ہر مسئلے کو مذہب سے نہ جوڑا جائے

امن وآشتی کی اس پاک زمین کو نفرتوں کے شعلوں میں جھونک کر اپنی گندی سیاست کو ہوا دینا چاہتی ہے وہیں تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اگر ہم تنگ نظری کی رداء کو اتار کر انصاف کی عینک سے دیکھیں تو عام لوگ بھی اس کے صد فیصد ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ اپنی ذاتی مسئلے کو ناجائز انصاف کی چاہ میں مذہب سے جوڑ دیتے ہیں ،اپنی غلط کاریوں پہ پردہ ڈال کر ایسا ماحول تیار کرنا چاہتے ہیں جس میں پوری قوم کو گھسیٹا جا سکے ۔
تاریخ کی آنکھوں نے وہ دور بھی دیکھا ہے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزاپائی
پچھلے دنوں ایک کثیرالاشاعت اردو اخبار میں ایسی چونکا دینے والی خبر نظر سے گزری جسے پڑھ کر میں سر پیٹ کر رہ گیا اور سوچنے لگا کہ شاید ان ہی اسباب کی بنا پر چند لوگوں کی آزاد خیالی اور مذہب بیزاری کی سزا پوری قوم جھیلتی ہے اور بعد میں وہی سب مسائل ہمارے لیے سردردبن کر رہ جاتے ہیں اخبار کے مطابق :’’ایک مسلم لڑکی برسوں سے کسی غیر مسلم لڑکے کے دامِ محبت میں گرفتار تھی ،محبت میں اندھی ،عقل وخرد سے اپاہج لڑکی نے مذہبِ اسلام کی صاف وشفّاف تعلیمات کو ٹھکرا کر بت پرستی کی گود میں پناہ لے لیا اور لڑکا سے ہندو رسم ورواج کے مطابق شادی کرلی،ذرا سوچیے..! لڑکی گھر سے غائب رہی ،لاپتہ رہی ،برسوں محبت کی ناپاک گود میں جھولتی رہی تو اس کے ماں باپ کو اتنی فکر نہیں ستائی لیکن جب لڑکی کاقتل ہوگیا ،اس کی لاش تک کا ٹھکانہ لگانا مشکل ہوگیا تب اس کے والدین خواب خرگوش سے جاگے ۔اخبار کے مطابق اس کے نام نہاد کافر عاشق نے اجتماعی طور پر اس کی آبرو ریزی کی ،ہفتوں یرغمال بنائے رکھا اس کے بعد اسے ابدی نیند سلا دیا‘‘ ۔لڑکی کے والدین کو جب اس بات کا علم ہواتو انہوں نے اس حادثہ کے لیے اس تحریک کو ذمہ دار ٹھہرایا جسے ملک بھر میں ہندو شدّت پسند تنظیموں نے ’لوجہاد ‘ کانام دے رکھا ہے انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے یہ بیان دیا کہ لڑکا نے اسی تحریک سے متأثر ہوکر ہی اس کی بیٹی کو موت کے گھاٹ اتا ردیا ہے۔
اس طرح کی داستانیں اب اس ملک کے لیے کوئی نئی نہیں رہ گئی ہیں، عام طور پر امن وآشتی کی اس پاک زمین کو بے گناہوں کے خون سے رنگین کرنے کے لیے اسی قسم کاڈرامہ تیار کیا جاتا ہے ،تا کہ ملک دشمن عناصر اپنی سیاست کی روٹی سینک سکیں اور منافرت کے مشن کو پایہء تکمیل تک پہونچا سکیں کیونکہ اس نوعیت کی جتنی بھی وارداتیں پیش آتی ہیں ان میں ہرعام وخاص بہت جلد جذبات میں آجاتا ہے اور آنکھیں موندکر اپنے لیے ان راہوں کا انتخاب کر لیتا ہے جن پہ چل کر صرف تباہی ہاتھ آتی ہے،جانیں جاتی ہیں ،لوگ بے گھر ہوتے ہیں ،ایک پڑوسی محض مذہبی تعصب کی بناپر دوسرے پڑوسی کی جان تک کا دشمن ہوجاتا ہے،اپنے پرایے لگنے لگتے ہیں اس طرح پل بھر میں پرسکون زندگی جینے والا علاقہ کا علاقہ شمشان گھاٹ بن کر رہ جاتا ہے۔
جبکہ ایسے موقع پر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے،اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ اس طرح کے حادثے آخر کیوں رونما ہوتے ہیں ؟ کہیں یہ ہماری اپنی لاپرواہیوں کا پیش خیمہ تو نہیں؟ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے قطعِ نظر جب مسلمان گھروں کی بیٹیاں آزاد ماحول میں پرورش پاکر ایسی راہوں کا انتحاب کر لیتی ہیں ،غیر مسلم لڑکوں کے پریم جال کا شکار ہو جاتی ہیں تو دل اندر سے روتا ہے، ان گارجین حضرات کی عقل پہ ماتم کرنے کو جی کرتا ہے،جو خود کوآزاد خیال تصور کرتے ہیں اور اپنی اولاد کو بے لگام جانوروں کی طرح عیش گا ہوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔اپنے مذہب کے احکام وفرامین کو فرسودہ تعلیمات کا حصہ سمجھ کر خاطر میں نہیں لاتے ،انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ ان کا تعلق کس مذہب سے ہے؟ انہوں نے کس گھرانے میں آنکھ کھولا ہے؟ان کی زندگی کا مقصد کیاہونا چاہیے ؟ اپنی خود ساختہ تھیوری کو گلے لگا کر شیطان کی طرح دندناتے پھرتے ہیں انہیں مذہب کی یاد اس وقت آتی ہے جب ان کے ساتھ کوئی ایسا سانحہ پیش آتا ہے جس کے سہارے مسلمانوں کے منجمد خون میں گرمی پیدا کی جا سکے۔ کیونکہ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ’’ اس سادہ دل قوم کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اشتعال انگیز پُرفریب نعروں کا قدم قدم پہ بڑی آسانی کے ساتھ شکار ہوجاتی ہے رک کے ایک لمحے کے لیے بھی اس کے مضمرات پہ غور نہیں کرتی ،اسے سوچنے کا موقع اس وقت ملتا ہے جب یہ پورے طور پر تباہ وبرباد ہوچکی ہوتی ہے ؂
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
المیہ یہ ہے کہ ایک لڑکی یا لڑکا جب تک آنکھ مچولی کا کھیل رہا ہوتا ہے تو کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی ،ماں باپ سب کچھ جاننے کے باوجود آزادی کے نام پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں لیکن جب مصیبت سر پہ آتی ہے کوئی انہونی حادثہ رونما ہوجاتا ہے تب انہیں مذہب کی یاد آتی ہے، اپنی قوم کے افراد کی ہمدردی بٹورنے کی دل میں تڑپ پیدا ہوتی ہے ،ایسا لگتا ہے جیسے ان کی عیش وتنعم میں ڈوبی زندگی کی طرح مذہب بھی کوئی تماشا ہو،حد تو یہ ہے کہ اس مرض کے شکار صرف وہ گھرانے نہیں ہیں جن کی اپنی کوئی شناخت نہیں بلکہ وہ ذی شعور، اہلِ علم جنہیں سماجی سطح پر ایک وقار حاصل ہے،جنہیں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے،جو بڑی بڑی محفلوں سے اپنی قوم کے پیچیدہ مسائل پہ بحث کرتے ہیں اور اس سے نجات کی سبیل ڈھونڈنے میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں وہ بھی کسی سے کم نہیں ۔کیا بھلا کیابُرا سچ تو یہ ہے کہ اس حمام میں سب کے سب ننگے نظرآتے ہیں۔
سمجھ میں آتا نہیں کہ چھیروں داستاں کیسے
رُلاؤں تو بغاوت ہے ہنساؤں تو بغاوت ہے
آج اس طرح کے پیش آمدہ مسائل پہ اہلِ نظر کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ حالات دنبدن بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ دہریت کا پیکر بن چکا ہے،لادینیت کا خوگر ہو چکا ہے،اسے اپنے مذہب کی باتیں بے معنیٰ معلوم ہوتی ہیں جب کہ وہ بھول جا تے ہیں ’’دنیا کا چا ہے جتنا بڑا انسان ہو ،اپنے زمانے کا قدآور فلاسفر ہی کیوں نہ ہو جب ساری دنیا اسے ٹھکرا دیتی ہے تو تھک ہار کر وہ مذہب ہی کے دامن میں پناہ لیتا ہے‘‘۔

«
»

پانچ منٹ

ہندوستان تمام مسلمانوں اور انسانوں کا آبائی وطن ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے