بڑی دیر کی مہرباں نے زبان کھولنے میں۔۔۔

نریندر مودی کا یہ بیان نریندر مودی کا نہیں بلکہ ایک سیکولر ہندوستان کے وزیر اعظم کا ہے کیوں کہ وزارت عظمیٰ کے جلیل القدر عہدہ پر فائز ہونے کے بعد بھی ابھی تک بیشتر عوام کے ذہنوں میں اُسی نریندر مودی کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں جو گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔ ایک ایسے وقت انہوں نے لب کشائی کی جب کانپور میں آر ایس ایس کی منتھن میں بھاگوت ہندو اتحاد کے لئے عملی اقدامات کی بات کہی اور سنی مسلم علماء کے ایک وفد سے بات چیت کے دوران آر ایس ایس نے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے اور مسلمانوں کو بھی ہندوؤں کی طرح ’’وندے ماترم‘‘ پڑھنے کا مطالبہ کیا۔ دہلی کے انتخابات میں بھگوا جماعتوں کی عبرتناک شکست کے پس منظر میں نریندر مودی نے ہندوستان کے سیکولر کردار کے تحفظ کی بات کہی تو عام تاثر یہ ہے کہ دیر آیت درست آید تاہم بڑی دیر کی مہربان نے اپنی زبان کھولتے کھولتے۔
وزیر اعظم کے الفاظ یقیناًپتھر کی لکیر ہوتے ہیں۔ مگر ہندوستان میں پتھر کے نقوش اور اس کی لکیریں تہذیبی و ثقافتی ورثے کے طور پر کبھی غاروں میں تو کبھی عجائب گھروں میں محفوظ رہ جاتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم کے الفاظ قانونی دستاویز کی شکل اختیار کرلیں‘ یہ الفاظ قانون ساز اداروں اور قانون کے محافظین کے لئے حکم آخر بن جائیں۔ اور مودی یا بی جے پی کی ہم خیال جماعتوں کے ذمہ داروں کے لئے مستقبل کے لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے رہنمایانہ خطوط ثابت ہوں۔ تب ہی ان الفاظ کی قدر و منزلت ممکن ہے۔ کسی جلسہ گاہ سے وزیر اعظم کا خطاب کا مطلب اس جلسہ کے منتظمین یا کسی مخصوص فرقے کی عوام تک محدود نہیں رہتا‘ بلکہ اس کا اطلاق ملک کے ہر شہری پر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نے واضح الفاظ میں اکثریتی و اقلیتی دونوں طبقات کو خبردار کیا ہے۔
وزیر اعظم نے جس اجتماع سے خطاب کیا وہ عیسائیوں کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا۔ جس کا ایک مقصد مسیحی عبادت گاہوں پر حملوں کے خلاف احتجاج بھی تھا اور وزیر اعظم کو اس سے واقف کروانا بھی تھا۔ عیسائی ہندوستان میں مسلمانوں کے بعد دوسری بڑی اقلیت ہے۔ مگر دنیا میں عیسائی غالب ہیں‘ لہذا دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی عیسائی کو تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے تو ساری دنیا میں اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ بارک اوباما نے بھی جو نصیحت کی اس کے پیش منظر میں بھی دہلی کے چرچس پر حملے ہی تھے۔ ہندوستان کی سب سے قدیم اور موجودہ اپوزیشن جماعت کانگریس کی قائد سونیا گاندھی بھی عیسائی طبقہ ہی سے تعلق رکھتی ہے۔ اسی لئے مسیحی عبادت گاہو ں پر حملوں کے خلاف ردعمل شدید بھی ہوتا ہے اور اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔ وشوا ہندو پریشد نے بھی وزیر اعظم کے بیان کے بعد یہ کہا ہے کہ نریندر مودی کے ریمارکس دراصل عیسائیوں کی طرف ہے جو ہندوؤں پر حملے کرتے رہے ہیں اور دہلی پولیس نے اپنی رپورٹ میں یہ بتایا ہے کہ 206 مندروں پر حملوں کے واقعات پیش آئے اور نریندر مودی نے مذہبی منافرت اور تشدد کے خلاف یہ بات اس دن کہی جب امریکہ میں ایک مندر کو عیسائیوں نے نشانہ بنایا ہے۔ وی ایچ پی کا دعویٰ اپنی جگہ درست ہے کیوں کہ حالیہ عرصہ کے دوران بالخصوص عام انتخابات سے پہلے اور مرکز میں بی جے پی حکومت کی تشکیل کے بعد سات مہینوں کے دوران مسلمانوں کے خلاف تشدد اور منافرت کے کئی واقعات پیش آئے۔ لوجہاد اور گھر واپسی کے نام پر اُن جماعتوں اور کارکنوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی۔ جن کی مدد سے مودی وزیر اعظم بنے۔ تاہم مودی نے نہ تو اپنی ناراضگی ظاہر کی اور نہ ہی ایسا کوئی بیان جاری کیا جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ انہیں مسلم اقلیتوں سے بھی اتنی ہی ہمدردی ہے جتنی کسی وزیر اعظم کو ہونی چاہئے۔ یہ سچ ہے کہ دورۂ امریکہ سے پہلے سی این این کو دےئے گئے انٹرویو میں انہوں نے مسلمانوں کی حب الوطنی کا اعتراف ضرور کیا۔ بہرحال دیر سے ہی سہی‘ نریندر مودی نے زبان کھولی ہے‘ اس کا اثر وقتی ہوگا یا دیرپا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ ویسے اِن دنوں مودی کی مقبولیت کسی قدر متاثر ہوئی ہے۔ بعض سادھو سنت ان سے ناراض ہیں خود آر ایس ایس میں ان کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے۔ یہاں تک بھی کہا جارہا ہے کہ دہلی انتخابات میں بی جے پی کی بدترین شکست کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ آر ایس ایس نے نریندر مودی سے فاصلے بڑھا لئے ہیں جس طرح عام انتخابات اور اس کے بعد کے دنوں میں نریندر مودی کی شخصیت اس قدر اُبھاری گئی کہ ان کا قد بی جے پی اور آر ایس ایس سے بلند دکھائی دینے لگا تھا اور آر ایس ایس جو بی جے پی یا این ڈی اے حکومت کے لئے کنگ میکر کی حیثیت رکھتی ہے وہ بھلا یہ کیسے گوارہ کرسکتا۔ ویسے بھی الیکشن سے پہلے یہ قیاس آرائیاں بھی گشت کررہی تھیں کہ آر ایس ایس جو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی برتری کی قائل رہی ہے‘ نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر دیکھنے کے حق میں نہیں ہے۔ چوں کہ مودی کی شخصیت میڈیا کی بدولت اس قدر غالب آچکی تھی کہ ان کے سامنے کوئی اور امیدوار ٹھہرنے کے قابل دکھائی نہیں دیتا تھا۔ مودی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان تو ہوگئے تاہم آر ایس ایس سے انہوں نے فاصلہ رکھنے کی کوشش کی جبکہ آر ایس ایس مودی پر اپنا سایہ رکھنے کے حق میں تھی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق جب آر ایس ایس کو محسوس ہوا کہ نریندر مودی پر ان کی گرفت نہیں رہ سکے گی تو انہوں نے اس کا احساس دلانے کے لئے دہلی میں اس کا ہلکا سا تجربہ کیا اور اسمبلی انتخابات کے دوران پارٹی کیڈر کو انتخابی سرگرمیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔ جس کا اثر انتخابی نتائج پر ہوا۔ مہاراشٹرا میں بھی نریندر مودی کی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے شیوسینا سے اس کے 25سالہ تعلقات قطع ہوئے۔انتخابات کے بعد اگرچہ کہ ان تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم ان تعلقات میں کس حد تک کشیدگی برقرار رہے‘ اس کا اندازہ شیوسینا کے سربراہ اودھو ٹھاکرے کے الفاظ سے کیا جاسکتا ہے۔ جب انہوں نے دہلی انتخابات کے بعد کہا تھا کہ ’’عام آدمی پارٹی کی سونامی مودی لہر پر حاوی رہی‘‘۔آر ایس ایس‘ شیوسینا، وشواہندو پریشد، بجرنگ دل اور دوسری کٹر ہندو تنظیموں سے تعلقات کو برقرار رکھنے میں لگتا ہے کہ مودی کو دشواریوں کا سامنا ہے۔ کیوں کہ انہیں گجرات کے وزیر اعلیٰ سے ہندوستان کے وزیر اعظم تک پہنچنے کے لئے ان جماعتوں کی مدد کی ضرورت تھی۔ مگر وزیر اعظم کی کرسی پر برقرار رہنے کے لئے ان جماعتو سے فاصلہ برقرار رکھنا ضروری ہے۔ یہ جماعتیں ہندوستان کے سیکولر کردار کو بدل دینا چاہتے ہیں۔ اور عالمی برادری ہندوستان کو اک سیکولر اور جمہوری ملک کے طور پر ہی دیکھنا اور تسلیم کرنا چاہتی ہے۔ اس کے سیکولر کردار میں فرق آتا ہے تو عالمی برادری کا رویہ اور مزاج بھی بدل سکتا ہے۔
نریندر مودی نے دیر سے ہی سہی اچھے خیالات کا اظہار کیا ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ مدارس، اسکولس، میں سرسوتی وندنا کا لزوم یہ بنیادی دستوری حقوق پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ نصاب تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے کی منصوبہ بندی کو ترک کرنا ضروری ہے۔ گھر واپسی جیسے واہیات پروگرامس پر پابندی ناگزیر ہے۔سستی شہرت کے لئے مذہبی منافرت پیدا کرنے والے اشتعال انگیز بیانات اور تقاریر سے روکنے کے لئے انتہا پسند خیالات کے حامل قائدین کی زبان کو لگام دیا جانا چاہئے۔ اگرایسا ہوتا ہے تو ہندوستان سیکولر ہی رہے گاورنہ مذہب، ذات پات، زبان اور علاقہ واری تعصب سے اس ملک کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا۔مذہبی رواداری، باہمی احترام، صرف کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے لئے نہیں بلکہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے ضروری ہے۔ ہم جب دوسروں سے خیرسگالی اور رواداری کی امید رکھتے ہیں تو ہم سے بھی ایسے توقعات دوسری اقوام وابستہ رکھتی ہیں۔
لہٰذا ہم بھی اپنی زبان، لب و لہجہ کو قابو میں رکھیں۔ اُن عناصر سے اپنی قوم کا دامن بچائے رکھیں جو مذہبی جذبات کو ہوا دے کر اپنی نیّا پار لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔آج کے حالات میں جذبات سے زیادہ تجربات کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ جذبات انسان کا ہوش چھین لیتے ہیں۔ اور جب ہوش میں آتے ہیں تو دوسرے وقت اور کھوئے ہوئے مال، متاع وقار پر افسوس کرتے رہ جاتے ہیں۔

«
»

پانچ بیماریاں ۔ایک ٹیکہ

دولت کی بھوک اور شہرت کا روگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے