این آئی اے نے اسے نہ صرف کلین چٹ دے دیا ہے بلکہ قصور وار پولس والوں کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا ہے مگر اسی کے ساتھ کئی سوال بھی اٹھے ہیں جن کے جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ لیاقت شاہ کو پولس کی مجرمانہ ذہنیت کے سبب جو تکلیف اٹھانی پڑی اس کا مداوا کیسے ہوگا؟ اس نے جو وقت جیل میں گزارا اور کورٹ کچہری کے چکر کاٹے اس کا کفارہ پولس کیسے ادا کرے گی؟لیاقت شاہ کے گھر والوں کو پولس والوں کے سبب جن اذیتوں سے گزرنا پڑا اس کی بھرپائی کیسے ہوسکتی ہے؟ لیاقت شاہ جیسے اور بھی بہت سے بے قصور افراد پولس کی گرفت میں آتے رہتے ہیں اور انھیں جھوٹے مقدموں میں پھنساکر ان کی زندگیاں تباہ کی جاتی رہتی ہیں۔ خاص طور پر مسلمانوں کو دہشت گردی کے کیسوں میں پھنسایا جانا عام بات ہے۔ یوپی سے مہاراشٹر تک اور بنگال سے حیدرآباد تک اس قسم کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ پولس نے مسلمانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلیا اور ان کی زندگی برباد کردی۔ ایک لمبی مدت جیل میں گزارنے کے بعد ان کی رہائی ہوئی
تب تک ان کی دنیا بدل چکی تھی۔ پولس والوں پر فرضی انکاؤنٹرس سے لے کر ریپ تک کے الزمات لگتے رہتے ہیں مگر وردی والے ان غنڈوں کے خلاف کم ہی کارروائی ہوتی ہے جب کہ ان کے ذریعے پھنسائے گئے لوگوں کا سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پولس کے اس رویہ کے سبب بھی دہشت گردی اور نکسلواد میں اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں ایک طرف اصل مجرم چھوٹ جاتے ہیں وہیں دوسری طرف بے گناہ کو ناکردہ گناہی کی سزا مل جاتی ہے۔ ایسا ہی لیاقت شاہ کے معاملے میں بھی ہوا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مجرم پولس والوں کے خلاف سخت کارروائی ہو تاکہ دوسروں کا اس سے سبق ملے اور وہ معصوم شہریوں کو پھنسانے سے باز رہیں۔
کیا وہ دہشت گرد تھا؟
کشمیر کے کپواڑہ کے باشندہ لیاقت شاہ کا واقعہ یہ ہے کہ وہ ماضی میں ایک علاحدگی پسند رہ چکا ہے اور اسی سلسلے میں وہ سرحد پار چلا گیا تھا مگر جب جموں وکشمیر حکومت نے معافی کا اعلان کیا تو وہ واپس چلا آیا تاکہ نئے سرے سے اپنی زندگی کی شروعات کرسکے۔ تب کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سے اس کے لوگوں نے بات بھی کی تھی اور حکومت کی یقین دہانی کے بعد لیاقت شاہ بھارت واپس آیا تھا۔ وہ نیپال ۔بھارت سرحد سے سنولی (گورکھپور)کے مقام پر بھارت میں داخل ہوا جہاں اسے ۲۰مارچ ۲۰۱۳ء کوگرفتار کرلیا گیا۔حالانکہ پولس نے اس کی گرفتاری ۲۱مارچ ۲۰۱۳ء کو دلی کے ایک گیسٹ ہاؤس سے دکھائی۔ پولس نے دعویٰ کیا کہ اس نے لیاقت شاہ کے پاس سے ہتھیار اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ہے اور وہ راجدھانی میں دہشت گردانہ حملے کے ارادے سے آیا تھا۔ جب یہ خبر میڈیا میں آئی تو عمر عبداللہ نے مرکزی سرکار سے مداخلت کرنے کی اپیل کی اور سچائی سے حکومت کو آگاہ کیا۔ انھوں نے تب کے وزیر ڈاخلہ سشیل کمار شندے سے ملاقات کر کے وہ تمام ثبوت رکھے جو جموں وکشمیر پولس کی طرف سے انھیں فراہم کئے گئے تھے۔ مرکزی سرکار نے بھی اس معاملے کی این آئی اے کے ذریعے جانچ کا حکم صادر کردیا اور جب یہ جانچ ہوئی تو انکشاف ہوا کہ لیاقت کے خلاف مجرمانہ سازش خود دلی پولس کے جوانوں نے رچی تھی۔ وہ مجرم نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی ہتھیار تھا بلکہ وہ واقعی خود سپردگی کر کے نئی زندگی شروع کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔وہ ۱۹۹۰ء سے پاکستان میں تھا اور اس نے حکومت جموں وکشمیر سے واپس آنے کی اجازت طلب کی تھی اور اجازت ملنے کے بعد ہی وہ یہاں واپس آیا تھا۔
مجرم پولس والے
جن پولس والوں نے لیاقت شاہ کے خلاف سازش رچی تھی اور جھوٹے شواہد پیش کئے تھے ان کے نام اے سی پی منیشی چندرا،ہیڈ کانسٹیبل احمد خان،انسپکٹر سنجے دت ، اقبال در، کشن کمار،گلویر سنگھ اور انسپکٹر دھرمیندر کمار شامل ہیں۔ جب کہ پولس کے مخبر صابر خان پٹھان نے بھی لیاقت شاہ کو پھنسانے کے لئے پولس کا ساتھ دیا تھا۔ اے سی پی منیشی چندرا اور ہیڈ کانسٹبل احمدخاں نے جھوٹے ثبوت جمع کئے تھے جب کہ پہلے تفتیشی افسر سنجے دت اور آرسٹنگ افسر دھرمیندر کمار بغیر کسی اہم ثبوت کے اسے گرفتار کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ دھرمیندر کمار اور احمد خان فرضی آرسٹ میمو اور فرضی ساائٹ پلان کے بھی قصور وار پائے گئے ہیں۔ چندرا نے تفتیشی افسر کے طور پر جھوٹے شواہد کو قبول کیا،اس کے لئے بھی وہ ذمہ دار پایا گیا۔ اس معاملے میں شامل تمام پولس والوں نے مخبر صابر خان پٹھان سے رابطہ بنائے رکھا اور جھوٹے
کیس بنانے میں اس سے مدد لی۔پولس نے جس کپڑے کو لیاقت کا بتایا تھا اس کی سائنسی جانچ نے ثابت کیا وہ لیاقت کا تھا ہی نہیں بلکہ مخبرصابر خان پٹھان کے باپ کا تھا۔ غور طلب ہے کہ پولس نے اسے حزب المجاہدین کا دہشت گرد بتایا تھا اور جب یہ معاملہ کورٹ میں پہنچا تو اس نے درخواست ضمانت کی مخالفت کی تھی باوجود اس کے کورٹ نے مئی ۲۰۱۳ء میں اسے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم صادر کردیا تھا۔ اسی وقت سے یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ وہ بے قصور ہے اور اسے خواہ مخواہ پھنسایا گیا ہے۔ این آئی اے نے جا مع مسجد علاقے کے اس گیسٹ ہاؤس کی بھی جانچ کی تھی جہاں سے اس کی گرفتاری دکھائی گئی تھی۔ لیاقت کو پھنسانے والے پولس والوں نے اپنے خلاف ثبوت مٹانے کی بھی کوشش کی تھی مگر این آئی اے نے ان کی تمام جعل سازیوں کو پکڑ لیا اور اب جہاں ایک طرف لیاقت کو کلین چٹ دیتے ہوئے اس سے تمام مقدمے اٹھالئے گئے ہیں وہیں ذمہ دار پولس والوں اور اس سازش میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔
بڑی قیمت چکائی لیاقت نے
لیاقت شاہ کو اگرچہ الزمات سے بری کردیا گیا ہے اور اس پر سے دہشگت گرد ہونے کا الزام ہٹا لیا گیا ہے مگر اس کی بہت مہنگی قیمت اسے چکانی پڑی ہے۔ اس کا خود کہنا ہے کہ میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں اپنی بیوی نفیسہ بی بی کو چھوڑ کر آیا تھا تاکہ یہاں ایک نئی زندگی شروع کرسکوں اور پھر اسے واپس لاؤں مگر وہ اس صدمے کو نہیں برداشت کرسکی اور فوت ہوگئی۔ اس نے جب میری گرفتاری کی خبر سنی تو اسے دل کو دورہ پڑا ۔ میرا بیٹا اب بھی پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں ہے اور میں اس کے لئے فکرمند ہوں کہ وہ نہ جانے کیسا ہو؟ غور طلب ہے کہ شاہ کے پاس گرفتاری کے وقت بیس ہزار روپئے بھی تھے جسے پولس والوں نے لے لیا تھا۔ اب وہ آزاد ہوچکا ہے مگر اس کی زندگی میں کئی بدلاؤ آچکے ہیں جن میں سے سب بڑا بدلاؤ یہی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو گنوا چکا ہے۔
سرکاری نظام کو درست کرنے کی ضرورت
اس وقت ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا لیاقت شاہ کو پھنسانے والے پولس والوں کے خلاف کارروائی ہوگی اور انھیں قرارواقعی سزا ملے گی، جنھوں نے اسے جیل جانے پر مجبور کیا اور اس کی بیوی کی موت لئے ذمہ دار ہیں ؟ لیکن بات یہیں تک نہیں رکتی ہے بلکہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہندوستانی پولس کے اندر حقیقی بدلاؤ کب آئے گا؟ اس ملک میں ہزاروں لیاقت ہیں جو پولس کے ستائے ہوئے ہیں اور جو پولس کے سبب اپنا سب کچھ گنواچکے ہیں۔ پولس کا یہ رویہ ہی دہشت گردی کے فروغ کا سبب بنتا ہے اور غریب و مجبور دیہاتی پولس کے ظلم سے تنگ آکر نکسلوادی بن جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے کیس میں تو عموماً مسلمان پھنسائے جاتے ہیں مگر اس ملک میں ایسے لوگ کم ہی ملیں گے جن کا پولس سے سامنا ہوا ہو اور وہ پریشان نہیں ہوئے ہوں۔ پولس کو عوام کے پیسے سے تنخواہ دی جاتی ہے اور اس کے تمام اخراجات اٹھائے جاتے ہیں تاکہ عوام کو چین وسکون سے رہیں مگر ہوتا ہے اس کا الٹا۔ پولس ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے لئے مسئلہ کھڑا کرتی ہے۔ ان کے لئے سہولت نہیں مشکل کھڑا کرتی ہے۔ آج جو پسماندہ دیہاتوں میں نکسلی اور ماؤ وادی بننے کا چلن عام ہوگیا ہے اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ پولس یا سرکاری نظام کے ستائے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی دشہت گردی کے معاملے میں ہوتا ہے کہ کسی بھی بے قصور مسلمان کے سر پر الزام ڈال کر اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جاتا ہے۔ ایسے میں ایک تو اصل مجرم کو بچنے کا
موقع مل جاتا ہے دوسری طرف کوئی بے قصور پھنس جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں گجرات کے اکشر دھام مندر حملے میں کچھ بے قصور مسلمان رہا ہوئے ہیں ۔ ان لوگوں نے ایک لمبی مدت جیل میں گزاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ قصوروار نہیں تھے تو قصور وار کون تھا؟ کیا کبھی یہ معلوم ہوسکے گا کہ اصل مجرم کون تھا؟ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سسٹم میں بدلاوء کیا جائے اور پولس ہی نہیں دوسرے سرکاری ملازمین کو بھی ٹھیک کیا جائے جو عوام کے لئے رحمت کے بجائے زحمت ثابت ہورہے ہیں۔
جواب دیں