اسلامی و مغربی معیشت میں موازنہ

اجتماعی زندگی میں ایک اہم شعبہ انسان کی معاشی و اقتصادی زندگی ہے . لیکن مغرب کے غلبے کے بعد معاشیات کا بھی رخ بھی تبدیل کیا گیا ۔ معاشیات کے اندر تباہی کا آغاز اس وقت سے ہوا جس وقت مذھب اور معاشیات کا دائرہ الگ کردیا گیا .مغربی سرمایہ داری میں اول تو اخلاقی اقدار اور اخلاقی اصو ل سرے سے غیر متعلق سمجھے جاتے ہیں لیکن اگرکہیں اخلاقی اقدار اور اصولوں کا تذکرہ ملتا بھی ہے تو اس حد تک جس تک نفع ہو مثلاًسچ بولنا اس لئے اچھا ہے کہ سچ بولنے سے خریدار کا اعتماد قائم ہوجاتا ہے اس نظام معیشت میں اصل ھدف ہر چیز کی بہتات اور کثرت ہے ۔روزانہ نت نئی چیزوں کا پیدا کرنا اور غیر ضروری ضروریات کو لوگوں کیلئے ناگزیر بنادینا .دوسری خرابی یہ کہ اس میں نفع کا محرک اولین اہمیت حاصل کرتا ہے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا سرمایہ دارانہ معیشت کے بنیاد ی مقاصد میں سے ہیں اس لئے ان کے نزدیک تجارت کرتے وقت ہر چیز درست ہوجاتی ہیں .اسی لئے خریدار کو بیوقوف بنانے کیلئے جھوٹی اشتہاربازی کی جاتی ہیں اور حد یہ کہ آج اشتہاربازی ایک ھنر بن گیا ہے جس پر جامعات ،علمی اداروں کے مراکزبقیہ علوم وفنون سے کہیں زیادہ توجہ دے رھے ہیں. (۳)یہ شکایت آج دنیا کے ہر ملک میں ہیں کہ وہاں طبقاتی تقسیم وسیع اور گہری ہورہی ہے بدقسمتی یہ کہ اسی نعرے کے ساتھ کمیونزم اٹھا لیکن ایسے طبقاتی تقسیم کو جنم دے کر دنیا سے رخصت ہوا کہ جس سے بدتر تقسیم ملنی مشکل ہے(۴)مغربی نظام کی اٹھان وسائل کی غیر عادلانہ تقسیم پر ہے جس سے ارتکازدولت بھی پیدا ہوتا ہے اور معاشی اتار چڑھاؤ بھی تیزی کے ساتھ اور کثرت کے ساتھ آتا ہے واقعہ یہ ہے کہ آج عالمی سطح پر (ڈبلیو،ٹی،او)اور(ایس،او) جیسے خوشنما عنوانات کے تحت جو قوانین بنا ئے جارھے ہیں وہ عموماًمشرقی ممالک اور بالخصوص دنیائے اسلام کیلئے بالآخر انتہائی تباہ کن ثابت ہوں گے ۔یہ عدم توازن جو آج مشرق و مغرب میں پایا جاتا ہے یہ محض اتفاق نہیں بلکہ اس معاشی نظام کے لازمی نتائج ہیں جو آج دنیا میں قائم ہے کاش کہ دنیا مکمل طور پرپھر سے اسلامی نظام کو اپنالے (جو کہ دراصل ہم سب کے شفیق پروردگار کا تمام انسانوں کیلئے حسین تحفہ ہے )جس سے انسانیت کو پھر سے سکون کی زندگی نصیب ہو (۵)مغربی معاشیات کا ایک اہم رجحان یہ بھی ہے کہ انسانوں کی ہر مادّی خواہش کو درست مان کر اس کی تکمیل کی جائے (۶)مغربی دنیا نے دولت کے ارتکاز(دولت کو چند آدمیوں تک محدود کرنا)ایک اصول کے طور پر اپنایا ہے اس لئے وہاں بہت سے ایسے تصورات اور قوانین ہیں جو ارتکاز دولت کو نہ صرف یقینی بناتے ہیں بلکہ اس میں اضافے کا ذریعہ بھی بناتے ہیں جبکہ اسلام نے ارتکاز دولت کی سخت ممانعت کی اوراس کیلئے ایسے اصول واحکام صادر فرمائے جس پر عمل کرنے سے دولت کی صحیح تقسیم تمام انسانوں میں ہوں.مزید برآں کے آج ترقی پذیرممالک ومعیشتوں کو دنیا میں جو مسائل درپیش ہیں ان میں بے روزگاری ایک عالمگیر مسئلہ ہے یہ بھی مغرب کے معاشی نظام کا لازمی تقاضا ہے.