مرکزی وزارتوں میں کارپوریٹ جاسوسی

ترقی پسند اتحاد کے دونوں دور اس لحاظ سے بہترین دور حکومت کہلائیں گے کہ ان میں کانگریس اور اس کے اتحادیوں نے عوام کی فلاح کے بہت سارے کام ملک کے سیکولر سوشلسٹ کردار مضبوط کرنے کیلئے کئے اور حقوق پر مبنی جتنے قوانین اس دور میں بنے شاید کبھی نہیں بنے تھے۔ لیکن مخلوط حکومت کی مصلحتوں اور مجبوریوں کے ساتھ مبتذل سرمایہ داری کی لعنتوں نے اس تاریخی دس سال کے دور حکومت کو بدعنوان بنا کر رکھ دیا۔ سرمایہ داری مودی سرکار کو چھوڑ دے گی اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مودی سرکار اڈانی گروپ کی اور ریلائنس کی مرہون منت ہے اور ریلائنس 2جی اسپیکٹرم کی طرح، بجلی گھوٹالوں کی طرح کارپوریٹ جاسوسی میں بھی اپنے کارندوں کے حوالے سے موجود ہے۔ وزارتوں سے کاغذات چرا کر کنسلٹینسی فرموں کو فراہم کرنا اور ان اطلاعات پر کنسلٹی فرموں کا نوٹ تیار کرکے بڑی کمپنیوں یا کارپوریشنوں کو دینا اس کیس میں گرفتاریوں کے بعد کھل کر سامنے آیا ہے۔ یوں تو یہ کیس کھلا اس سے کہ وزارت پٹرولیم سے کاغذات کے چوری ہونے کی بات سامنے آئی اور ایک چپراسی آسا رام نگاہ میں آیا اس کے بعد تحقیقات آگے بڑھی تو پانچ تیل کمپنیوں کے ایگزیکٹیو پکڑے گئے۔ ان میں سیلیش سکسینا ، منیجر کارپوریٹ افیئرس ریلائنس انڈیا لمٹیڈ، وجے کمار ڈی جی ایم ای سر، رشی آنند ڈی جی ایم ریلائنس اے ڈی اے جی، کے کے نائک جی ایم کیرنس انڈیا، اور سبھاش چندرا سینئر ایگزیکٹیو جوبی لینٹ اینرجی شامل ہیں۔ اس سے پہلے صبح میں سانتنو ساکیا کو پکڑا گیا جو کبھی صحافی تھا اور اب بھی نیوز پورٹل چلاتا ہے اور ایک اینرجی کنسلٹنٹ پریاس جین کی گرفتاری عمل میں آئی۔ آسارام سمیت وزارت پٹرولیم کے دوسرکاری ملازمین بھی گرفتار شدگان میں شامل ہیں۔ ان لوگوں کے پاس سے جو کاغذات دستیاب ہوئے ہیں وہ وزارتوں میں کارپوریٹ گھرانوں کے جاسوسی کی شدت بیان کرنے کیلئے کافی ہیں۔ کیونکہ صرف پٹرولیم کی وزارت میں ہی نہیں بلکہ وزارت کوئلہ اور وزارت بجلی میں بھی یہ لوگ گھسے ہوئے تھے یہاں تک کہ پولیس نے سانتنو کے گھر سے جو دستاویزات برآمد کئے ہیں ان میں ارون جیٹلی کے 28فروری کے مکمل بھر پور بجٹ کی تقریر کیلئے اکٹھا کئے گئے حوالہ جاتی مواد کی کاپی بھی ہے۔ 
ٹھیک سے دیکھا جائے تو اس کیس کی تحقیقات فروری 2015سے پیچھے بہت دور تک جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ ترقی پسند اتحاد کے دور حکومت میں جو گھوٹالے 2جی اسپیکٹرم سے لے کر کوئلہ بلاکوں کی تقسیم تک ہوئے ہیں ان سب میں صنعتی اداروں اور تجارتی گھرانوں کی افسروں کو لالچ دے کر کرپٹ بنانے اور ان سے سرکاری خزانے کو چوٹ لگانے والے اقدامات کرانے کی سچائی بھی ابھر کر سامنے آجائے۔ چوری کا یہ عالم ہے کہ شاستری بھون میں وزارتوں کے دفاتر میں چوری کرنے والے لوگوں نے جو اہم اور خفیہ دستاویزات کاپی کرکے صنعتی گھرانوں تک پہنچائے ہیں ان میں نیشنل گیس گرڈ سے متعلق وزیر خزانہ ارون جیٹلی کی متوقع بجٹ تقریر میں شامل کرنے کیلئے دو صفحات پر مشتمل حوالہ جات شامل ہیں۔ او این جی سی ودیش سے متعلق ایسے کاغذات کی نقلیں بھی ملی ہیں جن پر سکریٹ لکھا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے پرسنل سکریٹری نپیندر مشرا کا ایک خط بھی کارپوریٹ گھرانوں کو پہنچانے کیلئے چوری کرکے سرکاری دفتر سے باہر نکال لئے گئے۔ کیا کیا نہیں ہے وزارت تیل کی تیل کھوج ڈویزن کے کاغذات اور نمائندگیاں، ماہانہ گیس رپورٹ، سری لنکا میں امکانات سے متعلق ایک بریف اور ایک اہم میٹنگ کا نوٹس بھی فوٹو کاپی بن کر مرکزی حکومت کی وزارتوں سے باہر نکلے، کنسلٹینسی فرموں تک پہنچے اور وہاں سے تیل کمپنیوں کو پہنچ گئے۔ تیل کمپنیوں نے ادھر کے دس گیارہ برسوں میں جو تباہی مچائی ہے اس سے عام آدمی واقف ہے۔ سرکاری وسائل پر کارپوریٹ گھرانے کا قبضہ ہر کسی کی نگاہ میں ہے۔ حکومتوں کی نکیل صنعتی اداروں اور تجارتی گھرانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس کے باوجود حکومت کو دھوکہ دینے کیلئے یا پالیسوں پر اثر انداز ہونے کیلئے وزارتوں میں جاسوسی کا کام یہ گھرانے انتہائی بے تکلفی سے کرتے رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ پہلی بار ہوا ہو۔ آج کے صدر جمہوریہ پر نب مکھرجی جب ترقی پسنداتحاد کے دور میں وزیر خزانہ تھے تو بھی ان کا پورا دفتر نا معلوم لوگوں نے بک کررکھا تھا۔ وزارت دفاع سے خفیہ دستاویزات ادھر سے ادھر ہونے کہانی پرانی ہے ۔ جاسوسی کے ذریعہ ملکی مفادات کو چوٹ لگانے کی پرانی تاریخ میں کمر نرائن کا نام بہت نمایاں ہے جو وسکی کی ایک بوتل اور زیادہ سے زیادہ پانچ سو روپئے میں سرکاری راز خریدکر ملک کے دشمنوں کو بیچتا تھا۔ 
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ہندوستان میں تجارت آسان بنانے کی کوشش ، غیر ملکی راست سرمایہ کاری کی ترسیل پرمٹ لائسنس آسان بنانے کی کوشش، سنگل ونڈو سسٹم یعنی ایک ہی ٹیبل سے سارے کام مکمل کرانے کا نظام اور ایسی ہی تمام سہولتیں دینے کے باوجود حکومت کو کوئی بڑا فائدہ ہونے سے یہ دیش دشمن روک لیں گے۔ کیونکہ تیل کمپنیاں کسی بھی ملک کی معیشت کو کنٹرول کرتی ہیں اور ہندوستان کی تیل کمپنیاں جیسے کہ ریلائنس انڈیا لمٹیڈ، ای سر ، ریلائنس انل دھیر امبانی گروپ، جوبلینٹ اینرجی اور کیرنس انڈیا کے عہدے داروں کا کارپوریٹ جاسوسی میں ملوث ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اوپر سے بھی حکومت پر دباؤ بنائے ہوئے اور اندر سے بھی سرکاری پالیسیوں میں کھوکھلا پن لانے کی تمام کوششیں کررہے ہیں۔ 
اگر ان عناصر کے خلاف کارروائی میں ذرا بھی ڈھیل دی گئی یا مودی سرکار تجارتی گھرانوں کے اثر میں آگئی تو ہندوستان میں عام آدمی کا حشر سب کو معلوم ہے۔ ابھی نریندر مودی کی حکومت بنے نو مہینے ہوئے ہیں اور ان نو مہینوں میں جس سرکار کو اقتدار میں جاگزیں ہو کر مستحکم ہوجانا چاہئے تھا وہ سرکار بیرونی دنیا کی نگاہ میں صرف باتیں بنانے والی سرکار ہے ۔جس نے ملک میں مذہبی رواداری کے احترام پر توجہ نہیں دی ہے اور وزیر اعظم کی خاموشی عالمی سطح پر جواب طلب بنتی جارہی ہے۔ ان کمیوں کے بیچ یہ سچائی ابھر کر آئی کہ پانچ پانچ بڑی تیل کمپنیاں چوری سے سرکار کے خفیہ رازوں تک پہنچی ہوئی ہیں یہاں تک کہ وزیر خزانہ بجٹ تقریر بھی چوروں کے دسترس سے باہر نہیں لہذا نریندر مودی سرکار کو اچھی حکمرانی ثابت کرنے کیلئے نئے سرے سے سوچنا پڑے گا اور وزیر اعظم مودی کو اس پر غور کرنا پڑے گا کہ انہوں نے "میں دیش نہیں بکنے دوں گا” کا نعرہ لگایا تھا اس کا مذاق صنعت کار سے لے کر سرکاری چپراسی تک کس بری طرح سے اڑا رہے ہیں اور وہ بے بس ہیں۔

«
»

پانچ بیماریاں ۔ایک ٹیکہ

دولت کی بھوک اور شہرت کا روگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے