اُنھوں نے اپنے پہلے شعری مجموعہ’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘میں اس سارے حادثے کا نقشہ اِس اندازمیں کھینچاہے کہ پڑھنے والا اگر کمزور دل کا ہے، تو وہ آہیں بھرنے،سسکیاں لینے لگتا ہے اور آنکھوں سے آنسووں کی لڑی جاری ہوجاتی ہے۔ ان کی شاعری میں بلا کی سادگی ہے،وہ دل کی بات،دل سے اور انتہائی سادہ اسلوب میں کہتے ہیں،وہ اردوکے اکیلے ایسے شاعر ہیں،جونہ صرف پیرویِ میرمیں پوری طرح کامیاب رہے؛بلکہ ان کے اور میر کے اندازِ شعرگوئی اور فکر ونظر و اسلوب و الفاظ میں اس قدر مماثلت ہے کہ اگر دونوں کے اشعار کو ایک جگہ رکھ دیاجائے تو یہ امتیاز کرنا مشکل ہوجائے گا کہ میرکا شعر کون سا ہے اور کلیم عاجز کاکون سا۔بنیادی طورپر۱۹۴۶ء کے الم ناک و دل خراش سانحے نے اُنھیں شعرو شاعری کی راہ پر ڈالا،خود اُن کا کہناتھا:
وہ جوشاعری کا سبب ہوا،وہ معاملہ بھی عجب ہوا
میں غزل سناؤں ہوں اس لیے کہ زمانہ اس کوبھلانہ دے
یعنی وہ اپنے اوپربیتنے والے سانحے کواپنی شاعری کے واسطے سے ذہن و دل اور زبان پر تازہ رکھنا چاہتے تھے،مگرانھوں نے اپنے دل کے احوال کی تعبیر و اظہار کے لیے جو اسلوب اختیار کیا،وہ ایسا تھا کہ پہلی نظر میں وہ ہر سننے والے کواپنی جانب متوجہ کرتا اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ کلیم عاجز اپنی زبان میں اس کے دل کی بات کہہ رہے ہیں،ان کامسلک یہ تھاکہ:
جہاں غم ملا ،اٹھایا،پھراسے غزل میں ڈھالا
یہی دردِ سر خریدا،یہی روگ ہم نے پالا
یہی وجہ ہے کہ جہاں وہ غمِ ذات کی ترجمانی پوری مہارت کے ساتھ کرتے تھے،وہیں غمِ دوراں کی جھلکیاں بھی ان کے اشعار،نظموں اور غزلوں میں بھر پور اندازمیں پائی جاتی تھیں،اُنھوں نے یہ طے کررکھاتھاکہ:
حقیقتوں کا جلال دیں گے،صداقتوں کا کمال دیں گے
تجھے بھی ہم اے غم زمانہ،غزل کے سانچے میں ڈھال دیں گے
سوانھوں نے واقعتا غم ہاے روزگارکو غزل کی پرکشش پوشاک میں پیش کیا۔اپنے افکار و خیالات کے اظہار میں بسا اوقات ان کا لب و لہجہ تلخ بھی ہوجاتا تھااوراس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت ہی حساس انسان تھے اور احوالِ دنیا سمیت اپنے ملک کی صورتِ حال پر وہ بہت کڑھتے تھے،ان کے اوپر توناانصافی اور ظلم و جبر کا ایک پہاڑگزرچکاتھا،مگرجب وہ آزادیِ ہندپرچھ دہائیاں بیت جانے کے باوجوداُن مظالم کوسراٹھائے ہوئے دیکھتے،توان کے دل دماغ اور روح میں ایک لاواپکنے لگتا تھا،جواشعارکے روپ میں ان کی زبان سے نکلتا اور سننے والے کبھی ہنستے،کبھی اشک فشانی کرتے اور کبھی انھیں واہ واہیوں سے نوازتے تھے،ان کی اِس قسم کی بہت سی نظمیں اور غزلیں ہیں،چند اشعار:
تجھے سنگ دل یہ پتاہے کیا کہ دکھے دلوں کی صداہے کیا؟
کبھی چوٹ تونے بھی کھائی ہے،کبھی تیرا دل بھی دکھاہے کیا؟
تورئیسِ شہرِ ستم گراں،میں گداے کوچۂ عاشقاں
توامیر ہے،توبتامجھے میں غریب ہوں تو براہے کیا؟
توجفامیں مست ہے روزو شب،میں کفن بدوش غزل بلب
ترے رعبِ حسن سے چپ ہیں سب،میں بھی چپ رہوں تو مزاہے کیا؟
یہ کہاں سے آئی ہے سرخ رو،ہے ہر ایک جھونکا لہولہو
کٹی جس میں گردنِ آرزو،یہ اسی چمن کی ہوا ہے کیا؟
جارحانہ،مگردردانگیز اسلوب کا ایک اور منظر:
میرے ہی لہو سے گزراوقات کروہو!
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کروہو!
دن ایک ستم ایک ستم رات کروہو
وہ دوست ہودشمن کوبھی تم مات کروہو!
دامن پہ کوئی چھینٹ،نہ خنجرپہ کوئی داغ
تم قتل کروہوکہ کرامات کروہو؟!
یہ بھی کلیم عاجز کی شاعری کا خاصہ ہے کہ گوان کے اشعار زیادہ ترکسی بڑے ذاتی یا قومی حادثے،سیاسی اُتاچڑھاؤ اور اُتھل پتھل کے پس منظرمیں ہوتے ہیں،مگرچوں کہ وہ اظہارِ خیال کااُسلوب اور الفاظ و انداز ایسا اختیار کرتے ہیں کہ سامع یا قاری کا ذہن اولِ وہلہ میں حسن و عشق کے ظاہری معاملات کی طرف مڑجاتا اوروہ بھی ان کے اشعارکے مافیہ سے خوب محظوظ ہوتاہے۔
الفاظ کی سادگی،معانی کی گہرائی و گیرائی،خیالات کی نازکی و لطافت،پیراےۂ بیان و اسلوبِ ادا کی جدت و جودت؛یہ وہ عناصر ہیں جوکلیم عاجزکے کلام کوہجوم میں بھی انفرادیت کی خصوصیت بخشتے ہیں،وہ نظربظاہر میرکے پیروکارہیں اور اِس کا خود اُنھیں بھی اعتراف ہے،مگر بہت ساری جگہوں پروہ میرسے بھی الگ نظرآتے ہیں، اُن کااپناایک مخصوص آرٹ ہے اور ان کے اس آرٹ کو کلیم الدین احمدجیسے جارح نقاد سے لے کر علامہ جمیل مظہری تک نے منہ بھربھرکے سراہاہے۔فراق گورکھپوری نے توکلامِ عاجزپررشک کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ:
’’ان کا کلام مجھے اتنا پسند آیا کہ مجھے تکلیف سی ہونے لگی اور کلیم صاحب پر غصہ آنے لگا کہ وہ اتنا اچھا کیوں کہتے ہیں؟ان کے اس جرم اور قصور کے لیے انھیں کبھی معاف نہیں کر سکتا،اتنی دھلی ہوئی زبان،یہ گھلاوٹ،لب و لہجہ کا یہ جادو،جو صرف انتہاے خلوص سے پیدا ہوسکتاہے،اس سے پہلے مجھے کبھی اِس موجودہ صدی میں دیکھنے اور سننے کو نہیں ملاتھا،میں ان کا کلام سن کر خود اپنا کلام بھول گیا‘‘۔
کسی نہ کسی درجے میں خود کلیم عاجز صاحب کو بھی اپنی انفرادیت کا احساس تھااوریہی وجہ تھی کہ اُنھوں نے کہا:
زمانہ قدرکر،ہاں قدرکرہم کج کلاہوں کی
کہ پیدا اِس نمونے کے جواں ہر دم نہیں ہوں گے
زمانے نے ان کی قدر کی یانہیں کی،اس کا اندازہ وقیاس تو ناقدینِ ادب و شعر(حسبِ روایت!) اَب لگانا شروع کریں گے،مگرہم اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ بلا شبہ کلیم عاجز اپنے عہدکے یکتا،منفرد،ممتازاور فائق ترین شاعرتھے۔ان کے جیسا نہ ان کی زندگی میں کوئی شاعرپایاگیااوران کے مرنے کے بعد کی خبرتوخیرخداجانے!
کلیم عاجزکی تعلیم گریجویشن سے لے کر پی ایچ ڈی تک پٹنہ یونیورسٹی میں ہوئی،وہیں سے اُنھوں نے ۱۹۵۶ء میں بی اے اور ۱۹۵۸ء میں ایم اے (اردو)کا امتحان امتیازکے ساتھ پاس کیاا اور گولڈ میڈلسٹ قراردیے گئے،پھریہیں سے۱۹۶۵ء میں ’’بہارمیں اردوشاعری کا ارتقا‘‘پرتحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔بعدازاں یہیں تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔
مذہب سے لگاؤان کے پورے گھرانے کو ہمیشہ سے رہا،ان کے خاندان میں دینیات کے عالم اور شعائرِ اسلام کے پابند بزرگ پائے جاتے رہے،سو ڈاکٹرکلیم عاجز بھی عملی دنیامیں ہوش سنبھالنے سے لے کر تاوفات ایک انتہائی متدین اورشکل و صورت و لباس و پوشاک کے اعتبارسے معروف معنو ں میں ’’مولانا‘‘ہی دِکھتے تھے؛بلکہ تبلیغی تحریک سے اُنھیں قلبی لگاؤتھا اور ایک عرصے تک وہ اس کی بہاریونٹ کے ذمے داراوراس کے شورائی نظام کے ایک موقر رکن بھی رہے۔وہ ایک عابد،زاہد اور شب بیدارمسلمان تھے،ان کی راتیں شعرو شاعری کی گتھیاں سلجھانے میں ہی نہیں،اپنے رب کے حضوررونے گڑگڑانے میں بھی گزرتی تھیں اوروہ اُسی پابندی کے ساتھ تہجد کی نمازبھی پڑھاکرتے تھے،جس پابندی کے ساتھ پنج وقتہ نماز پڑھاکرتے ۔دنیابھرمیں ان کے شاگردوں،معتقدین اور مستفیدین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ان کی تصانیف بھی بیسیوں ہیں،جن میں وہ جو شاعری کا سبب ہوا(پہلا شعری مجموعہ) ، ابھی سن لو مجھ سے!(خودنوشت سوانح)،پھرایسا نظارہ نہیں ہوگا،مجلس ادب(تنقیدی مضامین)جب فصلِ بہاراں آئی تھی،یہاں سے کعبہ،کعبہ سے مدینہ(سفرِ حجاز)،ایک دیش ایک بدیسی(سفرِ امریکہ)،جہاں خوش بوہی خوش بوتھی(خود نوشت)،دیوانے دو(خطوط)،کوچۂ جاناں جاناں خاصی شہرت رکھتی ہیں،ان کے علاوہ بھی ان کی کتابیں ہیں،دوسروں نے بھی ان کے کچھ خطوط وغیرہ مرتب کیے ہیں،کئی یونیورسٹیوں میں ان کی حیات و ادبی خدمات پر پی ایچ ڈی کے مقالے بھی لکھے گئے ہیں۔ان کے اشعارکی مانند ان کی نثربھی جوے سلسبیل سے کم نہیں ہے، وہ بہت ہی عمدہ،خوب صورت اور دھلی دھلائی نثربھی لکھتے تھے۔اللہ ان کی مغفرت فرمائے،ًان کی وفات یقیناادب و شعرکے ایک قابلِ رشک اور زریں دورکا خاتمہ ہے۔
جواب دیں