میڈیا کی ساری توجہ جتن رام مانجھی کی سرگرمیوں پر رہی اور اس کو پروجیکٹ کرنے میں میڈیا نے زمین آسمان کے قلابے ملا دےئے۔ لیکن آخر کار سچ کے سامنے میڈیا اور بی جے پی کے پروجیکٹیڈ جتن رام مانجھی کی ہار ہوئی اور ایک بار پھر بہارمیں پر فرقہ پرست عناصر قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔ نتیش کمار کی حکومت بن گئی ہے اور ان کے پاس کے تقریباً نو ماہ ہیں لیکن ان نو ماہ کے دوران کیا کرپاتے ہیں یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بہار میں فرقہ پرستی کو فروغ دینے کا سہرا نتیش کمار کے ہی سر ہے۔ کیوں کہ نتیش کمار کی بی جے پی سے سترہ سالہ دوستی نے بہار کو فرقہ پرستی کی آندھی میں زبردست طریقے سے جکڑ دیا ہے جس کا مظاہرہ آئے دن بہار میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ گزشتہ ماہ مظفر پور کے عزیز پور میں مسلمانوں کا گاؤں جلایا جانا اس بات کا ثبوت ہے۔ بی جے پی جب چاہے گی فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں بہار کو دھکیل سکتی ہے۔ کشن گنج میں اے ایم یو سنٹر کی زمین پر قبضہ کرانے کی کوشش میں بھی بی جے پی کا ہاتھ تھا۔ بی جے پی کی ترقی اور اس کی نشوونما مسلم فسادات، مسلمانوں کو ہر شعبے میں نقصان اورمسلمانوں کی ترقی کے راستے مسدود کرنے میں پنہاں ہیں۔ یہ بات اب وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ کم از کم 30 سے 35 فیصد ہندو مسلمانوں کو محض نقصان پہنچانے کی وجہ سے بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں۔ اس کا مظاہرہ لوک سبھا انتخابات سے لیکر ہریانہ، مہاراشٹر ، جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر کے انتخابات ہوچکا ہے۔ یہی بات اب دیگر ریاستوں میں دہرانے کی کوشش کی جائے گی اور سب سے پہلا نشانہ بہار ہے۔ بہار میں لوک سبھا انتخابات کے دوران بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکنان ہندوؤں کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب رہے تھے کہ اگر وہ نریندر مودی کو ووٹ دیں گے تو وہ بہار سے مسلمانوں کو بھگادیں گے اور پھر ان کی ساری جائداد ہندوؤں کی ہوجائے گی۔اسی خوش فہمی نے ہندؤں نے یکطرفہ طور پر بی جے پی کو ووٹ دیا۔ جتن رام مانجھی کے معاملے کو اسی آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ گزشتہ نو ماہ کے دوران مرکز کی نریندر مودی حکومت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس سے ہندوستانی عوام نے راحت کی سانس لی ہو۔ مہنگائی آسمان پر ہے اور مودی کے حکومت سنبھالتے ہی تمام اشیا کیَ قیمتوں میں زبردست اچھال آیا۔ تمام وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔صرف اس نو ماہ کے دوران سرمایہ داروں کا بھلا ہوا ہے اور غریبوں کے لئے چلائی جانے والی فلاحی اسکیموں میں زبردست کٹوتی ہوئی ہے اور یہاں تک صحت کے بجٹ میں بھی زبردست کٹوتی کی گئی ہے۔ اس لئے بی جے پی کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے ۔ لہذا بی جے پی کو یہ آسان راستہ نظر آیا کہ مانجھی کو اپنے ساتھ ملاکر مہادلت کارڈ کھیلا جائے۔ کیوں کہ نتیش کمار بھی مہادلت اور انتہائی پسماندہ ذات اور انتہائی پسماندہ مسلمانوں کا کارڈ کھیل کر 2010میں لالو کو زبردست شکست دیکر دوبارہ بہار کی حکومت پر قبضہ کیا تھا۔ اب بی جے پی اسی راستے پر گامزن ہوگی کیوں کہ جتن رام مانجھی اس وقت مہادلت کے لیڈر بن چکے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی بہار میں بہت خوبصورتی کے ساتھ سوشل انجینئرنگ کرتی رہی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہلی میں بی جے پی کی ساری حکمت عملی دھری کی دھری رہ گئی لیکن بہار میں سوشل انجینئرنگ کے محاذ پر وہ کافی کامیاب رہے ہیں۔ مانجھی کارڈ کے ذریعہ انہوں نے مہا دلتوں میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پسماندہ طبقات میں اور تو اور لالو پرساد یادو کے ووٹ بینک یادووں میں بھی دراندازی کی ہے۔ جے ڈی یو اور نتیش کمار مانجھی سے یوں ہی ناراض نہیں ہوئے تھے۔ مانجھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امت شاہ اور وزیر اعظم مودی سے رابطے میں تھے۔ وہ بار بار دھمکی دیتے تھے کہ جے ڈی یو کو کہ اگر آپ مجھے پریشان کریں گے تو میں 20 منٹ میں وزیر اعظم سے بات کر سکتا ہوں۔یہ بی جے پی کا ماسٹراسٹروک تھا۔ ایک وزیر اعلی کو اس کی پارٹی سے، اس کے لیڈر سے توڑنا۔لیکن یہ ناکام ہو گیا اور پارٹی کی فضیحت ہوئی، گورنر کے کردار کی بھی تنقید ہوئی ہے۔ اس واقعہ سے نتیش کمار اسے استفادہ حاصل کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑیں گے۔اس پورے معاملے سے نتیش کمار کو ایک اخلاقی قوت ملے گا اور وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ انتخابی میدان میں اتریں گے۔ اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ، اڈیشا، تمل ناڈو، مغربی بنگال میں ہونے والے اسمبلی انتخابات انتخابات مودی کے نشانے پر ہیں۔ حالانکہ دہلی اسمبلی انتخاب نے مودی کی کامیابی کے رتھ کو روک دیا ہے لیکن مودی اپنی کامیابی کے سلسلے میں کو اگلے چند برسوں میں ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات میں وسعت دینے کی تمنا رکھتے ہیں۔ لوک سبھا میں مودی کامیابی ہر جگہ دیکھنے میں آئی تھی لیکن تین ریاستوں کے سربراہ اڑیسہ کے نوین پٹنائک، مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور تمل ناڈو کی وزیر اعلی جے للتا جے رام جنہوں نے مودی کی آندھی کو تھام لیا تھا۔ ان پارٹیوں سے لوہا لینا مودی۔شاہ کے لئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوگی۔ہریانہ، مہاراشٹر ، جھار کھنڈ اور جموں و کشمیر کے انتخابی نتائج کے بعد بی جے پی کی نظر اب ملک کے تمام ریاستوں پر ہے۔ ملک کی سب سے بڑا صوبہ اتر پردیش، بہار، اڈیشا، تمل ناڈو اور مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات مودی کے ٹارگیٹ پر ہے۔مودی کے خاص نشانے پر خاص طور پر بہار اور اتر پردیش ہے ۔ اترپردیش کی اقتدار سے بے دخل ہوئے بی جے پی کو 12 سال سے زائد گزر چکے ہیں۔ بی جے پی نے گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں 80 میں 73 سیٹیں جیت کر باقی کے جماعتوں کا تقریباًخاتمہ کر دیا تھا۔
جتن رام مانجھی نے اپنے مستقبل کے پیش نظر کئی ایسے کام کئے ہیں جو آنے والے الیکشن میں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ٹھیکیداری کی مرکزی نظام کو تہس نہس کرتے ہوئے بڑے تعمیراتی کاموں کی ٹھیکیداری ٹکڑوں میں بانٹنے کی پہل مانجھی کے بڑے فیصلوں میں سے ایک ہے۔ساتھ ہی درج فہرست ذات گوترا کے لئے ٹھیکیداری میں چار فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا گیا اور حکام کو اس کے عمل کو یقینی بنانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔نتیش کمار کے دور اقتدار کے دوران بے گھر غریبوں کو تین ڈیسمل زمین دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کی خرید کے لئے 20 ہزار روپے کا انتظام کیا گیا تھا۔ مانجھی نے اس زمین کے رقبے کو بڑھا کر پانچ ڈیسمل کر دیا اور خرید کے لئے 20 ہزار کی زیادہ سے زیادہ حد لائن ختم کر دی تاکہ غریبوں کو بسانے کی انسانی نظام ہو۔ گزشتہ دنوں بہار میں نتیش کے دور حکومت میں جو ز مینیں دی گئی تھیں ان بہت سے وہ علاقے بھی تھے جہاں دیہی غریبوں کو گڈھے میں زمینیں دی گئیں تھیں۔آئین کے 73 ویں ترمیم کے مطابق بہار میں پنچایتی راج قانون 2006 نتیش کمار کے دور اقتدار میں ہی منظور کیا گیا تھا پر مقامی انتظامیہ کو مضبوط کرنے کے لئے بنائے گئے 29 دفعات کبھی بھی نفاذ کی شکل نہیں لے سکیں تھیں۔ مانجھی حکومت ان 29 دفعات کو عمل میں لانے کی پہل بھی کرنے جا رہی تھی۔ پنچایت نمائندہ اپنے خلاف فرضی مقدموں کو لے کر تحریک چلا رہے تھے۔ مانجھی حکومت نے پنچایت نمائندوں کے خلاف تحقیقات ایس ڈی او کی سطح کے نیچے کے عہدیدار سے کروانے پر روک لگا دی اور سربراہ وغیرہ کے اوپر مقدمے کے لئے ریاستی حکومت سے اجازت لازمی کر دیا۔ اس کے علاوہ 1999 میں جہان آباد ضلع کے شنکر بگہا گاؤں میں ہوئے ایک قتل عام میں کئی دلتوں کے قتل کر دیا گیا تھا۔ قتل عام کے متاثرین کی بازآبادکاری تو توجہ نہ دینے کا الزام پچھلی حکومتوں پر لگتا رہا تھا۔ مانجھی کے دور حکومت میں بحالی کے کام میں تیزی لائی گئی اور اس کے لئے سروے شروع کیا گیا ہے 1993 میں بننے والی عربی فارسی یونیورسٹی کو پچھلی کئی حکومتیں زمین دلوانے میں غیر فعال رہیں تھیں۔حج عمارت میں فی الحال یہ یونیورسٹی چل رہا ہے۔ مانجھی حکومت نے زمین الاٹ کردی ہے۔ یہ تمام کام سے مانجھی کی دلتوں ، مہادلتوں اور دیگر طبقوں میں مقبولیت بڑھی ہے۔ اس کا فائدہ مانجھی ضرور اٹھائیں گے اور مانجھی کے سامنے اب تین متبادل ہیں۔ پہلا تو یہ کہ وہ ایک علاقائی جماعت بنائیں اور مہادلت طبقہ کو شامل کریں۔ اس کے بعد وہ علاقائی جماعت کی حیثیت سے وہ این ڈی اے میں شامل ہوجائیں۔ اب چونکہ بی جے پی اس معاملے میں کھل کر ان کی حمایت میں آگے آئی ہے اس لئے ایسا مانا جا سکتا ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ جائیں گے۔ دوسرا متبادل یہ ہے کہ براہ راست بی جے پی میں چلے جائیں۔تیسرا آپشن یہ ہے کہ وہ معافی مانگ طلب کرکے کہیں گے کہ وہ ابھی جے ڈی یو میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔ اس کا امکان اب کم نظر آتی ہے کیونکہ پریس کانفرنس میں وہ جو کچھ بول چکے ہیں اسے دیکھتے ہوئے لگتا نہیں کہ وہ جے ڈی یو کے دروازے ان کے لئے کھیلں گے۔ بی جے پی بھی چاہتی ہے کہ مانجھی کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔ تاکہ ان کا فائدہ بی جے پی کو سیکولر، دلتوں اور مہادلتوں کے ووٹوں کی تقسیم کی صورت میں حاصل ہو۔
بی جے پی ہمیشہ ووٹوں کی تقسیم سے ہی فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ خواہ اس کے لئے انہیں جذبات بھڑکانا پڑے یا قتل عام کرناپڑے یا قاتلوں کی حمایت کرنی پڑی۔ بہار میں جب برہمیشور مکھیا کا قتل ہوا تھا تو اس وقت برہمیشورمکھیا بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظر میں گاندھی نظریہ کے حامل شخص تھایہی وجہ تھی کہ بی جے پی کے لیڈران ان کی شان میں رطب اللسان تھے۔ بہار کے مویشی پروری کے سابق وزیر اور اس وقت مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے انہیں گاندھی نظریہ کا حامل قرار دیا جس کی وجہ سے مذکورہ وزیر کے خلاف بھاگلپور میں مقدمہ درج ہوگیا تھا ۔ وہیں بی جے پی کے رہنما راجیو پرتاپ روڈی نے برہمیشورکو عظیم انقلابی اور ترقی کا سفیر بتاتے ہوئے صحیح معنوں میں انہیں کسانوں اور مزدوروں کے خیر خواہ قراردیا اور دلیل پیش کی کہ مکھیا کتنے مقبول تھے اس کا اندازہ ان کے جنازے کے جلوس میں امڈآئے عوامی سیلاب سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برہمیشور کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی گئی تھی۔ برہمیشور مکھیا کی یاد میں برہمن فیڈریشن کی طرف سے جلسہ تعزیت کا انعقاد کیا گیا تھا برہمن فیڈریشن کے اس وقت کے صوبائی صدر راج ناتھ مشرا نے اس موقع پر صدر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بہار نے ایک ہنرمند کسان لیڈر کھو دیا ہے۔برہمن سماج نے مکھیا کو انسانیت کے کام کرنے والے قراردیا۔ بہار میں اعلی اورادنی ذات کے درمیان کس قدر کھائی ہے ۔ بی جے پی اور برہمنوں کے ان جملوں سے سمجھا جاسکتاہے۔انسانیت کے اتنے بڑے قاتل کی حمایت میں اتنے لوگوں کاسڑکوں پراترنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ بہار میں اب انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ جنگل راج اپنا آہنی پنجہ گاڑچکا ہے اور یہاں کمزور طبقوں کو انصاف نہیں ملے گا۔ اس وقت نتیش کمار نے ان لوگوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔ کیوں کہ نتیش کمار اس وقت بی جے پی سے شیروشکر کی طرح ملے ہوئے تھے۔ یہ واقعہ ہندوستانی جمہوریت میں ’’جس کی لاٹھی اسی کی بھینس‘‘ کی کہاوت کو ثابت کرتا ہے۔
ہندوستان میں جمہوریت سے کس قدر کھیلواڑ کیا جاتا ہے اس کی تازہ ترین مثال بہار کی سیاست ہے۔ بہار کے معاملے نے یک بار پھر ثابت کردیا کہ گورنر ایک آئینی عہدہ نہیں بلکہ پارٹی مفادات کی ترجمانی اور پارٹی کا عہدہ ہے اورگورنر جس طرح چاہے جمہوریت کے رخ کو موڑ سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ عشرہ کے درمیان میں بہار کون کون سا کھیل نہیں ہو۔ گورنر نے بی جے پی کے حق میں فضا ہموار کرنے کی کون سی کوشش نہیں کی۔ یہ جانتے ہوئے کہ مانجھی کے پاس اکثریت نہیں ہے بی جے پی کی حمایت سے انہیں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی اور اس دوران مانجھی نے ایک دلت لیڈر کے طور پر ابھرنے کی پوری کوشش کی اور راتوں رات دلتوں کے مسیحا بننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایسا اس لئے ہوا کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے اور بہار میں بی جے پی کا سرگرم کارکن گورنر ہے۔
بہارکا قضیہ دراصل آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ جہاں ایک طرف بی جے پی اپنی کامیابی کے امکانات تلاش کر رہی ہے وہیں نتیش کمار بی جے پی کی کامیابی کے رتھ کو روکنا چاہتے ہیں۔ نتیش کمار جہاں عوام سے معافی مانگ کر بہار کے عوام کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہیں بی جے پی انہیں بہار کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر بھاگنے والا شخص کے طور پیش کرنے کی کوشش کرے گی۔ بہار میں یہ نو ماہ اتھل پتھل ،جوڑ توڑ اور ساز باز اور ایک دوسرے کی خامیوں کو اجاگر کرنے میں گزر جائیں گے۔ نتیش کمار کے لئے یہ نو ماہ کسی آزمائش سے کم نہیں ہوں گے۔جہاں ان پر پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی ذمہ داری ہوگی وہیں بی جے پی کے اثر کو کم کرنے کا کام بھی ان کے سر پر ہوگا۔ اس سے زیادہ بہار کے عوام کی آزمائش ہوگی وہ جھوٹے خواب دکھانے والوں ،نفرت کے سوادگروں، ملک کو ٹکڑے کرنے والوں اور سماج کو تقسیم کرنے والوں کے جھانسے میں آتے ہیں یا سیکولر پارٹیوں پر اعتماد ظاہر کرکے بہار کو بدنامی سے بچاتے ہیں۔
جواب دیں