عہد نبوی میں نظامِ حکومت

جس میں آپکی ذہانت و فراست، حکمت و دانائی، اور سمجھ بوجھ کے حیرت انگیز نمونے سامنے آجاتے ہیں، اور انسان محوِحیرت ہوجاتاہے کہ ایک فردِبشر صرف تیئیس(۲۳)سال کے مختصر ترین عرصہ میں کس طرح دنیا کے ایک وسیع خطہ اور اس پر آباد انسانیت کے دل کی ڈھڑکن ؔ بن جا تا ہے ۔
قائدِ انسانیتؐ نے اصلاحِ معاشرہ کے دو بنیادی مآخذ کتاب و سنت مھیا کئے، اور حکومتِ الھیہ کا نفاذ منشا الہی کے مطابق فرمایا، گویا حضورؐ نے حضراتِ صحابہ کو پہلے ہی مرحلہ میں اس بات سے آگاہ کردیا کہ یہ خود ساختہ اور وضعی قوانین کا پلندہ نہیں، بلکہ ساختہ پرداختہ فرامین کا محکم مجموعہ ہے۔رہبرِاعظمؐنے تقریبا تیئیس (۲۳)برس امت کی قیادت فرمائی،جسمیں سے تیرہ سال مکہ میں گذارے اور دس(۱۰) سال مدینہ منورہ میں، اور مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک عقائد پر محنت کرتے رہے، باشندگانِ مکہ سے محبت کرتے رہے، لیکن جب اہل مکہ نے محبت کا جواب نفرت سے، دل جوئی کا جواب دل آزاری سے دیا، تو سرزمینِ مکہ باوجود وسعتوں کی شاہ راہ ہونے کے کلفتوں کی آماجگاہ بن گئی، اسی دوران کہ آپ پُر امن علاقہ کی تلاش میں کوشاں تھے، بیعتِ عقبہ اولی پیش آئی، اور اس سے مدینہ کی راہ ہموار ہونے لگی، پھر دوسرے سال موسمِ حج میں بیعت عقبہ ثانیہ پیش آئی، اور مدینہ منورہ سے آئے ہوئے ان پچھتر افراد کے وفد نے آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی، آپ سے مدینہ آنے کی درخواست کی،اور آپ سے ہر طرح کے تعاون کا وعدہ کیا،اس موقعہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے آپ ؐ نے انھی میں سے بارہ افراد کو منتخب فرمایا،اور ان کا نام "نقیب”رکھا، ان نقباء میں نوخزرجی تھے اور تین اوس کے، اور ان نقباء کو حکم دیا کہ وہ یثرب (مدنیہ) جاکر لوگوں کو دین کی باتیں سکھائیں اور اسلام کی تبلیغ کریں، مکہ مکرمہ میں میں خود کام کرتا رہونگا۔
اسی بیعتِ عقبہ ثانیہ سے قائدِ انسانیت ؐ کی حقیقی سیاسی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اور ریاستِ اسلامی کا قیام عمل میں آتا ہے، خداکے حکم سے پہلے مسلمان مدینہ کی طرف چل بسے، اس کے بعد حضورؐ اپنے یارِغار اور رفیق سفر ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ روانہ ہوگئے، راستہ میں مسجد قباکی تعمیر کی گئی، اسلام کا پرچم لہرایا گیا، اور مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کا موقعہ اطمینان کیساتھ ہاتھ آگیا، اسی لئے مدنی زندگی سیاسی زندگی کا ایک اہم و تابناک دور کہلاتا ہے۔
مدینہ پہنچکر سرکارِدوجہاں کی شان دوبالاہوگئی، آپ ؐ پیغمبرو قائد دونوں حیثیتوں سے نمایاں ہوگئے،اور آپ ؐ یہاں کھل کر میدان میں آگئے،اوراحکامِ خداوندی کا نفاذکرناشروع کردیا، چونکہ مدینہ مختلف ادیان و مذاہب کا گہوارہ تھا، اور آپ کو سہ رخی دشمنوں کا مقابلہ درپیش تھا، لھذا یہاں آتے ہی آپ ؐ نے سب سے پہلے(۱) مساوات و اخوت کی تعلیم عام فرمائی،اور باہمی نااتفاقی اور ناچاقی کو ختم کیا،لوگوں کو الفت و محبت اور رشتہ اخوت کا درس دیا، اور فرمایا ساری مخلوق اللہ کی عیال ہے، گویا ایک "کنبہ”ہے اللہ کے نزدیک وہی بندہ برگزیدہ و پسندیدہ ہے جواسکی مخلوق کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کرے(۲) عسکری مہمات کے بارے میں فرمایا کہ یہ ملک و ملت کی بقاء کے اہتمام اور فتنہ و فساد اور ظلم و استبداد کے استیصال کے لئے کی جائے آپ کی زندگی میں کل ۲۷ غزوات پیش آئے، ان اہم غزوات میں آپ ؐ نے بذاتِ خودقیادت فرمائی، البتہ چھوٹے چھوٹے سرائے کی سرداری اکابرین صحابہؓ کے سپرد کی جو بے شمار ہیں۔(۳) کفالتِ عامہ کے لئے بیت المال بنوائے(۴) دارالقضاکا انتظام فرمایا(۵) جگہ جگہ گورنروں کو بھیجا،اور گورنروں کو بھیجنے کا مقصد صرف اور صرف اصلاحِ دین ٹہرایا،اسلئے کہ ولایت و حکمرانی کا لازمی مقصد خلقِ خدا کے دین کی اصلاح ہے، لھذا آپ انھیں وصیت کرکے روانہ فرماتے کہ جانے کے بعد پہلا کام پیغامِ دین کی تبلیغ ہے، 
اسی کے ساتھ آپ ؐ نے بیرونِ ملک کے لئے جو حکمتِ عملی اختیار فرمائی وہ مکمل آئینِ جہانبانی کی آئینہ دار تھی، جس کا بالاختصار خلاصہ یوں ہے(۱) آ پ ؐ نے عرب کی سرحدوں کو بیرونی خطرات سے محفوظ کردیا، (۲) پڑوسی ممالک کے سرداروں کو خطوط کے ذریعہ دعوت اسلام پیش کی(۳)شام کے متصل علاقوں سے رومیوں کے اثرو غلبہ کا یکسر خاتمہ کردیا(۴) جب خبر موصول ہوئی کہ بیرونی دشمن حملہ آور ہونے جارہاہے تو خود آگے بڑھکر اس سے مقابلہ آرائی کی،غزوہ تبوک اس کی روشن مثال ہے(۵) یمن، بحرین، عمان، وغیرہ کو مجوسیوں کے پنجہ خونیں اور ظالمانہ رسوخ و دبدبہ سے آذاد کردیا(۶) سفیروں اور قاصدوں کے احترام کو اپنی مملکت کا اصول قرار دیا، قائدِ اعظم ؐ سیاسی میدان میں بڑے دوراندیش تھے، معاملہ کے تہہ تک پہونچ کر فیصلہ صادر کرتے تھے، چنانچہ جب صلح حدیبیہ کے کے موقعہ پر کفار کی طرف سے معاہدہ کی قرار داد مرتب ہونے لگی، تو آپ ؐ نے اسی وقت انجام کو ٹاڑ لیا تھا، اسی لئے اسکے مطابق ہی آپ نے عملی تدابیر اختیار فرماتے ہوئے قبول فرمایا، جبکہ اجل صحابہؓ قراداد کی قبولیت کے انکار پر مصر تھے، بس جیسے ہی آپ ؐ نے قبول فرمایا، خدا کی جانب سے آپکو مژد�ۂفتح مل گیا،”انا فتحنا لک فتحا مبینا”(ہم نے آپ کو کھلی ہوئی فتح دے دی) پتہ چلابظاہر یہ صلح قریش کے حق میں فتح کی حیثیت رکھتی تھی اور مسلمانوں کے لئے شکست، مگر قرآن نے اسکو مسلمانوں کے حق میں فتحِ مبین اور نصرِعزیز سے تعبیر کیا، اور یہ صلح نامہ فتحِ مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا، اور ادھر حضورؐ کو تبلیغ دینِ خنیف کا پُرامن موقعہ ہاتھ آگیا، اسی زمانہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ ؐ نے حکمرانوں اور والیانِ سلطنت کو خطوط بھیجے، قبائل کیطرف وفود روانہ فرمائے اور کفارِمکہ سے رخ موڑ کر اطمینان کے ساتھ یہودیوں کا تعاقب کرنے لگے، جن سے مسلمانوں کو ہروقت خطرہ لاحق رہتا تھا۔ 
؁ ؁ ۷ ؁ ھجری میں جب بصری کے حاکم شرحبیل بن عمر و غسانی نے محمد ؐ کے قاصد حارث بن عمیر الازدی کو قتل کرکے اسلام کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیاتو آپ ؐ نے اس بغاوت کو کچلنے اور دینِ اسلام کا پرچم لہرانے کے لئے زید بن حارث کی قیادت میں تین ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر روانہ کیا، یہ وہی غزوہ ہے جس کے آخر میں خالد بن ولیدؓ نے قیادت سنبھالی اور اس مہم کو سر کیا اور مسلمان و سالم مدینہ لوٹ آئے۔
خلاصہ یہ کہ عرصہ صلح حدیبیہ ہی میں یہ تمام مہمات سر کی گئیں، اور اسلام کا پیغام جزیرۃ العرب سے نکل کر روم و ایران تک پہنچ گیا، اس طرح یہ معاہدہ کفار کے گلہ کا کانٹا بن گیا، آخر کار وہ عہد شکنی پر اتر آئے اور مسلمانوں کو مکہ میں فاتحانہ داخل ہونے کا موقع مل گیا، اس صلح کو ؤورخین نے بڑی اہمیت دی ہے اور لکھا ہے "یہی وہ صلح حدیبیہ ہے جسے عہدبنوی کی سیاستِ خارجہ کا شاہکار کہنا چاہئے”بحوالہ رسول اکرم کی سیاسی زندگی231 ص 
۸ ؁ ھ میں مکہ فتح ہوگیا، اسکے باوجود بھی نبی کریم ؐ کی کرم گستری اور شانِ رحیمی دیکھئے کہ آپ نے تمام ظالموں اور مجرموں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آج تمھارا کوئی مواخذہ نہیں ہے تم چلے جا ؤ ، تم سب آزاد ہو، اب مکہ بتوں ا ور بت پرستوں سے پاک ہوگیا، اور اسلام نئی شان و آن کے ساتھ سرزمینِ مکہ میں داخل ہوگیا، خانۂ خدا نورِاسلام سے معمور ہوگیا، مسلمانوں کو استحکام ملا، تو آپ ؐ نے مناسب سمجھا کہ صحابہ کو تبلیغِ دین کے لئے دنیا کے گوشہ گوشہ میں بھیجا جائے، آپ کے ایک اشارہ پر شمعِ ہدایت کے پروانے علمبردارِاسلام ہوکر منتشر ہوگئے، اور چیدہ چیدہ ممالک میں اسلام زور پکڑنے لگا، اس وقت جو ممالک فتح ہوگئے تھے ان میں خصوصا، حجاز، یمن، بحرین، اور عمان کا ذکر آتا ہے، اور فتح مکہ میں نظامِ حکومت کے دو مخصوص اصول مرتب کئے گئے اور یہ وہ اصول تھے جو اس سے پہلے کبھی ترتیب نہیں دئے گئے تھے، ایک فوجی نظام اور قانونِ جنگ کی نشاندہی کی گئی، تو دوسرے مذہبی وحدت کا عمومی اعلان کردیا گیا۔
فتح مکہ کے بعد بھی وقتا فوقتا فرامین جاری ہوتے رہے، اور اسلامی معاشرے کی تشکیل عمل میں آتی رہی، آخری دستہ جو حضور ؐ نے تیار فرمایا تھا، اس کا رخ موتہ کی جانب تھا، جس کے لئے آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ لشکر اسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں روانہ ہوگا لیکن اس پر عمل درآمد سے پہلے ہی آپ ؐ اس دنیائے فانی کو خیر باد کہ دیا "انا للہ وانا الیہ راجعون”
۱۰ ؁ ھ کو حجۃ الوداع کے موقع پر ہادی اعظم ؐ نے پوری انسانیت کو دائمی دستور عطاکیا ،جس کو مؤرخین نے انسانیت کا منشور اعظم قرار دیا ہے، اور اس دائمی منشور کا خلاصہ ہے،(۱) کتاب اللہ و سنتِ رسول پرعمل پیرا ہونا،(۲) انصاف پسندی کو شعار بنانا(۳) تقوی کو فضیلت کا معیار قرار دینا (۴) فرضِ منصبی کی تبلیغ پوری دنیا میں چل پھر کر کرنا۔
یہ عھدِنبوی میں نظامِ حکومت کا مختصر خلاصہ ہے ورنہ سچ پوچھئے تو ۔ سفینہ چائیے اس بحرِبیکراں کے لئے۔

«
»

پانچ بیماریاں ۔ایک ٹیکہ

دولت کی بھوک اور شہرت کا روگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے