نکاح میں ولی کی اہمیت

اب ایک صورت تو یہ ہے کہ مرد و عورت کا یہ تعلق اصول و قانون سے آزاد ہو ، جیسا کہ جانوروں میں ہے ، ایسی آزادانہ صنفی زندگی سے بچوں کی پیدائش تو ہو سکتی ہے ، لیکن کوئی خاندان وجود میں نہیں آسکتا ، انسان دادیہالی ، نانیہالی ، اور سسرالی قرابت مندیوں کے حصار میں جب اپنی زندگی گذار تا ہے تو اس کے ساتھ دکھ سکھ میں ایک بڑی تعداد شریکِ حیات ہوتی ہے ، یہ شرکت خوشی کو دو بالا اور غم کو ہلکا کرتی ہے ، اس سے انسان کو خاندانی تحفظ حاصل ہوتا ہے ، سماج میں اس کی شناخت اور پہچان بنتی ہے اور اس کے بزرگوں کے کارنامے عملی زندگی میں حوصلہ مندی اورجوشِ عمل کا باعث بنتے ہیں ، پس ازدواجی نظام انسانی فطرت کا ایک حصہ اور انسانی سماج کی بہت اہم ضرورت ہے ۔ 
اسی لیے اسلام نے نکاح کی بڑی تاکید کی ہے اور تجرد کی زندگی کو پسند نہیں کیا ہے ، رسول اللہا نے خاص طور پر نوجوانوں کو تاکید فرمائی کہ ان میں سے جن کے اندر نکاح کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت ہو ، انھیں نکاح کرلینا چاہئے ’’ من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج‘‘ یہ تعلیم نہ صرف نوجوانوں کو دی گئی ، بلکہ سماج کو بھی متوجہ کیا گیا کہ جو لوگ تجرد کی حالت میں ہوں خواہ ابھی ان کی شادی نہ ہوئی ہو یا شادی ہوئی ہو اوراب وہ کسی وجہ سے تجرد کی زندگی گزار رہے ہوں ، ان کا نکاح کیا جائے فَانْکِحُوا الأَےَامیٰ مِنْکُمْ( نور : ۳۲) کیوں کہ نکاح سے گریز نسل انسانی کی افزائش کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور اس سے سماج میں اخلاقی قدریں بھی پامال ہوتی ہیں ، چنانچہ آج مغربی معاشرہ اس کی واضح مثال ہے ۔ 
نکاح کے سلسلہ میں شریعت نے جو ضوابط مقرر کئے ہیں ، ان میں ایک قانونِ ولایت ہے ، ولایت کے معنی دوستی ، نگرانی ، سرپرستی ، محبت وغیرہ کے ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مؤمن مرد و عورت ایک دوسرے کے ولی ہیں ، یعنی وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور مدد کرنے والے ہیں ’’ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ بَعْضُہُمْ أَوْلِےَاءُ بَعْضٍ‘‘( التوبہ : ۷۱ ) ا سی سے ولی کا لفظ ہے ، فقہ کی اصطلاح میں ’’ ولایت سے مراد ہے اپنی رائے کو دوسرے پر نافذ کرنے کا اختیار ۔ ‘‘ 
فقہ کی کتابوں میں ولایت کے سلسلہ میں تفصیل اور وضاحت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے ، چنانچہ احکام کے اعتبار سے ولایت کی تین قسمیں کی گئی ہیں : ولایت علی النفس یعنی کسی کی ذات پر ولایت ، اس میں نکاح ، تعلیم ، علاج ، کام میں لگانے و غیرہ کی ذمہ داری آتی ہے ، ولایت علی المال یعنی مالی امور کی ولایت ، اس میں زیر ولایت شخص کے مال کی حفاظت ، اس پر خرچ کرنا ، اس کی سرمایہ کاری اور تفریق و غیر ہ کرنا داخل ہے ، تیسری قسم ہے ولایت علی النفس والمال یعنی جان و مال دونوں کی سر پرستی اور نگرانی ۔ 
ولایت بنیادی طور پر نابالغ اور فاتر العقل لڑکوں اور لڑکیوں پر حاصل ہوتی ہے ؛ کیوں کہ یہ دونوں خود درست فیصلہ کرنے اور اپنے نفع ونقصان کا صحیح اندازہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، اس لیے اس بات پر فقہاء متفق ہیں کہ نابالغ اور فاتر العقل شخص خود اپنا نکاح نہیں کرسکتا ، اولیاء ہی کو حق ہے کہ اس کا نکاح کریں ، لیکن بالغ ہونے کے بعد بھی مستحسن طریقہ یہ ہے کہ اولیاء کو اعتماد میں لے کر نکاح کیا جائے ، اس لیے کہ وہ اپنے تجربہ اور جہاں بینی کی بنیاد پر جتنا درست فیصلہ کرسکتے ہیں ، خود یہ لڑکے اور لڑکیاں نہیں کرسکتے ، اسی لیے احناف کے نزدیک اختیارات کے اعتبار سے ولایت کے تین درجے ہیں ، ولایتِ الزام ، ولایتِ اجبار اور ولایت ندب ، ولایتِ الزام سے مراد یہ ہے کہ ولی کا کیا ہوا نکاح زیر ولایت شخص کے حق میں لازم ہوجائے اور اس کو نکاح رد کرنے کا حق باقی نہیں رہے ؛ چنانچہ والد یا داد ا نے اگر نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح کردیا تو وہ نکاح لازم ہوگیا ، بشرطیکہ ولی نکاح کرتے وقت نشہ کی حالت میں نہ رہا ہو اور وہ اپنے اختیارات کے غلط استعمال کرنے میں معروف نہ ہو ، لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہونے کے بعد بھی اس نکاح کو رد نہیں کر سکتے ۔ 
دوسرا درجہ ولایتِ اجبار کا ہے ، ولایتِ اجبار سے مراد یہ ہے کہ زیر ولایت شخص کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کردینا درست ہو ، لیکن یہ اس پر لازم نہ ہو ، بالغ ہونے کے بعد اگر انہیں رشتہ پسند نہ آئے تو وہ اس رشتہ کو رد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ، اس اختیار کو ’ خیارِ بلوغ ‘ کہتے ہیں ، یہ ولایت باپ دادا کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں چچا ، بھائی و غیرہ ( جن کی تفصیل کتبِ فقہ میں موجود ہے ) کو حاصل ہوتی ہے ، البتہ اس میں کسی قدر اختلاف ہے ، امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک لڑکی کو بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی ذات کے بارے میں اختیار حاصل ہو جاتا ہے اور وہ اپنا نکاح کرسکتی ہے ، اور دوسرے فقہاء کے نزدیک بالغ ہونے کے بعد بھی ولی کی وساطت کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہو سکتا ۔ 
تیسرا درجہ ’ ولایتِ ندب ‘ کا ہے ، یعنی جن کو خود اپنا نکاح کرنے کا حق حاصل ہے ، لیکن مستحب اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ ولی کی رضامندی ہی سے نکاح کرے ، یہ حکم لڑکوں اور لڑکیوں دونوں ہی کے لیے ہے ، لیکن لڑکیاں چوں کہ اندرونِ خانہ رہتی ہیں ، حالات سے واقف نہیں ہوتیں اور اپنی جذباتیت کی وجہ سے بعض دفعہ بہت جلد مردوں کے دام میں آجاتی ہیں ، اس لیے عورتوں کے لیے اس کی اہمیت نسبتاً زیادہ ہے ، اسی لیے خواتین کو اس سلسلہ میں زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اسی لیے بعض فقہاء نے یہ رائے قائم کی ہے کہ لڑکیاں بالغ ہونے کے بعد بھی خود اپنا نکاح نہیں کرسکتیں ۔ 
حدیثوں میں بڑی اہمیت کے ساتھ ولی کی ضرورت کو واضح کیا گیا ہے ، حضر ت ابو موسی اشعری ص سے مروی ہے کہ نکاح بغیر ولی کے نہیں کیا جائے ، ’’ لا نکاح إلا بولي‘‘ ( ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۱۰۱ ) جمہور کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ بغیر ولی کے نکاح درست ہی نہیں ہوگا ، اور حنفیہ کے نزدیک اس کی مراد یہ ہے کہ ولی کے بغیر نکاح کرنا بہتر نہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ جس عورت نے اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا ، اس کا نکاح باطل ہے ، ( ترمذی ،حدیث نمبر : ۱۱۰۲ ) جمہور کے نزدیک اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ اس کا نکاح ہی درست نہیں ہوگا ، حنفیہ اس سے مراد لیتے ہیں کہ اس کا نکاح نفع بخش نہیں ہوتا ہے ، حنفیہ کے پیش نظر قرآن مجید کی وہ آیات جن میں خود عورتوں کی طرف نکاح کرنے کی نسبت کی گئی ہے ، ( بقرہ : ۲۳۲ ، ۲۳۰ ) نیز یہ بات بھی پیش نظر ہے کہ رسول اللہ ا نے حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو ان کے کسی ولی کے بغیر ، اور حضرت عائشہ رضی للہ عنہا نے اپنی بھتیجی کا نکاح فرمایا بھائی سے اجازت لیے بغیر ، اس لیے حنفیہ نے بالغ ہونے کے بعد لڑکیوں کو خود اپنے نفس پر مختار قرار دیا ہے ، بہر حال ان آیات و احادیث کی جو بھی تشریح کی جائے ، لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ خاص طور پر لڑکیوں کے نکاح کے سلسلہ میں ولی کی خاص اہمیت ہے اور اس کی رائے نظر انداز کردینا کسی طور پر مناسب نہیں ۔ 
لیکن افسوس کہ آج کل اس سلسلہ میں افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے ، کچھ لوگ وہ ہیں جو لڑکیوں کو اس کے حق انتخاب ہی سے محروم کردیتے ہیں ، اوربغیر لڑکی کے مشورہ کے اس کا رشتہ طے کردیتے ہیں ؛ حالاں کہ ولی کے لیے ضروری ہے کہ وہ لڑکی کی رضا معلوم کر کے ہی اس کا نکاح کرے ، چنانچہ حضورا نے فرمایا کہ لڑکی بمقابلہ اپنے ولی کے اپنی ذات کی زیادہ حق دار ہے اور کنواری لڑکی سے بھی نکاح کے سلسلہ میں اجازت لی جائے گی ’’ الأیّم أحق بنفسہا من ولیہا ۔۔۔ ‘‘ ۔ ( مؤطا امام مالک ، حدیث نمبر : ۱۱۳۶ ) 
حضرت عبد اللہ بن عباس ص راوی ہیں ایک کنواری لڑکی حضور ا کی خدمت میں آئی کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کردیا ہے ،حالاں کہ وہ اس رشتہ کو ناپسند کرتی ہے ، آپ ا نے سنا تو اس لڑکی کو اختیار دیا کہ چاہے تو اس نکاح کو باقی رکھے یا ختم کردے ، ( ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۲۰۹۶ ) اس لیے بعض سر پرستوں کا یہ رویہ کہ بغیر پوچھے اور اجازت لیے ہوئے لڑکی کا نکاح کردیں درست نہیں ، یہ عورتوں کے ساتھ ظلم ہے اور شریعتِ اسلامی میں دی گئی شخصی آزادی کو مجروح کرنے کے مترادف ہے ۔ 
دوسرا پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات نوجوان لڑکیاں چھپ کر اپنا نکاح کرلیتی ہیں یا بعض لوگ ورغلا کر انہیں اپنے نکاح میں لے آتے ہیں ، چاہے یہ نکاح دو گواہ کی موجودگی کی وجہ سے درست ہوجائے ؛ لیکن یہ شریعت کی روح کے خلاف ہے اور اگر لڑکی نے بے جوڑ رشتہ کرلیا ہو ، جو اس کے اہل خاندان کے لئے شرمساری کا باعث ہو ، تو اولیاء کو اس پر اعتراض کرنے اور قاضی کے ذریعہ اس نکاح کو رد کردینے کا اختیار حاصل ہے ، رسول اللہ ا نے چھپ کر نکاح کرنے کو منع فرمایا ’’ نہی عن نکاح السر‘‘ ( مجمع الزوائد عن ابی ہریرۃ : ۴؍ ۲۸۵ ) اس لیے نکاح میں اعلان و اظہار کا حکم دیا گیا ہے اور مسجد میں نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ؛ کیوں کہ مسجد میں عام طور پر حاضرین کی اچھی خاصی تعداد موجود ہوتی ہے ، ’’ أعلنوا ہذا النکاح و اجعلوہ في المساجد‘‘ روایتوں میں اضافہ ہے کہ حلال و حرام کے درمیان اعلان ہی سے فرق ہوتا ہے : ’’فإن فصل ما بین الحلال و الحرام الإعلان‘‘ ۔ ( مجمع الزوائد ، حدیث نمبر : ۷۰۴۱ ) 
اب اس نکاح سے زیادہ برا نکاح کون ہوگا ، جس میں باپ تک کو نکاح کی خبر نہ ہو ؟ ایسے نکاح عام طور پر وقتی جذبات کے تحت کیے جاتے ہیں اور اپنے انجام کے اعتبار سے ناکام ثابت ہوتے ہیں ؛ کیوں کہ ایسے رشتوں میں نوجوان اور نا تجربہ کار لڑکیاں صورت و شکل ، گفتگو اور اظہارِ محبت سے متاثر ہو کر نکاح پر آمادہ ہوجاتی ہیں ، اور دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر اس طرح کے نکاح دیرپا ثابت نہیں ہو تے ، اس لیے سماج صالح اورنکاح کے مقاصد کے اعتبار سے یہ بات ضروری ہے کہ نکاح میں سرپرست کو بھی اعتماد میں لیا جائے ، خاص کر جو لوگ دینی کاموں سے متعلق ہوں ، ان کے لیے اس کی اہمیت زیاد ہ ہے ، کیوں کہ ولی کی شمولیت کے بغیر نکاح تہمت کا موقع پیدا کرتا ہے ، اس سے بدگمانی کی راہ کھلتی ہے ، اورجو لوگ دین کی خدمت میں مشغول ہوں ، ان کے لیے خاص طور پر مواقع تہمت سے دور رہنا اور اپنے آپ کو شکوک و شبہات کی جگہ سے بچانا ضروری ہے ۔ 
غرض کہ اس سلسلہ میں توازن اور اعتدال کی ضرورت ہے ، نہ یہ درست ہے کہ لڑکیوں کی جائز خواہش اور پسند کا خون کردیا جائے ، اورانھیں ایک ایسے رشتہ پر مجبور کردیا جائے جو ان کے دل کو قبول نہ ہو اور نہ یہ مناسب ہے کہ لڑکے اور خاص کر لڑکیاں سرپرستوں کے مشورہ کو خاطر میں نہ لائیں اور انہیں اعتماد میں لیے بغیر نکاح کرلیں ۔ 

«
»

پانچ بیماریاں ۔ایک ٹیکہ

دولت کی بھوک اور شہرت کا روگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے