ان کا یہ تبصرہ خلاف حقیقت، نازیبا اورغیرشائستہ ہے اور ان کے انداز فکر میں جارحیت اورکبر وغرور کو ظاہرکرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی غور نہیں کیا کہ جن افراد کو وہ نشانہ بنارہے ہیں ،وہ علم ، عمر اورملی معاملات میں تجربہ میں ان سے بہت بڑے ہیں۔بیشک کوئی جماعت یا فرد تنقید سے بالاتر نہیں۔ ان پر تنقید کی جاسکتی ہے، مگر شائستہ اور مہذب انداز میں۔
ان کا یہ کہنا انتہائی غیرمنطقی ہے کہ بورڈ میں ایک فرد واحد کے سوا سب گھامڑ ہیں۔ اگروہ سب بے عقل ہوتے اوران سب میں سمجھ اور بصیرت نہ ہوتی تو ایک داناکو اپنا سربراہ کیسے چن لیتے؟ بیشک مولانا رابع حسنی ندوی دیدہ ور شخصیت ہیں، مگر سریش والا کو معلوم ہونا چاہئے کہ بورڈ کے صدرمحترم تمام ارکان اورذمہ داران کے مشورے پرہی رائے قائم کرتے ہیں۔ہماری تنظیموں میں منصب اور عہدے انتظامی سہولت کے لئے ہوتے ہیں ، ورنہ صاحب صدرتمام ممبران کی رائے کا برابر سے احترام کرتے ہیں۔ اختلاف رائے فطری امر ہے لیکن کسی کی سمجھ یانیت پر شک نہیں کیا جاتا اورخوب غوروفکر کے بعدعموماً اتفاق رائے سے فیصلہ ہوتا ہے ۔
جہاں تک مسلم تنظیموں کی ترجیحات اور مطالبات کا تعلق ہے، تو وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بشمول مسلم اقلیت ملک کے تمام باشندوں کوان کے آئینی اورقانونی حقوق حاصل ہوں اور محفوظ رہیں۔ہمارے معاشرتی اور دینی معاملات میں بدنیتی سے مداخلت نہ کی جائے۔ عائلی قوانین کو مسخ نہ کیاجائے۔ ہماری مادری زبان اور تعلیمی اداروں کو آئین کے رو سے جو تحفظات حاصل ہیں ، ان کوختم کرنے کی جو کوششیں مسلسل ہو رہی ہیں ،وہ بند ہوں۔اس میں دورائیں نہیں ہیں کہ ہماری حکومتوں نے خصوصاً مسلم اقلیت کے معاملات میں بددیانتی سے کام لیا ہے، ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنا کررکھ دیا ہے اورآئین کی روح کو پامال کیا ہے۔جو ہرگز قابل قبول نہیں۔
یہ امر بھی طے شدہ ہے ان تنظیموں میں شامل افرادکسی ذاتی، تجارتی یا سیاسی مفادات کے تحت کام نہیں کرتے۔ وہ حصول زر، حصول اختیار اور قرب اقتدار کے بھوکے نہیں۔ روکھا سوکھا کھاکر جی لیتے ہیں ۔ مگرحق پر قائم رہنے کی اورحق کا بول بالا کرنے کی جد وجہد میں لگے ہیں۔
یہ بات دیگر ہے آپ کسی تنظیم یا فرد کی رائے سے اختلاف کریں، مگراس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خود کو عقل کل اورباقی سارے جہان کو بے عقل تصورکرنے لگیں ۔ سریشوالا چاہتے غالباً یہ ہیں کہ ان کی طرح ساری مسلم اقلیت ان کے ممدوح نریندر مودی کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرلے، حالانکہ نہ مودی کا ماضی بے داغ ہے اورنہ ان کی حکومت کا یہ نیا دور کوئی راحت کا پیغام لے کر آیا ہے۔ ان کے برسراقتدارآتے ہی، ان کے پریواراور ان کی پارٹی کے لیڈران نے لغویات کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ، وہ جگ ظاہر ہے۔ اس کے باجود ان لیڈروں کو انہوں نے اعزازات اور وزارتوں سے سرفراز کیا ہے۔ سریشوالا اگرمودی کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں تو یہ ان کی انفرادی سمجھ ہے۔ اس کو ملت کے ارباب دانش کی اجتماعی فہم پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ ہم بیشک اپنے جائز حقوق کے حصول کے ارادوں سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ ہمارے لئے صرف مادی خوشحالی کافی نہیں ، جس کی نوید مودی سنارہے ہیں، اپنے وجود اورانفرادیت کی بقا اور ایمان کی حفاظت بھی ہمیں عزیز ہے۔البتہ وقت اورموقع کی نزاکت سے تدبیریں بدلتی رہا کرتی ہیں۔ان پر بیشک غور کیا جاسکتا ہے اوراس میں سریشوالا بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اپنے بارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں توان کوسمجھ لیناچاہئے کہ اس طرح کی جارحانہ بیانات سے ان کی قبولیت اور معقولیت عوام کی نظروں میں بڑھ نہیں جائیگی ۔ ایسی باتیں کہنا سیاسی دانائی کے تقاضوں کے بھی خلاف ہیں۔
جواب دیں