دشمنانِ اسلام کی سازشیں: کس حد تک کامیاب؟

القاعدہ اور طالبان جیسی نام نہاد جہادی تحریکوں کے بعد اب سب سے زیادہ سفاک، خطرناک اور دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش ) دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی جانب سے کئی سفاکی پر مبنی ویڈیوز منظر عام پر لائے گئے ہیں جس کے تحت اس کی کھلی درندگی بتائی گئی جس سے عالمی سطح پر عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنا اور اس کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لینے والوں کے دلوں میں بھی خوف پیدا کرنا ہوسکتا ہے۔ داعش میں حصہ لینے والے ہوسکتا ہے کہ زیادہ تر ایسے مسلم نوجوان ہونگے جن کے دلوں میں معصوم مسلمانوں کے قتل عام کا بدلہ لینا ہوگا لیکن اصل میں داعش کسی صورت میں اسلامی جہادی تحریک نہیں ہوسکتی کیونکہ اس کی درندگی کے جو ویڈیوز منظر عام پر آئے ہیں اس کی اسلام میں کسی صورت اجازت نہیں ہے۔ داعش نے سوشل میڈیا کے ذریعہ عالمی سطح پر ایسے اسلامی جذبہ رکھنے والوں نوجوانوں کو اکھٹا کرنے کی سازش رچی ہوئی ہے تاکہ اس کے ذریعہ ایسے نوجوانوں کو ایک خاص علاقہ میں جمع کرکے قتل کیا جائے ۔ کیونکہ داعش کے بیرونی ممالک کے شہریوں کے قتل عام کے ویڈیو جاری ہونے کے بعد عالمی سطح پر امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک مل کر داعش کے ٹھکانوں پر حملے کررہے ہیں جس میں ایسے مسلم نوجوان ہلاک ہورہے ہونگے جو اپنے دوسرے مسلم بھائیوں اور بہنیوں و بچوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے جمع ہوئے ہیں۔ ان کارروائیوں سے تجزیہ نگار یہی اندازہ قائم کررہے ہیں کہ یہ سب صیہونی اور یہودی سازش کا نتیجہ ہے جس میں مسلمانوں کو دو طریقہ سے نشانہ بناتے ہوئے نسل کشی کی جائے ۔ عراقی پولیس کی جانب سے جاری کی گئی ایک نئی رپورٹ کے مطابق داعش نے ایک انتہائی سفاکانہ اور درندگی پر مبنی اقدام کرتے ہوئے 45عراقیوں کو زندہ جلادیا ہے یہ واقعہ عراق کے مغربی شہر’’البغدادی‘‘ٹاؤن کا ہے ۔ جہاں پر دہشت گرد تنظیم داعش گذشتہ کئی ماہ سے محاصرہ کئے ہوئے تھی۔ مقامی پولیس کے سربراہ کرنل قاسم العبیدی کے مطابق یہ واضح نہیں ہوا کہ یہ کون لوگ تھے اور ان کا قتل کیوں کیا گیا ہے۔ جس شہر میں ان عراقیوں کو زندہ جلایا گیا اس سے صرف پانچ کلو میٹر کے فاصلہ پر عین الاسد فضائی اڈہ ہے جہاں تقریباً320امریکی فوجی عراقی افواج کو تربیت دینے کے لئے تعینات ہیں۔ گذشتہ جمعہ داعش کی جانب سے اس فضائی اڈے پر حملہ کی اطلاعات بھی ہے جسے ناکام بنادیا گیا ہے۔عراق کے 45افراد کو زندہ جلادینے کا واقعہ کافی اہمیت رکھتا ہے ۔ ان دہشت گرد درندوں کو سخت سے سخت سزائیں دینے کی ضرورت ہے لیکن اس پر ابھی تک امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک کی جانب سے کوئی سخت اور واضح بیان جاری نہیں ہوا ۔ جبکہ گذشتہ دنوں لیبیا سے اغوا کئے گئے مصر کے 21عیسائیوں کا سر قلم کردیا گیا اور دو ہفتہ قبل ایک اردنی پائلٹ کو زندہ جلایا گیا۔ یہ بھی ایک انتہائی سفاکانہ اور بدبختانہ عمل تھا جس کو داعش کے دہشت گردوں نے انجام دیا ہے۔ اس سے قبل بھی بیرونی باشندوں کو داعش نے ذبح کرنے کے ویڈیو زجاری کئے تھے۔عراق اور شام کے کئی افراد کیہ ہاتھ باندھ کر فائرنگ کے ذریعہ ہلاک کرنے کے ویڈیو ز بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ داعش کی جانب سے اس بہمانہ اور سفاکانہ قتال کے خلاف امریکی اتحادی ممالک (تقریباً 62 ممالک) داعش کے فضائی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہیں اتنی بڑی تعداد میں داعش کے خلاف امریکی اتحادی ممالک متحدہونے کے باوجود امریکی صدر بارک اوباما کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ طویل ہوسکتی ہے۔داعش جسے بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ طاقتور، مضبوط اور معاشی اعتبار سے مستحکم بتایا جارہا ہے ۔ داعش کی جانب سے سینکڑوں عراقی، شامی افراد کی ہلاکت کے باوجود عالمی سطح پر اتنا شدید ردّعمل کا اظہار نہ ہوا تھا جتنا کہ چند بیرونی افراد اور 21عیسائیوں کی ہلاکت کے بعد دیکھا جارہا ہے۔ ہماری اس تحریر کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بے قصور افراد کی ہلاکت پر احتجاج نہ کیا جائے بلکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح چند یہودی یا عیسائیوں کے لئے عالمی سطح پرشدیداحتجاج کیا جاتا ہے اور ان میں فوراً اتحاد ہوجاتا ہے جبکہ ہزاروں بے قصور مسلمانوں کے قتلِ عام پر عالمی برادری میں خاموشی چھائی رہتی ہے کیونکہ امریکہ اور مغربی و یوروپی حکمرانوں نے مسلمانوں کو دہشت گرد کی حیثیت سے پیش کرکے ایسا زہر داخل کردیا ہیکہ کسی بھی مسلم کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔دشمنانِ اسلام کی سازشیں کامیابی سے ہمکنار ہورہی ہے لیکن یہ سازشیں جلد نہیں تو دیرپا بے نقاب ہونگی اور اسے بے نقاب کرنے والے مسلمان نہیں بلکہ یہی دشمنانِ اسلام ہونگے جو آج مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے اتحاد کئے ہوئے ہیں ان کے درمیان ایسے شدید اختلافات پیدا ہونگے جس کے ذمہ دار بھی وہ خود ہونگے۔ امریکہ اور روس کے درمیان اس کا آغاز ہوچکا ہے اور ہوسکتا ہے کہ امریکہ کی اصلیت کا اصلی چہرہ بہت جلدمنظرعام پر آجائے ۔ویسے امریکہ کی دوست نما دشمن پالیسی سے عالمی سطح پربہت سارے حکمراں واقف ہیں لیکن اس کا اظہار کرنے کی حکمرانوں میں ہمت نہیں ہوپاتی یا کسی مصلحت و مفاد کی وجہ سے خاموشی اختیار کئے ہوتے ہیں۔
امریکہ میں تین مسلم طلبہ کو فائرنگ کے ذریعہ ہلاک کئے جانے پر صرف سعودی عرب اور قطر میں احتجاج کیا گیاسعودی جو ساری دنیا میں تمام مذاہب کے احترام کی ضرورت پر زور دیتا ہے اسی کے طلبا کو نشانہ بنائے جانے پر سعودی حکومت نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور امریکہ کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔تینوں مسلم طلبہ کی ہلاکت کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج ہوناچاہیے تھا کیونکہ جو ملک عالمی سطح پر دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اپنے آپ کو علمبردار کی حیثیت سے پیش کرتا ہے اسی ملک میں مسلمانوں پر حملے ہوتے ہیں اور انکے تحفظ کے لئے کوئی مؤثر انتظامات نہیں ہے۔داعش کی جانب سے اردنی پائلٹ کو زندہ جلائے جانے کے بعد اردنی حکومت نے داعش کے مضبوط اثر والے علاقوں پر شدید فضائی حملے کئے اور اس کی مدد کے لئے گذشتہ ہفتہ متحدہ عرب امارات نے اردن کو اسکواڈرن F16جیٹ طیارے روانہ کئے اور اب بحرین نے بھی اردن کو اپنے جنگی طیارے روانہ کئے ہیں اس طرح کم از کم عالم اسلام میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے اتحاد دکھائی دے رہا ہے ۔ مصر کے مغویہ 21عیسائیوں کے سر قلم کئے جانے کے بعد مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے مصر میں سات روز کے سرکاری سوگ کا اعلان کیا اورداعش کے خلاف شدید کارروائی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مصر سے متصل لیبیا ئی علاقوں میں واقع دولت اسلامی عراق و شام کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے۔دولت اسلامیہ عراق و شام پر جس طرح حملے کئے جارہے ہیں اس سے واقعی داعش کو نقصان پہنچ رہا ہے یا پھر عام شہریوں کی ہلاکتیں اور معاشی نقصان ہورہا ہے اس سلسلہ میں ابھی تک کوئی رپورٹ منظرعام پر نہیں آئی ہے۔ اب تک داعش کی جانب سے مسالک کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا تھا لیکن اب 21مصر کے عیسائیوں کے قتل عام کے بعد تجزیہ نگار وں کا خیال ہے کہ یہ یہودی سازش ہی ہے جو اب مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے کے علاوہ عیسائیوں کو بھی اسلامی ممالک میں حملے تیز کرنے اور بدلہ لینے کے لئے اکسانے کی ترغیب ہو۔ عالمی سطح پر اب تک کم و بیش 62ممالک داعش کے خلاف نبرد آزما ہے اور ان میں زیادہ تر مشرقِ وسطیٰ کے ممالک حصہ لے رہے ہیں ان کا اتحاد فی الوقت شدت پسندی کا خاتمہ ہے لیکن اس سے ایک طرف داعش ان ممالک کے عوام کو نشانہ بناسکتی ہے ۔ جس طرح داعش کے خلاف امریکی قیادت میں اتحاد پایا گیا ۔ اب پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں نے بھی دہشت گردی کے خاتمہ اور قیام امن کے لئے متحدہ اقدامات کی کوششیں تیز کردیں ہیں۔ پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے 17؍ فروری کو کابل میں افغان صدر اشرف غنی لون اور چیف ایگزیکیٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے الگ الگ ملاقات کی ۔ افغان صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی فوجی سربراہ کے ہمراہ موجود پاکستانی وفد نے افغانستان میں قیام امن کے لئے اپنی مدد فراہم کرنے کی دوبارہ یقین دہائی کروائی ہے جس کے نتائج بہت جلد منظر عام پر آئیں گے۔ اس بیان کے مطابق پاک افغان دو طرفہ تعلقات سے دونوں ممالک میں دیر پا قیام امن کو یقینی بنایا جائے گا۔ آرمی چیف اور افغان چیف اگزیکیٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دو طرفہ تعلقات سمیت سرحدوں پر کنٹرول اور دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں ٹھوس پیشرفت اور خفیہ معلومات کے تبادلے پر بھی بات چیت دونوں ممالک میں قیام امن کے لئے مثبت حیثیت رکھتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این اے پی کی ایک سالانہ رپورٹ کے مطابق 2014 میں افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں شہریوں کی ہلاکتوں میں 22فیصد سے زائد اضافہ بتایا گیا ہے جو گذشتہ چھ سال میں ایک ریکارڈ ہے۔ 2009ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے افغان جنگ سے متاثرہ شہریوں کے کوائف اکھٹے کرنے کا آغاز ہوا تھا ادارے کے مطابق چھ سال کے عرصے میں افغان جنگ میں 47

«
»

پانچ بیماریاں ۔ایک ٹیکہ

دولت کی بھوک اور شہرت کا روگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے