ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہو ویسی سنو

انہوں نے مزید کہا کہ کیا کسی کی فطرت بدل سکتی ہے؟ انہوں نے شری مودی سے معلوم کیا کہ کیا انہیں 2002 ء میں گجرات کے فساد پر افسوس ہے؟ کیا انہوں نے مسلمانوں کو انصاف دلایا؟
ہم حیران ہیں کہ دگ وجے سنگھ جیسے پڑھے لکھے، تجربہ کار جہاندیدہ اور پرانے کانگریسی بھی اس قدر نیچی سطح پر اُترکر بات کرسکتے ہیں؟ 1961 ء سے لے کر جب تک اور جہاں جہاں کانگریس کی حکومت رہی وہاں مسلمانوں کے ساتھ جو ہوا اسی کا نتیجہ ہے کہ شمالی ہندوستان میں صرف ان مسلمانوں کا کانگریس سے تعلق رہ گیا ہے جنہیں یا بہت کچھ مل چکا ہے یا ملنے کی اُمید ہے۔ اور اب دہلی نے وہ دکھا دیا کہ اس کے بعد نوبت یہ آگئی ہے کہ 23 فروری کو ملک کا بجٹ اجلاس شروع ہونے والا تھا اور 17 فروری کو انڈین نیشنل کانگریس کے ہونے والے صدر اور موجودہ کارگذار صدر مسٹر راہل گاندھی چند ہفتوں کے لئے غم غلط کرنے کے لئے ہوائی جہاز میں بیٹھ کر نہ جانے کہاں چلے گئے اس کے بعد بھی شری دگیّ راجہ کایہ کہنا کہ شری مودی کانگریس کی جگہ لینے کی کوشش کررہے ہیں کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ دونوں کب ایک دوسرے سے الگ تھے اور وہ کون سی جگہ ہے جہاں دونوں ایک ہی صوفہ پر برابر برابر نہ بیٹھے ہوں بلکہ ہمیں تو یہ کہنا پڑرہا ہے کہ گجرات میں کم از کم اتنا تو ہوا کہ شری مودی کی ایک بہت چہیتی جو وزیر بھی رہی اُسے اور ایک بدنام ترین چہیتے کو عمر کی آخری سانس تک کی سزا دی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ عدالت کا فیصلہ تھا مودی کا نہیں اور جب مودی کی محبت نے جوش مارا تو دونوں ضمانت پاکر باہر آگئے۔ لیکن کانگریس کے پاس تو گجرات سے 20 گنا زیادہ مسلمانوں کی لاشوں کا حساب رکھا ہے اور کم سے کم 50 تو وہ تحقیقاتی رپورٹیں ہوں گی جو اُس کے ہی مقرر کئے ہوئے ریٹائرڈ جج جسٹس کرشنا جیسے ججوں نے لاکھوں روپئے لے کر تیار کی ہیں۔ ملک یا دنیا میں 2002 ء کے قتل عام کے متعلق اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف یا ناانصافی کے متعلق کوئی کچھ بھی کہے کم از کم کانگریس کے کسی لیڈر کو کسی طرح کا اعتراض نہ کرنا چاہئے اس لئے کہ اگر کسی نے انہیںآئینہ دکھا دیا تو یہی ہوگا کہ ؂
آئینہ دیکھ اپنا سا منھ لے کے رہ گئے
دہلی کے مسلمانوں نے دونوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرکے ثابت کردیا کہ وہ دونوں کو ایک ہی سکّہ سمجھتے ہیں صرف مودت کا فرق ہے۔
نہ جانے کتنے برس یہ تماشہ ہوا کہ کانگریسی وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے اسپیکر نے خاص طور پر بجٹ اجلاس سے پہلے مخالف پارٹی کے لیڈروں کو انتہائی محبت سے چیمبر میں بلایا جہاں اللہ کی ہر نعمت میز پر رکھی تھی اور کافی کی چسکیوں کے درمیان دل کی گہرائی سے درخواست کی کہ ہماری درخواست ہے کہ اجلاس کی کارروائی سکون سے چلے اور آپ حضرات کو حکومت کی جس بات پر اعتراض ہو اس پر کھل کر بحث کی جائے لیکن اجلاس کی کارروائی کے دوران ہنگامہ کرکے کارروائی ملتوی کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ اور ہر بار اس کا عملی جواب یہ ہوتا تھا ہفتے گذر جاتے تھے یہی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ سب ملک کے کروڑوں انسانوں کے نمائندے ہیں یا ایک دوسرے درجہ کے گھٹیا دشمن ہیں۔ پرانی باتوں کو چھوڑیئے صرف 2009 ء سے 2014 ء تک کے اجلاس کو دیکھ لیجئے جسے یہ فخر حاصل ہے کہ 1952 ء سے لے کر 2009 ء تک اتنا کم کام کسی سیشن میں نہیں ہوا جتنا اس میں ہوا ہے اور یہ کارنامہ اس پارٹی کا ہے جس کے وزیر اعظم پوری بے شرمی کے ساتھ فرمارہے ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ اہم معاملات پر گہری بحث کی جائے اور مخالف پارٹیاں چاہے جتنی کمزور ہوں اعلان کررہی ہیں کہ انہیں اتنی غنڈہ گردی کرنا ہے کہ بی جے پی مرتے دم تک یاد رکھے۔
دو سال پہلے گاندھیائی لیڈر بابا انا ہزارے نے بھرشٹاچار ختم کرنے کے لئے اس لوک پال بل کو پاس کرانے کے لئے پہلے جنترمنتر پر اس کے بعد کانگریس کی شرمناک پالیسیوں کی وجہ سے رام لیلا میدان میں جو ایماندار فقیر کی طاقت کا مظاہرہ کیا اس سے پوری حکومت ڈانواڈول ہونے لگی اور ہر زبان پر ایک ہی بات تھی کہ موہن لال کرم چند گاندھی لوٹ آئے۔ کئی دن تک لاکھوں آدمیوں کا ہجوم سب کو حیران کررہا تھا کہ کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں؟ اور ہر کانگریسی یہ ثابت کرنے پر تلا تھا کہ یہ سب سنگھ اور بی جے پی کا کھیل ہے اور اسی لئے وہ لوک پال بل پاس کرتے ہوئے ہچکچا رہے تھے کہ اسے پاس کرنا بی جے پی کے آگے گھٹنے ٹیکنا ہے۔ پھر یہی ہوا کہ جھوٹی یقین دہانی کے ذریعہ برت تڑوا دیا لیکن لوک پال آج تک کوئی نہیں بنا اور نہ بنے گا اس لئے کہ کوئی بھی چور سپاہی کی بھرتی نہیں کرے گا۔
اب مودی حکومت وہ کرنے جارہی ہے جو انگریز کے زمانہ میں ہوتا تھا کہ زمین سرکار کی حکم کلکٹر صاحب بہادر کا کہ فلاں فلاں کا کھیت سڑک بنانے کے لئے بحق سرکار ضبط کیا جارہا ہے جسے عذرداری کرنا ہو وہ تحصیلدار بہادر کے دربار میں فریاد کرسکتا ہے۔ تحویل آراضی بل جس کا آرڈی ننس مودی کی جیب میں رکھا ہے وہی کھیل ہے جو شاہی داماد نے ہریانہ اور راجستھان میں کھیلا تھا۔ انہیں پارلیمنٹ میں رکھنے سے پہلے پورے ملک اور اس قوم سے جس کا کروڑوں روپئے پچھلے سیشن میں بی جے پی کی غنڈہ گردی سے برباد ہوا ہے اس طرح گھوم گھوم کر معافی مانگنا چاہئے تھی جیسے بہار کی ریلی میں مانگی تھی اس کے بعد ہاؤس کے چلنے نہ چلنے دینے کے متعلق کوئی بات کرنا چاہئے تھی۔ لیکن انہوں نے تو نتیش کمار کو ذلیل کرنے کے لئے ایک مہادلت کے گلے میں اپنا پٹہ ڈال کر ’’ہش‘‘ کہہ کر دکھا دیا کہ ہم سا دوست نہ ہم سا دشمن۔ اس کے بعد اگر وہ ایک ہاتھ ملائم کے کاندھے پر دوسرا لالو کے کاندھے پر رکھ کر شاہی تلک میں فراخدلی کا ڈرامہ کریں تو کیا کوئی بھول جائے گا کہ وہ اندر سے کیا ہیں؟ چلتے چلتے یہ بھی سن لیجئے کہ اسی کسان کشی کو روکنے کے لئے وہ گاندھیائی فقیر پھر جنتر منتر پر آکر بیٹھ گیا ہے اور ملک بھر سے جنہوں نے مودی مودی کے نعرے لگاکر اور انہیں ووٹ دے کر اپنا ملک سونپا تھا اسے ان کے حلق میں ہاتھ ڈال کر نکالنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں ننگے پیر آرہے ہیں اور یہ ڈرامہ کانگریس کا اس لئے نہیں ہے کہ کانگریس تو ہوائی جہاز میں اُڑ گئی۔

«
»

پانچ منٹ

ہندوستان تمام مسلمانوں اور انسانوں کا آبائی وطن ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے