ان جگہوں کی حصولیابی کے لئے ساتھ میں سات پ?یرا دیکر زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں کھانے والے اپنی قسموں کو توڑ بیٹھتے ہیں ، اور ایسا رویہ اپناتے ہیں کہ جیسے کبھی ملاقات تک نہیں ہوئی ہو ، لوگ اپنے مسلک مشرب سے بے پرواہ ایسی کلائیوں کو ت?ام لیتے ہیں جس سے اس کی آخرت داو پر لگ جاتی ہے ، اسے صرف یہ بات پریشان کرتی ہے کہ کس طرح ہم اس جگہ تک پہونچے جہاں عیش موج مستی استقبال کے لئے کمربستہ رہتی ہے ، بسا اوقات تو لوگ مذہب بیزار ہوجاتے ہیں اورسیاست کی اس گندے نالے میں ڈوبکی لگانا سعادت جانتے ہیں ،
ان دو رفیقوں کی رقابت سے کس کو نفع ہوا اور کسے گھاٹے کا سودا ہاتھ لگا یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن بہار کی سیاست پوری دنیا جس طرح بے آبرو ہوئی شاید تاریخ اسے کبھی معاف نہ کرے اس میں قصور صرف جیتن رام مانجھی ہی نہیں ہیں بلکہ اس میں برابر کی شراکت نتیش کمار اور شرد یادو کی ب?ی ہے پارلیمانی الکشن پارٹی کی ناکامی کی ذمہ داری قبول کر تے ہوئے نتیش کمار نے اپنی انا کی بنیاد پر اس عظیم عہدے سے استعفیٰ دیا جس کی چنداں ضرورت نہیں تھی یا ت?ی بھی تو ایسے کم ظرف کے حوالہ کرنے کے سے قبل بعض ان تاریخی غلطیوں کو دیکھ لینے کی ضرورت تھی ،
لگاتار 14/دنوں سے سیاسی اتار چڑھاؤ نے ان لوگوں کو بے چین کردیا تھا جو تھو ڑا بہت بھی سیاسی شعور رکھتے تھے ،
ایک بڑا موقع ہاتھ لگا تھا اس وقت کے موجودہ وزیراعظم کو جو نتیش کمار کو ایک نظر دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں تاریخ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جب گذشتہ پارلیمانی الکشن میں بی جے پی نے نریندر مودی کو ملک کے سامنے بحیثیت وزیراعظم پیش کیا تو جہاں خوشامدی لوگوں نے انکا پر زور استقبال کیا وہیں بی جے پی اور جنتادل یو کے مشترکہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے زبردست مخالفت کیا اور انہوں نے کہا کہ ایک ایسا آدمی جو مسلمانوں کا مجرم ہے وہ آخر اس بڑے جمہوری ملک کا کیسے وزیر اعظم ہوسکتا ہے لیکن بی جے پی نے ان کو نظر انداز کرتے ہوئے ملک کے وزیراعظم کے طور پیش کیا اس وقت بہار کی سیاست میں بڑا بھونچال آیا اور اختلا ف کی شدید صورت حال میں بی جے پی اور جدیو کے اتحاد نے آخری سانس لی ، پارلیمانی الکشن میں بہار کے سیکولر پارٹیوں کے انتشار کی وجہ کر پورے ملک میں متحدہ قومیت کی جو درگت ہوئی اسے تاریخ نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا اور جہاں ہزیمت نتیش کمار کے استعفیٰ کاسب بنا وہیں اس کی انا نے اس بات کو ب?ی گوارا نہیں کیا کہ جب ملک کے وزیراعظم بہار کے دورے پر آئیں تو ان کے استقبال میں اپنے ہاتھوں سے پھولوں گلدستہ پیش کیا جائے
گویا انا کے بطن سے جیتن رام مانجھی پیدا ہوئے
سیاست کی بستی میں بدلے کی آگ ہمیشہ روشن رہتی ہے ، نریندر مودی کو وقت کا انتظار تھا اور یہ موقع خود نتیش کمار کے قدیم ترین رفیق جیتن رام مانجھی نے بسہولت فراہم کردیا ، جیسے ہی نریندر مودی کو بہار کی سیاسی بستی میں شعلہ کے ب?ڑک?نے کی خبر ہوئی تو انہوں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنا ہاتھ تاپنا شروع کیا اور آنچ لگانے کے لئے شاہ کو بہار روانہ کیا اور ذات کا چھوٹا اور عقل کا کھوٹا وزیر اعلیٰ تلووں کو چاٹنے کے لئے دلی کی دور لگانی شروع کردی اور اس طرح بہار کی سیاست خون خون ہوگئی ، اس موقع پر بہار کے گورنر کیسری ناتھ ترپاٹ?ی نے بھی خوب فائدہ اٹھا تے ہوئے اپنے آقاؤں کو خوش کیا ،جو کام دودن میں ہونے تے اسے اتنا طول دیا کہ آسانی سے خرید و فروخت ہوسکے لیکن نتیش کمار کے نمک خواروں نے سیکولرزم کی لاچ بچالی اس پورے تماشے میں بی جے پی ڈمرو لئے ڈگڈگی بجاتے رہے اور کھیل کو اتنا دلچسپ موڑ دیا کہ کرکٹ کے شائقین ورلڈ کپ میں ہندوستان پاکستان کے درمیان ہونے والے میچ تک کو بھول گئے یہ تو اچھا ہوا کہ ہمارے پر عزم اور باحوصلہ کھلاڑیوں نے ہندوستان کی تاریخ میں ایک اور جیت درج کروادی اور پاکستان کو ایک اور ہار کا منہ دیکھنا پڑا ، بہار کے ہوش اڑادینے والے سیاسی کھیل میں سوشل کمار مودی نے ب?ی خوب ہڑبونگ مچایا ساتھ دینے کے وعدے کو اتنا طول دیا کہ امید کے بھکاریوں نے اپنی ارت?ی کی تیاری شروع کردی اور جب کہ جان لب بام کو آیا تو ساتھ دینے کا اعلان کیا اس وقت تک جیتن رام مانجھی گروپ کو اپنی اوقات کا احساس ہوچکا ت?ا اس لئے جیتن رام مانجھی 20/تاریخ کو قانون ساز اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کے بجائے اسمبلی کی کارروائی شروع ہونے سے قبل ہی 10/30 بجے راج بھون پہونچ گئے اور گورنر کیسری ناتھ ترپاٹ?ی کو اپنا استعفیٰ سونپ کر شو کو ڈراپ کر دیا ، یہ کام انہیں شروع دن ہی کرنا ت?ا لیکن بی جے پی کے دام فریب میں الجھ کر مانجھی نے اتنی بڑی سیاسی غلطی کی ہے جس کا خمیازہ ان کو خود جھیلنا ہے دوسرے اپنی راہ خود لے لیں گے ، انہیں اس بات کا ہنر ہے کہ دھوکے کی سیاست میں پہلو کیسے بدلا جاتا ہے ،
اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سیاست دانوں اور پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں، اخلاقی اقدار، سیکولر ازم، فرقہ پرستی، والے الفاظ کوء معنویت نہیں رکھتے ، ضرورت کے مطابق ان کا مفہوم بدل جاتا ہے ، اور سیاست میں دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے ، جب یہی قاعدہ کلیہ اور سیاست کی بنیاد ہے تو اس میں اخلاقیات کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے ، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے ، اور اسکے لئے سب کچھ کرنا جنون ہی ہے ، جس نے عوام کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے انہیں نہ عوام کا خیال ہے اور نہ ہی ملک کا انہیں صرف حکومت سے سرو کار ہے ، یہی وجہ ہیکہ بہار کی اس جنگ میں سیاست داں فائدہ میں رہے ، اور سب سے زیادہ نقصان میں کوئی رہاتو وہ بہار کے عوام ہیں جو بے بسی کے ساتھ سارا تماشہ دیکھتے رہے ، ووٹوں کی یہ لڑائی آگے ب?ی جاری رہے گی بہار ابھی رکا نہیں ہے اب آنے والے الکشن میں شدت سے انتظار ہے کہ دلت اور مہا دلت اپنا مسیحا کسے مانتے ہیں ویسے جیتن رام مانجھی نے یہ کہتے ہوئے راہ فرار اختیار کر لیا ہے کہ
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
جواب دیں