خوش ہو کہ ملا زادِ سفر حسنِ عمل کا
منزل پہ جو پہنچو ہو تو خوش فکر پھرو ہو
البیلا اچھوتا تیرا اسلوبِ سخن تھا
اندازِ نگارش میں تو خود میرؔ لگو ہو
وہ نثر ہو یا نظم نرالی تیری تحریر
ہر صنف میں تو ماہر و فنکار بنو ہو
ہر شعر تیرا درد و کسک سے رہا معمور
ہر نظم کو مفہومِ غمِ جاں سے بھرو ہو
داعی بھی، مبلغ بھی ہو تصویر سلف بھی
ہر شخص کو ایک پیکرِ اخلاص لگو ہو
سچائی و حق گوئی و بے باکی و تاثیر
کردارِ غزل اپنا یہ ہر فن میں رکھو ہو
ہو عشق کے ابواب میں عنوانِ وفا تم
مضمون میں دلسوزئ جذبات لکھو ہو
ہیں کارِ نمایاں تیرے اقلیمِ سخن میں
اک شاہِ غزل بن کے تو مشہور رہو ہو
دنیا ئے ادب سے ہیں اٹھے حضرتِ عاجزؔ
ڈھونڈے سے بھی تم سا کوئی ہر گز نہ ملو ہو
یہ تیرا سخن سب کو پسند آئے گا نعماںؔ
اسلوب میں عاجزؔ کے یہ اشعار کہو ہو
بتاریخ : ۲۶ ربیع الثانی ۱۴۳۶ ہجری
جواب دیں