مغربی ممالک میں آئے دن بڑے پیمانے پر بے روزگاری کی شکایتیں سننے میںآتی ہیں لاکھوں ملازمین کو بڑی بڑی کمپنیاں نکال دیتی ہیں اسلئے کہ اچانک کسی ایسے مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑتاہے جسکی وجہ سے وہ اتنی ملازمین کی اتنی بڑی تعداد کا بوجھ نہیں اٹھاسکتی آخر اچانک مالیاتی بحران کیوں پیدا ہوتاہے ؟اس لئے کہ ان کمپنیوں کا سارا کاروبار غیر حقیقی مال کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔
دوسر ی طرف اسلامی نظام معیشت کے امتیازی اوصاف میں سب سے پہلی چیز یہ کہ یہ ایک دینی نظام ہے جس میں خالص دینی تصورات کی بنیاد پر اخلاقی اصول تشکیل پاتے ہیں(۲)یہ کہ اسلامی معیشت ایک جامع اور مکمل نظام کا ایک حصہ ہے جو زندگی کے تمام پہلؤوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے زندگی کے پورے نظام میں معاشی سرگرمیوں کی جگہ متعین کرتا ہے اور بقیہ تمام اجزاء کو ساتھ لے کر انسانی زندگی کے مشترکہ اھداف اور مقاصد کی تکمیل کیلئے کام کرتا ہے(۳)معیشت کو عبادت کا رنگ دیتا ہے (۴) اس میں حالات و زمانے کی رعایت اور تقا ضوں کو اپنے اندر سمولینے کی غیر معمولی صلاحیت پائی جاتی ہے(۵)یہ براہ راست انسانوں کی حقیقی ضروریات کا پورا پورا ادراک پورے توازن کے ساتھ رکھتا ہے.اسی خصوصات کے پیش نظر علمائے اسلام نے اسلامی معیشت پر ہزاروں صفحات سیاہ کئے بلکہ اسلامی معاشی تعلیمات کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ اگر اسلامی فقہ کی کسی بھی کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے تو اس کے دو حصے معیشت سے متعلق ہونگے .فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’ھدایہ‘ کی چار جلدیں ہیں جس میں سے آخری دو جلدیں تمام تر معیشت کی تعلیمات پر مشتمل ہیں ۔
چونکہ موجودہ دور کا سب سے بڑا چیلنج معیشت ہے اس لئے اور بھی زیادہ اس کی ضرورت ہے کہ موجودہ دور میں ایک ایسی جماعت پائی جائے جو ایک طرف قرآن و حدیث اور فقہائے امت کے علمی ذخائر سے پوری واقفیت کے ساتھ جدید معیشت پر بھی ان کی گہری نظر ہوتاکہ امت دعوت ہونے کی حیثیت سے ہم پور ی ا نسانیت کو پھر سے وہ صالح نظام دینے میں کامیاب ہو جس کو لے کر رحمت دو عالمﷺکی بعثت ہوئی تھی جس سے انسانیت کو اس طاغوتی نظام سے چھٹکارا مل جائیگاجس میں اس وقت بری طرح گرفتارہیں.یہ وقت کی آواز ہے اج بھی اگر انسانیت کو پتہ چل جائے کہ اس کو یہی صحیح راہنمائی مل جائے گی تو آج بھی اس کو اپنانے کیلئے تیار ہے بلکہ منتظر ہے . مگرآفسوس صد آفسوس کے وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہی واقف نہیں ہے۔ کسی شاعر نے بڑی اچھی بات کہی ہے،
میرے طائر قفس کو نہیں باغباں سے رنجش
ملے گھر میں آب ودانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے ْ 

«
»

پانچ منٹ

ہندوستان تمام مسلمانوں اور انسانوں کا آبائی وطن ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے