وزیر مالیات ارون جیٹلی نے بہر حال واضح کیا ہے کہ الیکشن میں ہارجیت سے معاشی اصلاات کی رفتار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہند امریکا معاشی تعاون کے پانچویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر جیٹلی نے کہا کہ پارلیمانی الیکشن میں کامیابی کے بعد ہم چارریاستوں میں کامیاب رہے اس لئے ایک میں ہار نے سے ہم معاشی اصلاات کی رفتار کو کم نہیں کر سکتے دراصل مسٹر جیٹلی امریکی نمائندوں اور سرمایہ کاروں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان حکومت معاشی اصلاات کے اپنے عہد پر قائم رہے گی اس لئے امریکہ اور دیگر ملکوں کے سرمایہ کاروں کو پریشان یا شک میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان میں حکومت بدلنے کے ساتھ ایک نیا ماحول سامنے آیا ہے معاشی محاذ پر سرگرمی بڑھی ہے مودی حکومت نے سرمایہ کاروں میں نیا اعتماد پیدا کیا ہے لیکن محض سرمایہ کاروں کااعتماد یا سرمایہ کاری میں اضافہ سے نہ ترقی کے منازل طے ہوں گے نہ عوام کی ضروریات پوری ہوں گی ضرورت ایک ایسے متوازن نظام کی ہے جس میں سماج کا ہر طبقہ ترقی کے پھل چکھ سکے ۔ اس محاذ پر مودی حکومت ابھی تک ناکام دکھائی دی ہے اور جن اچھے دنوں کا وعدہ کیا گیا تھا وہ ابھی دور دور تک نہیں دکھائی دیتے۔
بی جے پی کی مکمل اکثریت والی مرکزی حکومت بننے کے بعد ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک امید کی لہر دوڑتی دکھائی دے رہی تھی۔لوگوں کو امید ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ملک میں گذشتہ کئی برسوں سے مسلسل بڑھتی مہنگائی اور قابل رحم اقتصادی حالت کو جلد ہی درست کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔غیر ملکی سرمایہ کار، جو پچھلی مرکزی حکومت کی حکمرانی کے دوران التوا کے شکار بے شمار منصوبوں اور مبینہ کرپشن کی وجہ سے مایوس بیٹھے تھے، اب خوش ہیں کہ بھارت کی صنعتی ترقی میں تیزی آئے گی۔
عالمی اقتصادی فورم کی حالیہ رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ قوموں کی معیشت کو پرکھنے کے کئی معیار ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں ہندوستان بہت پسماندہ ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندستانی معیشت ہنگامی دور سے گزر رہی ہے۔ اس رپورٹ نے 144 ملکوں کی اقتصادی حالت اور مستقبل میں ان کی ترقی کی شرح کے امکانات کو کے بارے میں اندازے لگائے ہیں۔ہندستان ان ممالک میں 71 ویں مقام پر ہے، جو پچھلی رپورٹ سے 11 نمبر نیچے چلا گیا ہے۔ یہی نہیں، گذشتہ چھ برسوں سے ہندستان مسلسل ان معیارمیں نیچے پھسلتا جا رہا ہے۔ملک میں کام کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن ان کا استعمال نہیں کیا جا رہاایشیا کے دو بڑے ملک چین اور ہندوستان کی اقتصادی ترقی کو اکثر ایک مقابلے کی طرح دیکھا جاتا ہے۔2007 میں ہندوستان چین سے صرف 14 مقام پیچھے تھا اور اب یہ فاصلہ 43 ہو گیا ہے اور اب چین ہندوستان سے چار گنا زیادہ امیر ملک ہے۔ تو ایسی کون سے وجوہات ہیں جو ہندوستان کو مسلسل پیچھے دھکیل رہی ہیں؟ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق کسی ملک کی معیشت کو ترقی کی بہتر شرح کو برقرار رکھنے کے لیے تین مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔پہلا اصول ہے بنیادی سہولیات، یعنی صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات۔ ان کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ مہنگائی، مالی خسارہ اور درآمدات اور برآمدات کے نظام کو بھی مضبوط بنایا جانا چاہیے۔ اس وقت معیشت ہنگامی دور سے گزر رہی ہے ان دونوں ہی معیارات پر ہندوستان کی پوزیشن قابلِ رحم ہے۔ اس کو تبدیل کرنے کے لیے سرکاری و نجی تنظیموں کی سرگرمیاں، باہمی تال میل اور نوکرشاہی نظام کا فعال ہونا ضروری ہے۔اس بنیادی ڈھانچے کے کمزور ہونے سے کوئی بھی معیشت جلد یا بدیر ضرور لڑکھڑا جائے گی۔
ایجنسیوں اور دیگر ذرائع سے موصول اطلاعات کے مطابق ہندوستان کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ملک کی معیشت میں گذشتہ برس اکتوبر سے دسمبر کے دوران 7.5 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔لیکن معاشی ترقی کے نئے اعداد اعدادوشمار کے حوالے سے کچھ ابہام پایا جاتا ہے کیونکہ جی ڈی پی کوناپنے کے طریقہ کار بدل دیاگیا ہے۔معاشیات کے ماہرین نے متنبہ کیا ہے ان اعدادو شمار کو احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ہندوستانی معیشت کی گذشتہ تین ماہ کی ترقی پر نظر ثانی کر کے اسے 8.2 فیصد دکھائی گئی ہے جبکہ اس سے پہلے 5.3 فیصد ترقی کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ہندوستان کی شماریات کی وزارت نے رواں برس مارچ کے اختتام تک معاشی ترقی کا ہدف 7.4 فیصد مقرر کیا ہے۔ہندوستان میں گذشتہ تین ماہ کی شرح نمو کو 8.2 تک تبدیل کیا گیا تھا جبکہ اس سے پہلے یہ شرح 5.3 فیصد تھی۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کا نیا فارمولا بین الاقوامی معیار کے نزدیک ترین ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ نیا ڈیٹا دیگر معاشی پیمانوں جس میں ہندوستان کی صنعتی اور فیکٹری کی پیداوار بھی شامل ہے، سے مطابقت نہیں رکھتا۔چند معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ تازہ اعداد و شمار کو شک کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ایسے وقت جب ہندوستان کا اپنا مرکزی بینک معیشت کی ترقی میں سست روی کی بات کر رہا ہے ایسے وقت میں ترقی کے نئے اعداد و شمار مشکوک ہو جاتے ہیں۔ایچ ڈی ایف سی کے ماہرِ معاشیات جوتندر کوہل نے بھی اس اعداو شمار پر سوالات اٹھائے ہیں۔انھوں نے اعداد و شمار کی ساکھ پر سوالات اٹھائے ہیں۔حکومت اعداد وشمار کی بازیگری سے تلخ حقائق نہیں بدل سکتی کیونکہ پیٹ کی آگ اعداد وشمار نہیں روٹی سے ہی بجھتی ہے۔
جواب دیں