی کے بعد ہوش آیا تو اسی واعظ کی باتوں میں انھیں خلوص نظر آنے لگا۔یہ شعر دیکھئے۔
واعظ خلوص ہے ترے انداز فکر میں 
ہم تیری گفتگو کا برامانتے نہیں
خمار صاحب کی زندگی اتنی ہی نہیں بدلی کہ اپنی اصلاح کی فکر کرنے لگے ،بلکہ اس قدر بدلی کہ دوسروں کی بے راہ روی دیکھ کر بھی ان کو تکلیف پہنچنے لگی اور وہ ان کی اصلاح کے لئے فکر مند رہنے لگے۔زندگی بھر پانی پی پی کر واعظ کو کوسنے اور اس کو ہم خیال بنانے کی کوشش کرنے والے خمار دو قدم آگے بڑھ کر خود واعظ وناصح کا کردار اداکرنے لگے اور گمراہ لوگوں کے حق میں دست بدعاہوگئے۔ان کا یہ شعر دیکھئے۔
دعایہ ہے نہ ہوں گمراہ ہمسفر میرے 
خمارؔ میں نے تو اپنا سفر تمام کیا 
خمار کا آخری دور کافی تکلیف دہ تھا۔موت کے ایک سال قبل سے ہی انھوں نے کھانا پینا چھوڑ دیاتھا۔13فروری 1999کو ان کی حالت تشویشناک ہوگئی۔انھیں لکھنؤ کے میڈیکل کالج میں داخل کرایاگیا،جہاں 19فروری کی شب انھوں نے آخری سانس لی۔

حواشی:
(1) خمار بارہ بنکوی:رقصِ مے،اپنی بات
(2) http://hi.wikipedia.org/s/1h8w
(3) پروفیسر ملک زادہ منظور احمد:رقص ِ شرر،صفحہ 346
(4) ؍؍ :؍؍ ،صفحہ 506
(5) ؍؍ :شہر سخن،صفحہ 124
(6) ؍؍ :رقصِ شرر،صفحہ 508 
(7) ؍؍ :؍؍ ، 347

«
»

پانچ منٹ

ہندوستان تمام مسلمانوں اور انسانوں کا آبائی وطن ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے