ممکن ہے وی ایچ پی کی جانب سے رام مندر معاملے میں بھی سرکار کو گھیرنے کی کوشش ہو اور اس سے کہا جائے کہ وہ جلد سے جلد اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کرائے۔اس پروگرام میں گھر واپسی، لوجہاد، کامن سول کوڈ اور دوسرے متنازعہ ایشوز کو اٹھایا جاسکتا ہے، جس سے مرکزی سرکار کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ ایک طرف جہاں وزیر اعظم نریندر مودی ان باتوں سے خود کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں وہیں دوسری طرف سنگھ پریوار کے اندر مودجود ان کے مخالفین ہی ان کے لئے مسائل کھڑے کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسے اتفاق کہا جائے یا جان بوجھ کر کیا گا فیصلہ کہ جن دنوں میں دلی میں وشو ہندو پریشد کا سمیلن چل رہا ہوگا ان دنوں پارلیمنٹ کا بجٹ سشن بھی چل رہا ہوگا۔ گویا یہ طے مانا جارہا ہے کہ جس طرح سرمائی اجلاس کے دوران کوئی کام کاج نہیں ہوپایا اور اس کا بڑا سبب بی جے پی لیڈرون کے متنازع بیانات تھے اسی طرح بجٹ سشن میں بھی رکاوٹ کے امکانا ت ہیں۔
کل کے دوست، آج کے دشمن
نریندر مودی اور پروین توگڑیا دونوں کا تعلق گجرات سے ہے اور دونوں پرانے دوست رہے ہیں۔ دونوں نے سنگھ پریوار کے ساتھ ایک ہی دور میں اپنا سفر شروع کیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے ہیں مگر جب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تب پروین توگڑیا سے ان کے اختلافات شروع ہوگئے تھے اور تب سے وہ دونوں ایک دوسرے کو ایک آنکھ دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ مودی نے گجرات میں وشو ہندو پریشد کی سرگرمیوں کو محدود کردیا تھا اور توگڑیا کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ یہاں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اترپردیش سے آندھرا پردیش تک اپنے جلسے کرتا پھرتا تھا مگر گجرات میں اسے کسی قسم کی سرگرمی میں مصروف نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ مودی گجرات چھوڑ کر دلی آچکے ہیں اورتوگڑیا کو اب کوئی لگام دینے والا نہیں ہے۔ اب وہ ہر طرف اپنے جلسے جلوس کرسکتا ہے۔ مودی کے لئے مشکل یہ ہے کہ وہ وزیر اعظم ہیں اور جلسے جلوس کا معاملہ ریاستی سرکار کے تحت آتا ہے۔ آج وہ جس مقام پر
ہیں وہاں رہتے ہوئے چھوٹے چھوٹے معاملوں میں دخل اندازی ان کے شایانِ شان نہیں ہے مگر اسی قسم کے لیڈران ان کی راہ کے روڑے ثابت ہورہے ہیں۔ پروین توگڑیا نے ان کے لئے کچھ مسائل کھڑے کرنے شروع کردیئے ہیں حالانکہ یہ معاملہ صرف توگڑیا تک محدود نہیں ہے بلکہ خود بی جے پی کے لیڈران بھی مودی کے لئے مشکلیں کھڑی کر رہے ہیں اور انھیں پریشانیوں میں ڈال رہے ہیں۔ ساکشی مہاراج، یوگی آدتیہ ناتھ اور سادھوی نرنجن جیوتی اس کی مثال ہیں جن کے سبب پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں سرکار کے سامنے دقتیں آئیں۔ حالانکہ خبر ہے کہ نریندر مودی نے پارٹی کو کہا ہے کہ جو لیڈران الٹے سیدھے بیانات د ے رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ دوسروں کی ہمت نہ بڑھے۔ویسے پروین توگڑیا جیسے لیڈران بی جے پی نہیں بلکہ وشو ہندو پریشد کے ممبر ہیں جس کی وجہ سے پارٹی ان کے خلاف کاروائی کر بھی نہیں سکتی ہیں۔ وشو ہندو پریشد ایک آزاد سنگٹھن ہے جس کو اگر کوئی نٹرول کرسکتا ہے تو وہ آر ایس ایس ہے کیونکہ وہی ااس قسم کی تمام تنظیموں کی بانی ہے۔
قابو میں آنے کو تیار نہیں توگڑیا
نریندر مودی کی کوشش ہے کہ وہ آر ایس ایس کو کہیں کہ وہ وشو ہندو پریشد پر لگام کسے مگر وی ایچ پی میں خودپسندی اس قدر آچکی ہے کہ وہ کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے۔ وشو ہندو پریشد کے ایک لیڈر سریندر کمار کا کہنا ہے کہ سنگھ کی طرف سے اس پر دباؤ ہے کہ متنازعہ ایشوز کو نہ اٹھائیں اور سرکار کے لئے کسی قسم کی مشکلیں نہ کھڑی کریں ۔ رام مندر، کامن سول کوڈ، لوجہاد اور گھر واپسی جیسے مسائل سے اسے دور رہنے کو کہا جارہا ہے مگر وشو ہندو پریشد ان ایجنڈوں سے قدم پیچھے ہٹانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اس نے فیصلہ کیا ہے کہ دلی میں ہونے والے اس کے سمیلن میں ان تمام ایشوز کو اٹھایا جائے گا اور مرکزی سرکار سے مانگ کی جائیگی کہ وہ جلد از جلد رام مندربنانے کا اپنا وعدہ پورا کرے۔ غور طلب ہے کہ ان دنوں وشو ہندو پریشد کی جانب سے پورے ملک میں پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔ یہ سب اس کے پچاسویں یوم تاسیس کے سلسلے میں ہو رہا ہے۔ حال ہی میں پروین توگڑیا نے بریلی میں ایک ایسے ہی پروگرام میں شرکت کی جس کے انعقاد کی اجازت اترپردیش سرکار نے دی تھی۔ حالانکہ خبر تھی کہ بریلی کے ڈی ایم نے اس کی اجازت دینے میں پس وپیش کیا اور مشروط اجازت دی مگر توگڑیا نے ضلع مجسٹریٹ پر چوٹ کرنے سے خود کو باز نہیں رکھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس ملک میں ہندووں کی آبادی کم ہوتی جارہی ہے اور اگر یہاں ہندو اقلیت میں آگئے تو آپ ضلع مجسٹریٹ کیسے رہیں گے؟ توگڑیا کا کہنا تھا کہ اس ملک میں مسلمان دس دس بچے پیدا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہندو اقلیت میں آرہے ہیں۔ رام مندر معاملے میں جب اس سے میڈیا نے سوال کیا تو اس نے کہا کہ یہ سوال بی جے پی سے پوچھنا چاہئے کہ رام مندر کب بنے گا۔ وہ بی جے پی کا ترجمان نہیں ہے کہ اس سوال کا جواب دے۔
وراٹ ہندو سمیلن کی تیاریاں
وراٹ ہندو سمیلین دلی کے جواہر لعل نہرو اسٹیڈیم میں پہلی مارچ کو ہونے جارہا ہے جس کا اہتمام وشو ہندو پریشد کی طرف سے کیا جارہا ہے اور اس کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ اس سمیلین میں پورے ملک سے ایک لاکھ ہندووں کو جمع کرنے کا پلان ہے۔ وشو ہندو پریشد کے ترجمان ونود بنسل کا کہنا ہے کہ پورا سنگٹھن اس کی تیاریوں میں مصروف ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ یادگار سمیلن ہو۔ غور طلب ہے کہ اس
میلن سے چند دن قبل ہی پارلیمنٹ کا بجٹ سشن شروع ہوگا اور سمیلن کے بعد بھی جاری رہے گا۔ یہی سبب ہے کہ سیاسی حالات پر نظر رکھنے والوں کو لگتا ہے کہ اس کی تاریخ جان بوجھ کر مودی کو پریشان کرنے کے لئے رکھی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس سملین میں گؤ کشی پر مکمل پابندی اور گائے کو قومی ماں کا درجہ دیئے جانے کا مطالبہ مرکزی سرکار سے کیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے منصوبہ پر سرکار سے سوال پوچھا جائے گا۔ غور طلب ہے کہ وشو ہندو پریشد اس معاملے پر ایک مدت سے تحریک چلا رہا ہے اور اس کی پہچان ہی اسی تحریک سے قائم ہوئی ہے۔ اس نے رام مندر کے لئے ساری دنیا سے چندے بھی جمع کئے ہیں مگر اب یہ ایشو پیچھے چلا گیا ہے ۔ آج اس موضوع پر نہ بی جے پی کچھ بولتی ہے اور نہ ہی وشو ہندو پریشد کچھ سانس ڈکار لیتی ہے، لیکن اس سمیلن میں یہ اہم ایجنڈا بن سکتا ہے اور مودی کے سامنے مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ اس سمیلن میں ’’گھر واپسی ‘‘کا ایشو بھی گرم ہو گا جس پر مودی کے بیان کو لے کر پچھلی بار پارلیمنٹ میں ہنگامہ مچا تھا اور کچھ کام نہیں ہوپایا تھا۔ اپوزیشن کی ضد تھی کہ پہلے مودی اس معاملے میں بیان دیں اس کے بعد ہی کچھ دوسرا کام ہوگا۔ وشو ہندو پریشد اک بار بپھر اسی ایشو کو گرم کرنا چاہتی ہے۔ ’’لوجہاد‘‘ کا معاملہ بھی وشو ہندو پریشد کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے اور وہ اس معاملے کو بھی وراٹ ہندوس ملین میں اٹھائے گا۔ وہ اپنے ورکروں سے کہہ سکتا ہے کہ وہ پورے ملک میں اس سلسلے میں تحریک چلائیں ۔
امیج سے نکلنے کی کوشش
ہندتو کا ایجنڈا بی جے پی سمیت پورے سنگھ پریوار کا ایجنڈا ہے مگر اس کا استعامل ہمیشہ وہ سرکار میں آنے کے لئے کرتا آیا ہے ۔ جب وہ سرکار میں ہوتا ہے تو کبھی ہندوتو کی بات نہیں کرتا ہے۔ گجرات کے ۲۰۰۲ء کے فسادات کے بعد نریندر مودی کی امیج بھی ہندتو وادی کی بن گئی تھی اور اس کے بعد گجرات میں ہونے والے مسلمانوں کے فرضی انکاؤنٹرس نے ان کی اس امیج کو مزید سان چڑھایا مگر لوک سبھا الیکشن میں انھوں نے اپنی وکاس وادی امیج کو چمکانے کی کوشش کی۔ انھوں نے ہندتو کے ایجنڈے کو چھیڑنے کے بجائے ترقی کے ایشو کو آگے بڑھایا اور ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘‘ کے نعرے کے ساتھ آگے بڑھے مگر اس وقت ان کے سامنے ایک بار پھر وہی ہندتو کا مسئلہ کھڑا ہے جس سے وہ پیچھا چھڑانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ وشو ہندو پریشد انھیں اسی راستے پر لے جانا چاہتی ہے جس سے وہ دور ہوئے ہیں۔ اس راستے پر اس وقت چلا جاسکتا ہے جب پارٹی اپوزیشن میں ہو مگر جب وہ سرکار میں ہو تو اسے سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے جس پر عمل کی کوشش وزیر اعظم نریند رمودی کر رہے ہیں۔اس کوشش میں مودی اور وی ایچ پی کے بیچ ٹکراؤ بڑھ رہا ہے اور یہ ٹکراؤ کہا ں تک جائے گا ،کہا نہیں جاسکتا ہے۔ آر ایس ایس یہاں ثالث کے رول میں ہے مگر کچھ جگہوں پر وشو ہندو پریشد اس کی بھی نہیں سنتا ہے اور فی الحال مودی اور توگڑیا کے جنگ میں یہی صورتحال ہے۔
جواب دیں